پولیس ان ایکشن
ہر حکومت کی یہ کو شش ہوتی ہے کہ وہ اداروں میں پیشہ ورانہ مہارت کے حامل اور ایماندار آفیسرز تعینات کرکے بہتر نتائج حاصل کرتے ہوئے اپنی ساکھ اور کام کو بہتر بنائیں تاکہ یہ ادارے ان کی گڈ گورننس کا باعث بن سکیں، کئی آفیسرز ایسے بھی ہیں جو اداروں کی کامیابی کی بجائے حکمرانوں کی بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں،پنجاب میں لاہور ہی صوبے کے امن و امان کی عکاسی کر تا ہے۔وزیر اعظم پاکستان نے اقتدار میں آنے سے قبل جہاں عوام سے نیا پاکستان بنانے کا وعدہ کیا تھا، وہاں پولیس کو بھی یکسر تبدیل کر نے کے بار بار وعدہ کرتے نظر آئے یہ ہی وجہ ہے کہ انھیں پنجاب پولیس کی کمانڈ میں بار بار تبدیلیاں کر نا پڑیں اور لا ہور کی کمانڈ بھی مسلسل تبدیل ہو تی رہی کو ئی بھی کمانڈر چاہے وہ ادارے کا تھا یا لاہور پولیس کا سبھی تبدیل ہوتے رہے،نگران حکومت کے دور میں تعینات کیے گئے لاہور پولیس کے سابق کمانڈر ایڈیشنل آئی جی بی اے ناصر سب سے کامیاب آفیسر ٹھرے انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ لاہور میں ایک سال سے زائد وقت گزار گئے اور انھوں نے اپنی تعیناتی کے دوران نہ صرف کرائم کی شرح کو کنٹرول کیا بلکہ پولیس ویلفیئر کے لیے بھی بہت کام کیا، ان کے بعد موجودہ لاہور پولیس کی ٹیم پوری جانفشانی سے دن رات محنت کرتی دکھائی دیتی ہے،موجودہ ٹیم کو بدمعاشوں اور قبضہ گروپوں کے خلاف موثر کارروائی عمل میں لانے پر شاباش دی گئی ہے،پنجاب پولیس بہت بدنام ہے، کرپٹ ہے، سیاسی ہے طرح طرح کے القابات سے نوازا جا تا ہے اور شاید سچ بھی ہے مگر عام طور پرپولیس کے اچھے کام کو اتنی پذیرائی نہیں ملتی جتنا ان کے برے کام یا غلطی پر شور مچایا جاتا ہے،پولیس میں جہاں بہت ہی برے اور بدعنوان افسر و ملازمان بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں، وہیں بہادر اور فرض شناس لوگ بھی کم نہیں ہیں۔
اللہ تعالی نے کئی ایسے خوبصورت لوگ بھی پیدا کیے ہیں جو دولت، طاقت اور عزت ہونے کے باوجود بھی فرعونی رستے کے مسافر نہیں بنتے بلکہ انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ ملک اور یہاں بسنے والے غریب، لاچار اور مفلوک الحال لوگوں کی امداد اور بہتری کے لئے مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں، سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر، ڈی آئی جی آپریشن ساجد کیانی اور ڈی آئی جی انوسٹی گیشن شارق جمال ان آفیسرز میں سے ایک ہیں۔لاہور پولیس کے پیشہ وارانہ امور کا جائزہ لینے کے لئے آئی جی آفس میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں آئی جی پولیس نے لاہور پولیس کی جرائم کی شرح پر قابو پانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات،چالان کرنے کی بہتر شرح اور بد معاشوں و قبضہ مافیا کے خلاف کارروائیوں کو مثالی قرار دیتے ہو ئے انھیں شاباش دی ہے، اس میں کو ئی شک نہیں کہ آئی جی پولیس انعام غنی پنجاب میں جرائم کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لیے خود بھی بڑی محنت اور پیشہ وارانہ مہارت کا ثبوت پیش کررہے ہیں اور وہ پنجاب کے تمام اضلاع کی کارکردگی کو باقاعدگی سے مانیٹر کررہے ہیں، انھوں نے یہ ایک اچھی روایت ڈالی ہے کہ ناقص کارکردگی پر سخت سزائیں جو معطلی کی صورت میں بھی دیکھنے کو ملی ہیں وہ دینے سے گریز نہیں کررہے جبکہ معیاری کارکردگی پر افسروں کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے۔لاہور ایک کروڑ سے زائد آبادی والا شہر ہے۔ یہاں ہر طرح کے جرائم بھی کثرت سے ہوتے ہیں۔ جرائم کی شرح کا تناسب کراچی کے بعد یہاں سب سے زیادہ ہے۔
پنجاب کے دیگر اضلاع کی نسبت یہاں خود کو کرائم فائٹر یا بڑا کمانڈر ثابت کرناآسان نہیں ہے، یہاں پر آئے روز نئے سے نئے ایشوز جنم لیتے ہیں سستی اور نااہلی کا مظاہرہ کرنے والے آفیسرز جو ان ایشوز کو سنبھال نہیں پاتے فراغت ان کا م،مقدربن جاتی ہے،غلام محمود ڈوگر کے چارج لینے سے قبل لاہور پولیس کی صورت حال بھی بڑی ابتر تھی، سی سی پی او آفس جانے والے راستے عزت دار وں کے لیے غیر محفوظ نظر آنے لگے، وزیر اعظم کی جانب سے ادارے پر قبضہ گروپوں اور بڑے بڑے مافیا کو کچلنا کا بار بار حکم دیا جا رہا تھا مگر سابق سی سی پی او صاحبان ٹارگٹ کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیے، غلام محمود ڈوگر نے آتے ہی اپنے دروازے نہ صرف عام شہریوں کے لیے کھلے رکھنے کا حکم دیا بلکہ وہ خود بھی صبح دس بجے سے لے کر رات گئے تک سائلین کی خدمت کے انھوں نے خود کو وقف کردیا ہے اسی طرح اپنی ٹیم کے آفیسرز کو بھی اس پر عملدرآمد کرنے کا حکم دیا گیا،لاہور میں قبضہ مافیا اور بدمعاشوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے اور انھوں نے گزشتہ رات گوگی بٹ سمیت وہاں پناہ لینے والے دیگر کئی افراد کو بھی گرفتار کر کے یہ باور کروایا ہے کہ آئی جی پولیس کی طرف سے ملنے والے احکامات کی روشنی میں بڑے سے بڑے مافیا کے خلاف اب ہر صورت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، دوسری جانب کورونا کی تیسری خطرناک لہرسے نمٹنے کے لیے لاہور پولیس کو جس دن سے ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے کی ہدایات ملی ہیں، پولیس کے آفیسرز روزانہ کی بنیاد پر شہر میں ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر فلیگ مارچ کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں،پولیس نے نکڑوں اور کونوں میں چھپے وہ ریسٹورنٹ، ہوٹل اور دکانیں بھی بند کروادی ہیں جو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پولیس آفیسرز کی گاڑیاں یہاں تک بھی پہنچ سکتی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب بالخصوص لاہور پولیس اپنی جان پر کھیل کر امن قائم کرنے کی خواہاں ہے۔