میں ٹیلرنگ نہیں، پرسنیلٹی گرومنگ کرتا ہوں
پروفیسر حامد سعید بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں، خوش لباس تو ہیں ہی، خوش مزاج بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان میں حُب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ دوران گفتگو ہر جملے کے بعد میرا پاکستان، پیارے وطن اور اپنی مٹی کا تذکرہ بڑے اعزازکے ساتھ ضرور کرتے ہیں۔شہرت کے بھوکے نہیں ہیں تاہم اپنے فن اور تحقیق کا کریڈٹ لینا خوب جانتے ہیں۔
امریکہ میں قیام او رواپسی کی کہانی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جہاں پیدا ہوا،یہی میری مٹی ہے، اس کی کسی بھی طرح سے خدمت کرنے کو میں اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہوں۔ میں پچیس تیس سال بعد وطن واپس آیا ہوں توا س کی وجہ بھی مٹی کی کشش ہے۔ بے شمار میری طرح کے ایسے لوگ ہیں جو دس پندرہ بیس سال سے وہاں پر مقیم ہیں، ان میں بہت سارے پروفیشنلز بھی ہیں۔جب کافی وقت گزر جاتا ہے تو آدمی سوچتا ضرور ہے کہ میں نے اپنے لئے تو بہت کچھ کیا، اپنی فیملی کے لئے بہت کچھ کیا، میں نے اپنے بزنس کے لئے بہت کچھ کیا،توپھر خیال آتا ہے کہ میں نے اپنے ملک کے لئے جہاں میں پیدا ہوا اور جس نے مجھے پہچان دی اس کے لئے کیا کیا۔ہر پروفیشنل پاکستانی کے ذہن میں یہ خیال ضرور پیدا ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ پاکستان جاکر میں اپنے ملک کو کیا دوں گا۔ میں کوئی ڈاکٹر قدیر جیسا سائنس دان نہیں، عمران خان جیسا سوشل ورکر نہیں،میرے پاس تو گرومنگ و امیج بلڈنگ کی سکلز ہیں، نجانے پاکستان میں کوئی اس کی طرف متوجہ ہوگا یا نہیں۔ مٹی کی خدمت کا جذبہ لے کرمیں پاکستان واپس آگیا۔ میں نے سوچا یوتھ پر فوکس کروں گا۔ ہمارے قابل نوجوان انجینئر نگ یونیورسٹیوں میں جا رہے ہیں۔ عدلیہ کا حصہ بن رہے ہیں اور سی ایس ایس کر کے بیوروکریٹ بن رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق پسماندہ علاقوں سے آتے ہیں۔میں نے سوچا کہ یہ قابل تو ہیں مگر ان میں کمی کہاں ہے؟ ان میں کمی گرومنگ کی ہے۔ہمارے سفیر جب دوسرے ممالک میں جاتے ہیں تو وہاں ان کا امیج کیسے بنتا ہے؟ وہ جہاں تعینات ہوں گے وہاں ملک کا امیج پہلے ہو گا یا ان کا اپنا؟ مثلا امریکہ والے سمجھتے ہیں کہ ہمارا تعلق دہشت گرد ملک سے ہے۔ہم تیسری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا بزنس ایتھیکس کابھی مسلہ ہے۔ لیکن اس کے علاوہ جو سب سے خطرنا ک بات ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے قابل لگیں جو کہ اکثر نہیں لگتے۔ اگر ہم پڑھے لکھے ہیں تو ہم پڑھے لکھے نہیں لگتے اگر ہم پروفیشنل ہیں تو پروفیشنل نہیں لگتے ہمارا لباس انہیں اپیل نہیں کرتا۔ ہم نے کوئی لاؤڈلی شرٹ پہنی ہوئی ہے ہم نے کوئی لاؤڈلی پینٹ پہنی ہوئی ہے نہ کوئی کمبی نیشن صحیح ہے نہ ٹائی ٹھیک ہے۔
