سیاست کی بناء ہر تقسیم بڑھتی جا رہی ہے؟
گیت تو فلمی ہے لیکن ہے حسب ِ حال”بول ہیں، ”بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی،جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی“ آج بھی کالم کا پیٹ بھرنا ہے لیکن جب صبح اٹھتے ہی جھٹکا لگ جائے تو پھر یہی کیفیت ہوتی ہے جو نغمہ نگار نے لکھی اور پیش کر دی گئی، عرصہ گذر جانے کے بعد اب یہ یاد آ گئی ہے کہ حالات کے مطابق گذارشات تو حالات حاضرہ کے حوالے سے کرنا ہیں،لیکن کیفیت ایسی بن گئی کہ کچھ کہنا مشکل ہو گیا ہے،اس پر آج صبح ذہنی کیفیت مزید گڑ بڑ کر گئی، جب سبزی والے سے ایک کلو ٹینڈے اور ایک کلو ٹماٹر لئے اور اس نے ر عایت کا نعرہ لگا کر بھی تین سو روپے وصول کر لئے اب اس سبزی میں مصالحہ جات سے گھی تک استعمال کر لینے کے بعد ایک وقت کا کھانا ہو گا۔ خیال ہوا یہ تو سیزن ہے تو سبزی والے کا جواب تھا، ٹینڈے دیسی ہیں، نرخ تو300روپے فی کلو ہے آپ سے ڈھائی سو روپے لے رہا ہوں اور 50روپے کے فی کلو ٹماٹر ہیں، صبر تو کرنا ہی ہوتا ہے، تاہم قارئین! آپ حیران نہ ہوں، محلے کا سبزی والا ٹماٹر 60روپے فی کلو میں فروخت کر رہا ہے، بھلے سڑکوں پر ریڑھی والے 30سے 40 روپے فی کلو بیچ رہے ہیں۔یہ بھی قدرت کا انعام ہے، عید سے پہلے ہفتے ٹماٹر منڈی (اگر اقبال ٹاؤن والی کو کہا جا سکتا ہے) سے 80 روپے فی کلو ملے تھے اور خیال تھا کہ مزید مہنگے ہوں گے، آپ سمیت مجھے بھی حیرت ہوئی جب عید کے بعد یہ ٹماٹر ریڑھیوں پر آئے اور ابتدا50روپے فی کلو سے ہو کر30روپے فی کلو تک آ گئے۔ تھوڑی سی معلومات کے بعد پتہ چلا کہ اس مرتبہ قدرت نے مہربانی کی اور مقامی سطح پر بھی ٹماٹر زیادہ بوئے گئے اور پیداوار بھی بہتر ہوئی۔دوسری طرف ذخیرہ اندوز حضرات نے سستی خریداری کر کے عید کمانے کے لئے گوداموں کی زینت بڑھا لی، صارفین نے عید کی خریداری پر گذارہ کیا اور ٹماٹروں کی فروخت میں یکدم کمی آ گئی۔ یہ خراب ہو جانے والی سبزی ہے اس لئے جلد فروخت کے لئے ذخیرہ اندوزی قربان کر کے بڑے منافع سے بھی ہاتھ دھو لئے گئے لیکن یہ اصول ہر شے پر لاگو نہیں ہوتا لیکن ٹینڈے، کریلے اور توریاں سیزن کی سبزیاں ہونے کے باوجود مہنگی ہیں اسی لئے عرض کیا تھا کہ مہنگائی کم کرنے کے لئے قیمتوں کو کنٹرول کرنا مقصود ہے تو کھپت سے زیادہ مال منڈیوں میں لایا جائے،ضرورت اس اہتمام کی ہے کہ پیداوار روکی نہ جائے، نہ صرف اس میں اضافہ کیا جائے بلکہ بروقت ضرورت کے مطابق صارفین کی پہنچ میں ہو۔
صبح صبح یہی کیفیت بنی اور وہ تمام خیالات بھاپ بن کر اڑ گئے جو حالات حاضرہ کے حوالے سے سوچ رہا تھا کہ میری فکر میرا ملک، بچوں کا مستقبل اور آنے والی نسلوں کے تحفظ سے تعلق رکھتی ہے کہ آج جو حضرات محاذ آرا ہیں، ان کا کوئی نقصان نہیں ہو رہا، بیلوں کی لڑائی کی طرح اس جنگ میں عوام گھاس بن کر رہ گئے ہیں،ان دنوں پارلیمنٹ کے وقار اور عدلیہ کی آزادی کی بات ہو رہی ہے اور یہ عمل قوم کے مختلف شعبوں میں تقسیم کا باعث بنتا جا رہا ہے۔آج یہ خبر ملی کہ سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل نے ایک دوسرے کے اراکین کی رکنیت معطل کر دی۔ میں جانتا ہوں کہ اب یہ معاملہ پاکستان بار کونسل تک اور یہ تقسیم اوپر سے نیچے تک عمل پیرا ہو گی کہ و کلاء برادری بھی تو دو حصوں میں بٹ چکی، آپ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف اور مخالف دھڑے ہیں۔یہ امر پہلی بار نہیں ہوا، ہم نے تو بار ایسوسی ایشنوں کو تقسیم ہوتے اور کرسیاں چلنے کے سین بھی دیکھے ہوئے ہیں، ایک دور میں لاہور ہائی کورٹ بار کے دو صدر ہو گئے اور ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوتے تھے۔بہرحال یہ فطرت کا عمل ہے کہ پھر ہوش آیا اور سینئر حضرات کی بھرپور کوشش سے یہ سلسلہ تو رک گیا،لیکن نظریاتی تقسیم وکلاء فورم کی صورت میں قائم رہی اب انتخابات دھڑے بندی کی بنیاد پر ہوتے ہیں، انتخابی تقسیم تو دوسری طرح کی نظریاتی تفریق ہے اور ایسوسی ایشنیں اپنا اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالتی ہیں لیکن اب جو صورت حال بنی ہے یہ اچھی نہیں۔ میں اس کی مثال پی ایف یو جے کی تقسیم سے دیتا ہوں کہ اب پانچ دھڑے ہیں، سب اتحاد کی حامی تو بھرتے ہیں لیکن اتحاد کے لئے عملی اقدام سے گریز ہوتا ہے اس لئے وکلاء کو ابھی سے غور کرنا ہو گا اور اپنے اپنے نظریات اپنی اپنی نظریاتی ایسوسی ایشنوں کے پلیٹ فارم سے اجاگر کرنا اور، پیشہ ورانہ تنظیموں کو تقسیم سے پاک رکھنا ہو گا کہ تقسیم سے قومی نقصان بھی ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں ماضی کی بات عرض کروں، ایوب خان کا دور تھا، ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی تھی، تب نظریاتی اختلاف دائیں اور بائیں کا تھا، پیپلزپارٹی کا بھی ایک نعرہ”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ تھا اور یہ وجہ تراع بن گیا تھا، اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں۔ ڈسٹرکٹ کورٹ لاہور میں محترم منصور ملک(مرحوم) نے ینگ لائرز سرکل کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا ہوا تھا اور وہ خود پیپلزپارٹی میں شامل تھے، سرگرم کارکن تھے، ان کی دعوت پر بھٹو صاحب نے ڈسٹرکٹ بار کا دورہ بھی کیا تھا وہ اچھا وقت وکلاء اپنے اپنے موقف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اور سینئرز کو عزت دیتے تھے یہ وہ دور تھا جب بار کا انتخاب ہوتا تو سینئر وکلاء کے چیمبر اہمیت اختیار کر جاتے تھے۔ صدر ایوب نے مسلم لیگ (کنونشن) کے نام سے جماعت سنبھال رکھی تھی، لاہور کے معروف و کیل لطیف راں (مرحوم) کا تعلق اسی جماعت سے تھا۔ ایک روز ہم ضلع کچہری کے بار والے بوڑھ تلے مجلس میں بیٹھے تھے۔ لطیف راں بھی موجود تھے۔ رفیق احمد باجوہ کا حقہ چل رہا تھا، اتنے میں منصور ملک گزرے تو لطیف راں نے ان کو آواز دے کر بُلا لیا اور ملک سے کہا کہ کچھ عرصہ کے لئے اپنا ینگ لائرز سرکل ادھار دے دو پھر واپس کر دوں گا۔ منصور ملک نے بلا تکلف کہا، ”لے لو“ اور لطیف راں صدر بن گئے۔ انہوں نے یہ سب یوں کیا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہونے والا تھا اور یہاں سے بھی وفد نے جانا تھا۔ لطیف راں اس میں کنونشن لیگ کی سفارش پر ینگ لائرز سرکل کے صدر کے طور پر ممبر بنے اور اقوام متحدہ کا اجلاس بھگتا کر آئے۔
انہوں نے واپس آتے ہی سرکل منصور ملک کے سپرد کر دیا یہ امر بھی یاد رکھنے والا ہے کہ لاہور میں بھٹو کی حمائت لاہور بار کے وکلاء میں سے ملک اسلم حیات (مرحوم) نے کی اور صدر بھی بنائے گئے۔پھر مقامی اختلاف کی وجہ سے وہ بے عمل ہو گئے لیکن وکلاء بھائیوں سے تعلق خراب نہیں ہوا تھا، پھر اس کے بعد ہی وہ دور بھی آ گیا تھا جب احمد سعید کرمانی (مرحوم) کی صدارت ہائی کورٹ بار پر تنازعہ ہوا اور دو دھڑے بن گئے یہ سب ہوتا رہا لیکن جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے دور میں یہ سب ختم ہوا اور ایسوسی ایشنوں میں تنظیمی حد تک اختلاف بٹ گئے اور انتخابات دھڑے بندی کی بنیاد پر ہوتے چلے آ رہے ہیں تاہم اب جو کچھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میں ہوا یہ سیاسی تقسیم کا شاخسانہ ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی تحریک انصاف کے مسلسل فلسفے کے ہی باعث ہو گیا، جیسے اے این پی نے کل جماعتی کانفرنس بلا لی۔ اسد قیصر نے شرکت کی حامی بھری۔ مولانا فضل الرحمن نے اعتراض کر دیا اور شمولیت سے انکار کیا۔ ادھر اسد قیصر کو عمران خان نے روک دیا اور ملک کی باقی سب(قوم پرست جماعتوں سمیت) جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر موقف دہرانے کا موقع دیا۔اس موقف یعنی اعلامیہ میں گو بنیادی اصرار اس پر ہوا جو اتحادی حکومت کا ہے تاہم قوم پرست جماعتوں کے مطالبات بھی شامل ہو گئے۔اب اگر بار ایسوسی ایشنوں میں یہ سب کچھ ہوا تو افسوسناک ہو گا اور میرا ذاتی خیال ہے کہ نقصان خود تحریک انصاف کا ہو گا۔
قارئین! عرض کیا تھا کہ بات کرنی کبھی مشکل نہ تھی مگر اب ہے۔سپریم کورٹ میں ہونے والی کارروائی سے گریز کہ خوف بھی آتا ہے کہ میں نواز شریف یا یوسف رضا گیلانی تو نہیں ہوں۔