ٹیسٹوں میں اضافے کے ساتھ ہی کورونا متاثرین کی تعداد بڑھ گئی!
خیبر پختونخوا میں تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود کورونا وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے اور آئے روز اس وبا سے ہلاک شدگان اور متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، گزشتہ تین چار روز کے دوران تو پنجاب اور سندھ کی نسبت بھی کے پی کے میں زیادہ افراد اس موذی مرض کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ کئی گنا زائد افراد ہسپتالوں یا قرنطینہ میں داخل ہیں۔اس کی ایک تاویل تو یہ پیش کی جا رہی ہے کہ جب سے باقاعدہ ٹیسٹ شروع ہوئے ہیں تب سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے، اس حوالے سے وزیر اعلیٰ کے مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا اجمل خان وزیر کا کہنا ہے کہ صوبے میں کورونا وائرس ٹیسٹنگ کی نظر ثانی شدہ پالیسی تیار کی گئی ہے جس کے مطابق پہلے مرحلے میں ٹیسٹ کی تعداد دو ہزار تک بڑھائی جا رہی ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں یہ تعداد پانچ اور پھر 10 ہزار تک بڑھائی جائیگی۔ فرنٹ لائن پر موجود عملہ ٹیسٹ میں پہلی ترجیح ہوگا، متاثرہ افراد کے اہلخانہ کے حوالے سے بھی پالیسی وضع کر لی ہے جس میں ایک گھر میں 5 سے کم افراد ہونے پر تمام کے ٹیسٹ ہوں گے جبکہ تعداد زیادہ ہونے پر زیادہ عمرکے 5 افراد کے ٹیسٹ کیے جائیں گے، اسی طرح متاثرہ شخص کے قریبی افراد کے بھی ٹیسٹ لئے جائیں گے، عوامی معاملات انجام دینے والے افراد میں علامات ظاہر ہونے پر ٹیسٹ کئے جائیں گے۔ جن میں د وکاندار، ٹرانسپورٹ سروس، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ بیرون ممالک سے آنے والے مسافروں کے 48 گھنٹوں کے اندر ٹیسٹ مکمل کرنے کے انتظامات بھی کئے جا رہے ہیں۔ اجمل وزیر نے کورونا ٹیسٹوں کے مجموعی اعداد وشمار بتاتے ہوئے کہا کہ ماہ اپریل میں کل 19543 ٹیسٹ کیے گئے، ابتدا میں صرف 20 ٹیسٹ یومیہ کیے جاتے تھے جبکہ اب تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ کر دی گئی ہے، صوبے میں 122 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس سے کورونا مریضوں کی مجموعی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ ہوگئی ہے ایک دن میں 38 کورونا مریض صحت یاب ہوئے۔ صوبائی حکومت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج کورونا کے آفٹر شاکس سے نبٹنا ہے اور مشکل ترین مرحلہ مہنگائی پر قابو پانا ہو گا، عالمی سطح پرپٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کے بعد عوام کی غالب اکثریت یہ توقع رکھتی ہے کہ ٹرانسپورٹ سمیت اشیائے صرف کی قیمتیں بھی نیچے آئیں گی، رمضان المبارک کے دوران بعض چیزوں کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافے نے روزے داروں کو خاصا پریشان کئے رکھا، بعض اشیائے ضروریہ تو مارکیٹ سے غائب کر دی گئیں جبکہ کئی ایک کی قیمتوں کو پر لگ گئے، ایسا تو ہر رمضان کی آمد سے پہلے دیکھنے کو ملتا ہے لیکن اس بار کورونا کی قیامت نے معاملہ سیر سے سوا سیر کر دیا۔ صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں اقدامات کا اعلان تو کیا ہے لیکن اس کے ثمرات دکھائی نہیں دے رہے، متعلقہ حکومتی اداروں کا فرض ہے کہ وہ عوامی مشکلات اور شکایات کا ادراک کرتے ہوئے مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کریں، یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کے بعد خیبر پختونخوا ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے بھی کرایوں میں کمی کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے صوبائی ترجمان اجمل وزیر کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی ہٹانے کے بعد کرایوں میں کمی پر عملدرآمد شروع کیا جائے گا، اس کمی کا مقصد عوام کو فی الفور ریلیف دینا ہے، لاک ڈاون سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر حکومت احساس پروگرام کے تحت غریبوں کو کیش فراہم کر رہی ہے، وزیراعلی محمود خان کی سربراہی میں پوری صوبائی مشینری کورونا کو شکست دینے کے لئے میدان میں ہے۔ بیرونی ممالک سے آنے والے پاکستانیوں کو مختلف مقامات پر قرنطینہ کیا جا رہا ہے جن کے ٹیسٹ منفی آرہے ہیں انہیں گھر بھیجا جا رہا ہے۔
