دوپٹہ ڈھاکہ کی ململ کا                      (2)

 دوپٹہ ڈھاکہ کی ململ کا                      (2)
 دوپٹہ ڈھاکہ کی ململ کا                      (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 بنگالی لڑکیوں میں جہاں غیر بنگالیوں کے لئے ناپسندیدگی دکھائی دیتی تھی وہا ں اردو بولنے والی غیر بنگالی لڑکیوں میں بھی بنگالیوں کے لئے حقارت کافی عیاں تھی، یہ کیا بنگالیوں کی طرح ساڑھی پہن رکھی ہے؟' وہ مجھ سے کہتیں ' بنگالیوں کی طرح کھانا کیوں کھاتی ہو؟' یہ لوگ پکانا کیا جانیں۔ انہوں نے تو کبھی ڈبل روٹی بھی نہیں دیکھی تھی' یہ بنگالی شام کے بچے کھچے چاولوں میں پانی ڈال کر رکھ دیتے ہیں اور دوسرے روز ناشتہ انہیں چاولوں سے کرتے ہیں۔ جسے یہ' پکھال' یا پانتھا بھات کہتے ہیں۔' پتہ نہیں یہ اتنی بدبودار مچھلی کیسے کھاتے ہیں؟' اس قسم کے جملے غیر بنگالی لڑکیوں سے اکثر سننے کو ملتے۔ مجھے غیر بنگالی لڑکیوں کے ساتھ بیٹھا دیکھ کرہوسٹل کی بنگالی لڑکیاں مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا کرتیں جس کا مجھے بہت افسوس ہوتا خاص طور پر اس لئے بھی کہ میرے مشرقی پاکستان آنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ میں بنگالیوں اور غیر بنگالیوں میں فاصلوں کو سمیٹ سکوں۔ اس اعلی مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے سلمی علی خاں نے بنگلہ زبان بھی چلتے پھرتے سیکھ لی تھی بلکہ دو برس میں اس قدر مہارت حاصل کرلی تھی کہ وہ نہ صرف بولنے لگی تھیں بلکہ بنگلہ میں شاعری بھی کرنے لگی تھیں۔ وہ لکھنا پڑھنا البتہ نہیں سیکھ سکی تھیں اس لئے شاعری زبانی ہی کیا کرتی تھیں۔ ان  کی زبانی ایک بنگلہ نظم سن کر ان کی ایک بنگالی سہیلی  تو پھڑک ہی اٹھی تھی۔اس نے فورا یہ نظم قلم بند کرکے کالج میگزیں کی ایڈیٹرکو جو بنگلہ زبان کی لیکچرر بھی تھیں دے دی تھی جنہوں نے اسے معیاری پا کر میگزین میں چھاپ دیا تھا۔ جس پر سلمی خاں کی چاروں طرف دھوم مچ گئی تھی۔ اسی قسم کی ایک دھوم جنرل محمد اعظم خاں نے بھی بطور گورنر مشرقی پاکستان مچائی تھی جنہیں بنگلہ زبان تو نہیں آتی تھی لیکن وہ مشرقی پاکستان کو اپنے ملک کا حصہ سمجھ کر بنگالیوں سے اپنی محبت کا اظہار دل وجان سے ان کے کام آکر کیا کرتے تھے۔ وہ دوسال مشرقی پاکستان کے گورنر رہے اوراس دوران انہوں نے جو مقبولیت حاصل کی اس کی لوگ آج بھی مثال دیتے ہیں۔  بنگالیوں کی ان سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ان کے نام کی تختیاں آج بھی وہیں لگی ہوئی ہیں جہاں لگی تھیں۔ سلمی علی جب ڈھاکہ پہنچیں تب تک جنرل محمد اعظم خان اِیوب خان سے اختلافات کی بنا پر گورنرشپ چھوڑ کر جا چکے تھے۔ سلمی علی خاں اور ان کی ساتھی طالبات کو یہ اعزاز البتہ حاصل ہے کہ انہوں نے66 میں ڈھاکہ کے سرکٹ ہاوس میں بھٹو صاحب سے ملاقات کی تھی جہاں وہ اپنی وزارت خارجہ کے آخری دنوں میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے سلسلے میں قیام پذیر تھے۔ قومی اسمبلی کا یہ اجلاس ڈھاکہ میں بطور ثانوی دارلخلافہ منعقد ہو رہا تھا۔ بھٹو صاحب نے سلمی علی کی ڈائری میں پورا صفحہ لکھ کر دیا تھا جس میں انہوں نے طالبات کے قومی امور میں دلچسپی لینے کے جذبے کو سراہا تھا اور ملک کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے طلبہ کے کردار کی اہمیت پر خصوصی روشنی ڈالی تھی۔ اس ملاقات کے دوران ایک طالبہ نرگس جو بعد میں نرگس نعیم کہلائیں بھٹو صاحب کے خیالات سے اس قدر متاثر ہوءِیں کہ جب وہ مغربی پاکستان پہنچیں تو پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئیں اور بعد ازاں فیصل آباد سے قومی اسمبلی کی رکن بھی منتخب ہوئیں۔ سلمی علی خان کی کتاب میں ممتاز شاعر عندلیپ شادانی کا بھی ذکرملتا ہے جو ان دنوں ڈھاکہ یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہوا کرتے تھے جس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مباحثے میں ہوم اکنامکس کالج کی لڑکیوں نے ٹرافی حاصل کی تھی جس سے متاثر ہوکر ڈاکٹر عندلیب شادانی نے خاطر مدارات کے لئے انہیں اپنے گھر پر مدعو کیا تھا۔ کتاب میں اپنے زمانے کے معروف ترین اداکار ندیم کا ذکر بھی ہے جو ان دنوں آئسکریم کی مشہور دکان "بے بی آئسکریم" میں ایک طرف خاموشی سے بیٹھے ہوئے نظر آتے تھے جہاں سلمی اوران کی ساتھی لڑکیاں آئسکریم کھانے جایا کرتی تھیں۔ بعد میں انہوں نے ندیم کو جو تب مرزا نذیر بیگ کے نام سے جانے جاتے تھے ٹی وی پر گانا گاتے ہوئے بھی سنا تھا۔ مشرقی پاکستان کے بارے میں اس منفرد کتاب سے مشرقی پاکستان کی طرح ایک ناانصافی یہ ہوئی ہے کہ گوگل میں آسانی سے اس کا ذکر نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ علم وعرفان کے نام سے اردو بازار لاہور کے اس کے پبلشر کی فہرست کتب میں جنت کے پتوں کا تو ذکر ہے لیکن اس کھوئی ہی جنت کا سراغ نہیں ملتا جس میں آباد حوریں تو نہیں البتہ سلمی علی خاں کی بہت سی بنگالی سہیلیاں مغربی پاکستان میں شادی کی خواہش مند تھیں۔ یہ بنگلہ دیش بننے سے چند سال پہلے کا ذکر ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ صرف لڑکیاں ہی نہیں بنگالی لڑکے بھی مغربی پاکستان میں شادی کے خواہشمند تھے اور یہ صورتحال 1969ء تک برقرار رہی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کے ذہن میں علیحدگی کا اگر شائبہ بھی ہوتا تو وہ کم ازکم مغربی پاکستان میں شادی کے بندھن باندھنے کا اردہ ظاہر نہ کرتے۔ سلمی علی خان کی کتاب پڑھ کر یہ تاثرملتا ہے کہ بنگالی علیحدگی نہیں چاہتے تھے بلکہ یہ دراصل ان پرمسلط کردی گئی۔۔۔ تاریخ بھی ہمیں یہی یہ بتاتی ہے کہ معاملہ اصل میں کچھ اسی نوعیت کا تھا !      (ختم شد)

مزید :

رائے -کالم -