محنت میں عظمت ہے
ایک جاپانی بوڑھادوپہرکے وقت میرے ایک دوست کے پاس آیا۔عمر رسیدہ مگرصاف ستھرا، کلین شیوڈ۔یہ دوست ر ی کنڈیشن گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک ہے۔ شوروم پر کھڑی گاڑیوں پر طائرانہ نظر ڈالنے اور ایک دو گاڑیوں کابغور جائزہ لینے کے بعدوہ دفتر کے اندر بیٹھے میرے نیپالی دوست سے کہنے لگاکہ مجھے ایک پرانا ٹرک چاہئے،جس کے پیچھے کوئی ڈبہ لگا ہو۔ٹرک مگر زیادہ بڑا نہ ہواور زیادہ مہنگا بھی نہیں ہونا چاہئے۔عام طور پر ہمارے غیر ملکی کار ڈیلر جاپانی گاہک دیکھ کرخوش ہوجاتے ہیں،چونکہ اگر یہ گاڑی خریدیں تو عمومی قیمت سے مہنگی خرید لیتے ہیں،اور جب بیچنا چاہیں توانتہائی سستی بیچ جاتے ہیں۔مستقبل کی اسی روشن امید کے ساتھ میرے دوست نے بڑی گرمجوشی سے بوڑھے جاپانی کا استقبال کیا۔
گاہک کی فرمائش پوچھناتوہمارے کاروبار کا اولین زینہ ہوتا ہے۔عموماًلوگ اپنے ذہن میں مطلوبہ گاڑی کا نقشہ لے کر ہی کسی شوروم میں داخل ہوتے ہیں۔یہ بڈھا،مگر اس معاملے میں بہت نرم موقف کا حامل تھا۔جب پوچھا گیا کہ کون سے میکرکا ٹرک ہونا چاہئے؟ٹویوٹا،نسان ہنڈا، مٹسوبشی، مزدایاپھرکوئی اور؟جاپان بزرگ کا جواب تھاکوئی بھی ہو،چلے گا۔آٹومیٹک گیئراورمینول گیئرکا فرق بھی اہم سمجھا جاتاہے، لیکن اس نے اس بابت بھی کوئی مخصوص شرط نہیں لگائی، بلکہ ڈیزل اور پٹرول کا فرق بھی اس کی شرائط کا حصہ نہ تھا۔ چھوٹے ٹرک کا باکس عموماًدوطرح کا ہوتا ہے۔ ایک فریزروالادوسرا سادہ۔
اس باکس کی تفصیل کے متعلق جاپانی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ دونوں میں سے کوئی بھی جو آسانی سے آپ کو مل جائے،چلے گا۔میرے دوست نے مزید کرید کر پوچھاکہ اگرٹرک کے پیچھے المونیم کے باکس کی بجائے ترپال کا باکس لگا ہو تو پھر بھی آپ خرید لیں گے؟بڈھے کا جواب تھا کہ اگر وہ ذرا سستامل جائے تو وہ بھی میں خریدسکتا ہوں۔عمومی طورپر گاڑی خریدنے والے حضرات اپنی پسند کے بارے میں اتنے ڈھیلے ڈھالے نہیں ہوتے۔شائد اسی سبب سے میرے دوست نے ذرابے تکلفی اور اپنائیت سے گاہک کو کافی پلا کر پوچھ لیا کہ بابا جی آپ کو ٹرک چاہئے کس مقصد کے لئے؟آپ نے ا س کا کرنا کیا ہے؟
اس سوال پر بوڑھے جاپانی نے قدرے رازداری کے انداز میں جواب دیا کہ سچ تو یہ ہے کہ مَیں نے اس کا کچھ بھی نہیں کرنا۔کسی بھی کام کے لئے نہیں ہے۔خواہش بس یہی ہے کہ جب میں صبح اپنے گھر کی پارکنگ سے ٹرک لے کر نکلوں تو میرے محلے داریہ سمجھیں کہ میں کام پر جارہا ہوں۔ جب ٹرک واپس لے کر آتادیکھیں تو اہل محلہ کا گمان یہ ہو کہ میں کام سے واپس آرہا ہوں۔یہ کوئی نہ سوچے کہ میں اب کسی کام کا نہیں رہا۔بس فارغ بیٹھا روٹیاں توڑرہا ہوں۔
یہ سچا واقعہ بیان کرنے کا مقصد اس بڑی حقیقت کی طرف آپ کی توجہ دلانا ہے کہ قومیں بلاوجہ ترقی نہیں کرتی ہیں۔عظیم قومیں کام کرنے والوں کی عظمت تسلیم کرتی ہیں۔سماج کا رویہ یہی ہے کہ جو محنت مشقت کرتاہے گلی محلے میں اسی کی عزت ہوتی ہے۔
حکومت سے اچھے ترقیاتی کاموں اورکارِ خیر کی توقع رکھنا عوام کا حق ہوتا ہے۔چاہے وہ تحریک انصاف کی حکومت ہی کیوں نہ ہو۔ سرکارسے کرشمہ گری کی امید کرنا بھی برا نہیں ہے۔ کچھ کام اور ذمہ داریاں،مگرسماج اورمعاشرے کی بھی ہوتی ہیں۔ تمام تر اقدامات جو ملکوں کو ترقی اور عظمت کے راستے پر لے جاتے ہیں۔ریاستی سطح پر کرنے کے نہیں ہوتے ہیں۔کام کو عزت دیناہم عوام کا کام ہے۔محنت کرنے والے محنت کش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے،یہ بھی سماج کی ذمہ داری ہے۔موچی صاحب،دھوبی صاحب،نائی صاحب،مکینک صاحب،الیکٹریشن صاحب، خاکروب صاحب،سننے میں آپ کو شائد عجیب لگے،مگر جاپان میں کسی بھی پیشے سے منسلک آدمی کو اسی طرح بلایا جاتا ہے۔اگر صاحب کا لاحقہ ہٹا کر کسی کو بلائیں گے تویہ انتہائی بدتمیزی اور بدتہذیبی شمار ہوگی۔مزید یہ نہیں کہ جب اس کو مخاطب کرنا ہے تو ترکھان صاحب،لوہار صاحب،مچھیرا صاحب کہنا ہے، بلکہ غیر موجودگی میں بھی کسی پیشے سے منسلک شخص کا نام اس کے ساتھ صاحب لگا کر ہی لیا جاتا ہے۔یہ کوئی حکومت کا نافذکردہ قانون نہیں ہے،سماج کا اپنایا گیا رویہ ہے۔یہ سماج کا رویہ ہے کہ اگر کوئی کہے کہ میں وزیر ہوں یا وزیراعظم کا بیٹا ہوں تو آگے سے جواب ملے گا اچھا جی!!اور اگر آپ کہیں کہ مَیں جولاہا ہوں یاپھرچپڑاسی کابیٹا ہوں،تو بھی وہی جواب ملے گااچھا جی!!اور اس جواب کے کہے گئے ”اچھاجی!!“میں لہجے تک کا فرق محسوس کرنا مشکل ہوگا۔بے روزگاری الگ چیز ہے،اگر کسی شخص کے بارے میں یہ پتہ چل جائے کہ یہ کام چور ہے، یا پھر یہ فارغ ہی رہتا ہے تویقین کیجئے جاپان کے معاشرے میں ایسے شخص کوکوئی منہ نہیں لگائے گا۔ اس کا جینا دوبھرہوجائے گا۔دوست احباب ایسے شخص کوملنے تک سے کترائیں گے۔