میں ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک پاکستانی نے مجھ کو کال کی اور کہا کہ حامد صاحب میں نے سنا ہے کہ آپ امیج بلڈنگ کرتے ہیں میری چھوٹی سی پرابلم ہے۔ میں پاکستان سے آیا ہوں اور بلیو چپس کمپنی کے ساتھ بزنس کرنا چاہ رہا ہوں۔ میرے پاس دو ملین ڈالر ہیں میں کچھ پاس خریدنا چاہتا ہوں تو میں جب بھی وہاں جاتا ہوں تو وہ مجھ کو گھاس ہی نہیں ڈالتے۔ یہ اس شخص کے الفاظ تھے۔ تو آپ مجھے گائیڈ کریں اور میری مدد کریں۔ وہ یو ای ٹی کا گریجوایٹ تھا۔میں نے اس کو دیکھا اور دیکھتے ہی مسلہ سمجھ گیا۔ میں نے اسے کہاکہ مجھے سمجھ آگئی ہے کہ وہ تمہیں گھاس کیوں نہیں ڈالتے۔ اس نے لیدر کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی، جس کا رنگ فیڈ ہو چکا تھا لگتا تھا کہ جیسے کوئی دس سال پرانی جیکٹ ہے اس کے ساتھ انتہائی فضول قسم کی پینٹ پہنی ہوئی تھی، چوڑے سے شوز پہنے ہوئے تھے، بیلٹ میں سے ریشے نکل رہے تھے۔ تو میں نے اسے کہا کہ جس گیٹ اپ میں آپ ہیں آپ کے ساتھ کوئی بھی کمپنی بزنس نہیں کرے گی۔ میں نے کہا کہ تم تعلیم یافتہ ہو، تمہاری کمیونیکیشن اچھی ہے، سرمایہ بھی ہے،مارکیٹ بھی ہے۔ میں اسے اپنے شو روم لے گیا۔اسے نیوی بلیزر دیا ساتھ ویسٹ ٹیک دیا اور اسے بتایا کہ تم نے ٹائی نہیں لگانی۔ اس کے بعد میں نے اسے وائٹ شرٹ دی اگر آپ کو نہیں سمجھ آرہی کہ آپ نے کون سی شرٹ پہننی ہے تو آپ وائٹ شرٹ پہن لیں۔ وہ مجھے کہتا کہ حامد صاحب آپ میرے ساتھ چلیں آپ کی انگلش بہت اچھی ہے آپ یہاں بہت دیر سے ہیں تو میں ویسے ہی ویل ڈریس تھا۔ ہم دونوں ڈیل کرنے گئے۔ وہی لڑکی جو اس کو وقت نہیں دے رہی تھی موجود تھی۔ ہمارے جاتے ہی مخاطب ہوئی کہ فرمائیے کیسے آنا ہوا۔ ہم نے جی ایم سے میٹنگ کابتایا اور پانچ منٹ بعد ہم جی ایم کے آفس میں تھے۔ تو اب آپ اس بارے میں تھوڑا سا سوچیں کہ ایک پاکستانی بزنس مین جب وہ امریکا جاتا ہے یا انگلینڈ جاتا ہے یا اٹلی جاتا ہے تو کوئی کوارڈینیشن نہیں ہے کوئی رد ھم نہیں ہے۔ وہ پیسہ خرچ کرتاہے۔اپنی ٹیم لے کر جاتا ہے۔ وہا ں جاکر اپنا بوتھ لگاتا ہے مگر خالی ہاتھ لوٹتاہے اس کو کوئی آرڈر نہیں ملتا۔ بلکہ وہ لوگ اس پر ٹرسٹ تک کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔تو یہ وہ نالج اورسکل ہے جولے کر میں پاکستان آیا ہوں۔جس کو پذیرائی بھی بہت مل رہی ہے۔
جہاں تک فرسٹ امپریشن کی بات ہے تو میں آپ کو چار پانچ چیزیں بتاتا ہوں کہ جو ججمنٹ کرنے والا بندہ آپ کے اندر مشاہدہ کر رہا ہوتاہے۔ جب ایک شخص کمرے میں داخل ہو جائے وہ کسی انٹرویو کے لئے آیا ہے یا کوئی بزنس میٹنگ،پہلی چیز جو آپ کے اندر دیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ جو بندہ اندر داخل ہوا ہے یہ کس سوشل کلاس سے تعلق رکھتا ہے یعنی کہ مڈل کلاس ہے لوئر مڈل کلاس ہے یا ہائر کلاس ہے اس میں اہم بات یہ نہیں ہے کہ آپ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کیا آپ ویل گروم لگتے بھی ہیں کہ نہیں؟ اگر آپ ویل گروم نہیں لگتے تو امپریشن جاتا ہے کہ اس میں اتنی سینس نہیں ہے۔ ایک امیدوار کسی اہم پوسٹ کے لئے انٹرویو دینے آتاہے۔ وہ زبانی کلامی اپنی تعریفوں کے پل باندھ دے لیکن اس کی باڈی لینگوئج اور اس کی شخصیت اس کے دعووں سے میچ نہ کر رہی ہو تو یہ بات اس کے خلا ف جائے گی۔ اسی طرح ایک سٹوڈنٹ آتا ہے وہ سٹوڈنٹ ویل ڈریس نہیں ہے اس نے چیک شرٹ اور چیک ٹائی لگائی ہوئی ہے اس نے ایک فضول قسم کی پینٹ پہنی ہے اورنج کلر کی یا براؤن کلر کی یا بہت شوخ سا کلر پہنا ہوا ہے اس نے شرٹ ایسی پہنی ہوئی کہ سامنے والا سوچتا ہے کہ یہ کتنا انٹیلی جنٹ ہے مگر اس نے اپنی ڈریسنگ ٹھیک کیوں نہیں کی۔ لباس جو تاثر چھوڑتاہے اس کا آپ کے ایونٹ یاا نٹرویو کی ناکامی و کامیابی میں بڑا اہم رول ہوتاہے۔ جس کے پاس انتخاب کا اختیار ہے وہ ایک پرفیکٹ امیدوار ہی منتخب کرے گا۔ کسی بھی لحاظ سے ان فٹ بندہ کبھی بھی نہیں رکھا جائے گا۔ آپ مکمل بڑے شیشے کے سامنے جائیے، اپنے آپ کو دیکھیں۔ جس دن آپ اچھے لگتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ میں بہت اچھا لگ رہا ہوں آپ میں ایک دم سے کانفیڈنس آجاتا ہے اور وہ کانفیڈنس آپ کے ساتھ جاتا ہے۔ آپ سیکسس شو کر سکتے ہیں اپنے لباس کے ساتھ اور آپ یہ شو کر سکتے ہیں کہ میں بہت بہتر ہوں۔ انٹرویو میں آپ کی سی وی پہلے سے دیکھ لی جاتی ہے۔ بات کرکے آپ کے علم کو بھی پرکھا جا سکتا ہے۔ اس دوران اگر آپ کی باتوں سے آپ کا حلیہ میل نہ کھائے تو یہ چیز آپ کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ اچھے لباس سے بولنے میں بھی اعتماد آتا ہے۔
میرے پاس پانچ رول ہیں ڈریسنگ کے۔ تو وہ پانچ اصول جو ہیں وہ میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا۔
پہلا پی ہے لوگ پوچھتے ہیں کہ مجھے کلر کون سا سوٹ کرتا ہے۔ اس کو پگ منٹیشن کہتے ہیں۔ پگ منٹیشن کس چیز کی…… آپ کی آئی کلر، فیس کلر وغیرہ یہ پگ منٹیشن ہے۔ دین میں بھی لباس کے بارے میں انسٹرکشنز ہیں۔ دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہیں۔ ہر آئی کلر کا سکن ٹون کا بندہ موجود ہے۔ ڈارک سکن، فیئر سکن، بیجنگ سکن، کالے سے کالا ترین آدمی آپ کو ملے گا۔افریقہ میں چمکدار کالے ہوتے ہیں۔ اب گورا کیا ہے، اس کے بلاؤنڈ ہیئر ہیں یا اس کے براؤن ہیئر ہیں پھر اس کی بلیو آئیز ہیں، گرین آئیز ہیں پھر سکن ٹون دیکھیں بڑی جیلی سی سکن ٹون ہے۔ وائٹش سکن ٹون ہے۔ سکن ٹون پر ہی ایک سٹوری سنا دیتا ہوں۔