دوحہ میں ہونے والے امریکہ طالبان امن معاہدے پر عملدرآمد ہو تو رہا ہے لیکن اس کی رفتار سست ہے، درمیان میں امن دشمن کارروائیوں سے کوئی نہ کوئی رکاوٹ بھی حائل آ جاتی ہے جبکہ اکثر کسی نہ کسی فریق کی طرف سے الزام تراشی یا دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، معاہدے کی سب سے اہم شق طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ ہے جو کسی نہ کسی طرح رکتا اور چلتا رہتا ہے، اس پر عملدرآمد میں تاخیری حربے استعمال ہو رہے ہیں جس وجہ سے امن معاہدے پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل میں گاہے بگاہے مشکلات پیش آتی ہیں، ابھی دو روز قبل افغان حکومت نے مشہور زمانہ پل چرخی جیل میں قید طالبان کے 98 قیدیوں کو رہا کر دیا۔ ان قیدیوں کو اْن کی عمر‘ صحت اور بقایا قیدکی سزا کی مدت کی بنیادپر رہا کیا گیا، چند روز قبل طالبان نے بھی امریکہ کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے تحت افغان حکومت کے 52 قیدیوں کورہاکرنے کا دعویٰ کیا تھا جس کے ساتھ طالبان کی طرف سے رہا کئے گئے قیدیوں کی مجموعی تعداد 112 تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی افغانستان میں امن معاہدے پر 100 فیصد عملدرآمد پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم افغانستان میں امن کو خطے اور پوری دنیا میں امن و استحکام کے لئے ناگزیر سمجھتے ہیں۔ فروری 2020ء میں طے پانے والا امریکہ طالبان امن معاہدہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ تمام متعلقہ فریقین کی جانب سے تشدد میں بتدریج کمی کی کوششیں افغانستان میں امن کے قیام کے مقصد میں کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔ کورونا وباسے درپیش غیرمعمولی چیلنج اور رمضان کے مقدس مہینے کا تقاضا ہے کہ ایک سازگار ماحول پیدا کیا جائے، پاکستان تمام افغان جماعتوں اور متعلقہ فریقین کے درمیان سیاسی مفاہمت کی اہمیت پر زوردیتا ہے۔ سب کی شمولیت کا حامل سیاسی نظام بلاشبہ ان کوششوں کو تقویت دینے میں مددگار ہوگا جس کی اس نازک گھڑی میں افغان قوم کو اشدضرورت ہے تاکہ وہ درپیش چیلنجوں سے موثر طورپر نبردآزما ہوسکیں۔
پاکستان نے اہل افغانستان کے حوالے سے رمضان المبارک کے دوران ایک خوش آئند کام کیا ہے وہ یہ کہ لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے افغان خاندانوں کو بھی 12 ہزار روپے فراہم کئے جا رہے ہیں،ابتدائی طور پر 36ہزار خاندانوں میں رقومات تقسیم کی جائیں گی جبکہ دوسرے مرحلے میں ایک لاکھ خاندانوں میں یو این ایچ سی آر کی مدد سے رقوم دی جائیں گی وزیر مملکت برائے سیفران شہریار خان آفریدی نے اس حوالے سے اسلام آباد کی افغان خیمہ بستی میں فوڈ پیکجز کی تقسیم کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مہاجرین کیلئے امداد پرچینی حکومت اور عوام نے بھی خاصا تعاون کیا ہے جس پر ہم ان کے شکرگزارہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چمن اور طورخم بارڈر پوائنٹس اب ہفتے میں پانچ روز کھلے رہیں گے، ان بارڈر پوائنٹس سے پاکستان سے افغانستان گڈز کی نقل و حمل کی اجازت ہوگی، ٹرانزٹ ٹریڈ بھی ان دنوں کھلی رہے گی، روزانہ کم سے کم ایک سو ٹرکوں کو گزرنے کی اجازت ہوگی،