جب کلر آپ صحیح نہیں پہنتے تو لوگ کہتے ہیں کہ آپ تھکے ہوئے لگ رہے ہیں آپ اچھے نہیں لگ رہے۔ ایک بندہ آپ کے ساتھ بزنس کیوں کرے گا جبکہ آپ اس کو ایکٹو ہی نہیں لگ رہے۔ تو یہ ہے پہلا پگ منٹیشن۔ دوسرا پگ منٹیشن یہ ہے کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ یہ بتائیں میرے اوپر سٹائلنگ کون سی اچھی لگتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ میں فیشن کا بندہ ہوں۔ فیشن بتائیں سر فیشن کون سا اچھا لگے گا۔ بلکہ مزے کی بات ہے کہ لوگ مجھے اپنی تصاویر دکھاتے ہیں۔ گوگل سے تصویریں نکال کر اپنے ساتھ موازنہ کرتے ہیں یا ان جیسا بننے کی چاہ رکھتے ہیں۔
سوال کرتے ہیں کہ سر یہ میں پہن لوں اس میں کیسا لگوں گا۔ میں نے کہا کہ یہ تو گورا ہے۔ کیا آپ گورے ہو؟ تو وہ کہتا ہے کہ سر میں تو گورا نہیں ہوں تو پھر میں نے کہا کہ آپ مجھ کو یہ فوٹو کیوں دکھا رہے ہو؟ پھر اس کے بعد وہ ایک اور فوٹو دکھاتا ہے کہتا ہے کہ سر اس کو دیکھیں وہ ڈمی ہے میں نے کہا کہ ان کے اوپر کپڑے ٹنگے ہوئے ہیں مگر تم تو زندہ انسان اچھے بھلے آدمی ہو۔ اللہ نے تمہیں جیتا جاگتا انسان بنایا ہے۔ اس میں کانسپٹ یہ ہے کہ جو آپ کی سٹائلنگ ہے وہ فیشن ڈکٹیٹ نہیں کرتی۔ کیونکہ میں فیشن کا بندہ ہوں تو میں یہ ضرور کہوں گا کہ آپ کو پروفیشنل لگنا چاہیے، آپ کو ٹرینڈی لگنا چاہیے آپ کو اپ ڈیٹ لگنا چاہیے، آپ کو ماڈرن لگنا چاہیے، فیشن تو ڈکٹیٹ کیا کرتی ہے، آپ کی باڈی کو، آپ کی فزیک کو۔آپ چھوٹے قد کے ہیں آپ لمبے ہیں آپ موٹے ہیں۔ آپ لمبے اور موٹے ہیں۔پتلی جسامت کے حامل فرد کو تنگ کپڑوں سے گریز کرنا چاہئے۔ چھوٹے قد کا آدمی ذرا سی لمبی جیکٹ پہن لیتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے والد صاحب کی جیکٹ پہن کر آگیا ہے۔ حتی کہ گھر والے ہی اس کا مذاق بنا بنا کر شروع سے ہی اس کا کانفیڈنس متاثر کرچکے ہوتے ہیں۔
تیسرا پی ہے پرسنیلٹی…… آپ کے کپڑے پر سنیلٹی پر سوٹ کرنے چاہئیں۔
اگر آپ تھوڑے آؤٹ گوئنگ ہیں تو سٹائلش کپڑے زیادہ پہن سکتے ہیں۔ آپ کلرز وغیرہ کے ساتھ اچھے لگ سکتے ہیں۔چوتھا پی اور زیادہ امپورٹنٹ ہو جاتا ہے کہ آپ نے اپنی پوزیشن کے مطابق کپڑے پہننے ہیں۔ آپ ڈین ہیں، آپ لیکچرر ہیں، آپ پروفیسر ہیں، آپ لائر ہیں، آپ نے غیر مناسب سی جینز اور شرٹ پہنی ہوئی ہے۔ فضول سی ٹائی لگائی ہوئی ہے۔ ایک ڈاکٹر سے ملاقات پر میں نے اسے بتایا کہ تم کسی بھی اینگل سے ڈاکٹر نہیں لگ رہے۔ سر ہوا کیا ہے؟ ہم اندر ہسپتال میں گئے ہیں اس کے پاس ستیھٹوسکوپ ہے وہ ڈاکٹر ہے اور میں صرف ویل ڈریس ہوں۔ سٹاف ممبران میرے لئے دروازہ کھول رہے ہیں اس کے لئے دروازہ بند کر رہے ہیں۔ اس کو کوئی کمپوڈر سمجھ رہے تھے۔ تو آپ کا جو پروفیشن ہے وہ آپ کو لگنا چاہیے۔
یہ پانچ چیزیں ہیں، میری گارنٹی ہے کہ اگر آپ ان پانچ اصولوں کے مطابق ڈریسنگ کرتے ہیں تو آپ کی شخصیت میں خوشگوار تبدیلی رونما ہوسکتی ہے آپ نے اچھے رنگ پہننے ہیں۔فٹ شرٹ لیں اپنی فزیک کے مطابق تا کہ آپ کی باڈی پر اچھی لگے۔ اور تیسری چیز یہ ہے کہ آپ کی پرسنیلٹی پر اچھی لگے۔ اور چوتھی یہ ہے کہ آپ کی پوزیشن کے مطابق ہو اگر آپ سی ای او ہو تو سی ای او لگنا چاہیے۔
آپ نے اگر تھری پیس سوٹ پہننا ہے اور آپ نے ایک گاؤں میں جانا ہے تو تھری پیس سوٹ کی وہاں کوئی ویلیو نہیں ہے۔ آپ نے دیکھنا ہے کہ آپ کس کے ساتھ مل رہے ہیں۔ ڈریسنگ اگر اچھی ہوتی ہے تو وہ اتفاقیہ ہوجاتی ہے اور لوگ ا س اچھی ڈریسنگ کا تسلسل برقرار نہیں رکھ پاتے۔ ایک دن کوئی شخص بہت اچھا لگ رہاہوتا ہے تواگلے ہی رو ز وہ پہچانا نہیں جاتا۔ ایک نیچرل لک ہونی چاہیے۔ جیسے آپ ہیں کہ یہ پروفیسر صاحب آگئے یہ نہیں کہ حامد سعید آگیا۔ میں ہوں پتا لگے کہ حامد سعید آگیا ہے۔ جیسے نیچرل لک ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے ایک ہی کلر پہننا ہے بلکہ آپ مختلف کلر پہن سکتے ہیں۔ بے شمار چیزیں آپ کے اوپر سوٹ کریں گی۔
میں کف لنک لگاتا ہوں بعض لوگ جو کف لنک لگا دیں ان کو سمجھ ہی نہیں آتی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی میں نے انٹرویو پر جانا ہے تو میں ٹائی پن لگا لوں میں کہتا ہوں ٹائی پن کبھی تم نے زندگی میں لگائی ہے تو جواب آتا ہے کہ نہیں سر میں نے کبھی نہیں لگائی۔ تو میں نے کہا کہ خبردار تم نے کبھی ٹائی پن نہیں لگانی۔ ایک بندے نے سوٹ ہی نہیں پہنا کبھی زندگی میں وہ جب سوٹ پہن کر چلے گا تو اس کو چلنا بھی نہیں آئے گا۔ اسی لئے کہتا ہوں کہ پاکستان میں گرومنگ پر فوکس ہونا چاہیے۔
٭٭٭
تعارف
پروفیسر حامد سعید عالمگیر شہرت کے حامل ورسٹائل ڈریس ڈایزائنر اور شخصیت سازی کے ماہر ہیں۔ آپ ٹیکنوکریٹ کم بزنس مین ہیں۔بنیادی طور پر انجینئر ہیں،پھر امریکہ سے ایم بی اے کیا، ایک طویل عرصہ نیویارک میں گزرا۔وہاں سے آپ نے نت نئی چیزیں سیکھیں اور اب پاکستان میں پروفیشنل گرومنگ، امیج کنسلٹنسی جیسے منفرد شعبے کا انتخاب کیا ہے، پروفیشنل ڈریسنگ کے حوالے سے لوگوں کو مشورے دیتے ہیں۔ پاکستان میں یہ ایک نیا کام ہے جس کی ضرور ت واہمیت سے آہستہ آہستہ لوگ روشناس ہورہے ہیں۔ لاہور میں ایم ایم عالم روڈ پر ان کا مسکن ہے۔ میکڈونلڈ کے پاس آپ کا آفس ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں اور بیوروکریٹس آپ سے رابطہ کرتے ہیں اور اپنے سٹاف اور آفسیرز کے سیشنز پروفیسر حامد سعید کے ساتھ کرواتے ہیں۔ میں نے انہیں لمز سمیت مختلف یونیورسٹیز،جوڈیشل اکیڈمی اور سول سروسز اکیڈمی میں مستقبل کے بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس کو لیکچر دیتے دیکھا۔ آپ ایک قوم پر یہ احسان کر رہے ہیں کہ ہمارے مستقبل کے سفیر جو امریکا یورپ میں جائینگے ان کی پرسنل ڈریسنگ، ان کا امیج اور ان کی گرومنگ اتنی سٹرونگ ہو کہ ان کو شرمندی کاسامنا نہ کرنا پڑے اور پاکستان کا ایک پازیٹو امیج دنیا کے سامنے آئے۔
طویل عرصہ امریکہ میں گزار کر واپس آنے والے
پروفیشنل ڈریسنگ کے ماہر پروفیسر حامد سعید کہتے ہیں!
ڈریسنگ کے پانچ اصولوں پر عمل کرکے شخصیت نکھاری جا سکتی ہے
لباس تن پر لگی وہ کھڑکی ہے جس کے راستے شخصیت میں جھانکا جاتاہے، کھڑ کی جاذب نظر بنائیں