امریکہ میں انتخابات سے قبل ہو نیوالے مباحثے
موجودہ امریکی انتخابات سے پہلے دونوں امیدواروں کے درمیان ہونے والی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بحث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صدر اوباما کو اپنے رپبلکن حریف میٹ رومنی پر کچھ برتری حاصل ہے۔ اس سے پہلے ان کے درمیان بحث کے دو دور ہو چکے تھے۔ اب جب کہ یہ بحث اختتام پذیرہو چکی ہے، دنیا بھر کے پریس میں ان پر تجزیے ہو رہے ہیں ، لیکن اگر ماضی کے تجربات کی روشنی میں دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کے امیدواروںکے درمیان ہونے والے یہ مباحثے انتخابات کے حتمی نتائج کا تعین نہیں کرتے ہیں۔ دوامیدواروںکے درمیان ہونے والے سخت انتخابی معرکے میں امریکی صدر کی گزشتہ چار سال کی کارکردگی اوراُ ن کے حریف کی اہلیت ،کہ وہ کس طرح عوام کے سامنے خود کو موجودہ صدر سے بہتر متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے، دراصل فیصلہ کن عناصر ثابت ہوتے ہیں۔
اگرچہ امریکی انتخابات سے پہلے ہونے والے مباحثوں کا آغاز 1858ءمیں لنکن اور ڈیگاس، جو 1860ءکے انتخابی معرکے میں ایک دوسرے کے حریف تھے، کے درمیان ہونے والی مشہور بحث، جس کے سات ادوار ہوئے، سے ہی ہو گیا تھا، مگر صدارتی امیدواروں کے درمیان مربوط بحث کا آغاز 1960ءمیں سینیٹر جان ایف کینیڈی اور نائب صدر رچرڈ نکسن ، جو بالترتیب ڈیموکریٹ اور ری پبلکن امیدوار تھے، کے مباحثوںسے ہو ا تھا، تاہم 1964ئ، 1968ءاور1972ءمیں ایسے مباحثے منعقد نہ ہو سکے۔ اس کے بعد 1976ءکے انتخابات میں ڈیمو کریٹ امیدوارجمی کارٹر اور ری پبلکن امیدوار جیرالڈ فورڈ کے درمیان بحث کے تین دور ٹیلی ویژن پر پیش کئے گئے۔ 1980ءکے بعد سے صدارتی امیدواروںکے درمیان ہونے والے مباحثے ایک طرح کی ناگزیر رسم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ٹی وی پر براہ ِ راست دکھائے جانے والے یہ مباحثے ایک اہم قومی واقعے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے وہ جادوئی پیالہ قرار دیئے جا سکتے ہیں، جن میںعوام کی نظر وں کے سامنے اپنے صدارتی امیدواروں کی متوقع کارکردگی کا عکس ابھرتا ہے ۔ اس سے ووٹ دہندگان کو بھی موقع ملتا ہے کہ وہ مخالف امیدواروںکے ایجنڈے کو سمجھ کر ووٹ دے سکیں۔
یہ بھی دیکھنے میںآیا ہے کہ یہ مباحثے بڑی حد تک صاحب ِ اقتدار صدر کی بجائے اس کے حریف کے لئے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ 1960ءمیں جان ایف کینیڈی نے نائب صدر نکسن کو آڑے ہاتھوں لیا، جبکہ 1976ءمیں صدر جیرالڈ فورڈ، جمی کارٹر کے مقابلے میں بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئے۔ ان انتخابات میں سخت مقابلے کے بعد جمی کارٹر نے میدان مار لیا۔ 1980ءکے انتخابات میں رونالڈ ریگن نے ، جن کو کیمرے کے سامنے کام کرنے کا طویل تجربہ تھا.... (مسٹر ریگن نے بطور اداکار بھی اپنی صلاحیتوںکے جوہر دکھائے تھے).... صدر کارٹر کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کیا اور انتخابی نتائج ایک سنسنی خیز معرکے کے بعد اپنے حق میں کر لئے۔ 2008ءکے انتخابات میں مسٹر اوباما کئی حوالوںسے ایک آئیڈیل امیدوار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ ان سے پہلے افریقی نژاد امریکی باشندوںنے انتخابات میں حصہ تو لیا تھا، مگر کوئی بھی کامیابی کی دہلیز پار نہیںکر سکا تھا۔ باراک اُوباما نے دو صدیوں کے جمود کو توڑ دیا ۔ بطور صدارتی امیدوار ان کی نامزدگی کی پوری دنیا میں اس قدر پذیرائی کی گئی کہ وہ انتخابات سے پہلے ہی معرکہ مار چکے تھے۔ اُن کو اپنی انتخابی مہم میں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑا، کیونکہ امریکی عوام جارج ڈبلیو بش کی اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ناکام پالیسیوں کی وجہ سے تنگ آچکے تھے۔
صدر بش کی غیر مقبولیت کے علاوہ باراک اوباما ایک نوجوان ، متحرک اور پُر عزم امیدوار کے طور پر سامنے آئے، چنانچہ ان کے سامنے کوئی بڑی سیاسی رکاوٹ بھی نہیں تھی ۔ تاریخ میں شاید کبھی بھی عالمی برادری نے امریکی انتخابات میں اتنی دلچسپی نہیں لی تھی، جتنی اُس وقت دیکھنے میں آئی۔ جنگوںسے تنگ آئی ہوئی دنیا میں وہ تبدیلی کی علامت کے طور پر دیکھے گئے۔ یہ توقع پیدا ہو چلی تھی کہ امریکہ کی جارحانہ پالیسیاں تبدیلی کے عمل سے گزریںگی اور دنیا میں امن کی فضا قائم ہو گی۔باراک اوباما نے اپنی بحث میں اس قدر اچھے دلائل دیئے کہ ان کے حریف جان مکین اُن کے ہم پلہ دکھائی نہ دیئے۔
تاہم موجودہ انتخابات میں ....(اس کالم کی اشاعت غالباً امریکی انتخابات کے موقع پر ہو گی).... امریکی ووٹروں کو صدر اُوباما سے وہ معجزانہ توقعات نہیںہیں، جو گزشتہ انتخابات کے موقعہ پر تھیں، کیونکہ اُس وقت پوری دنیا میں یہ محسوس کیا جا رہاتھا کہ جان ایف کینیڈی کے بعد سے پہلی مرتبہ امریکہ ایک غیر معمولی انسان کا انتخاب کرنے جارہا ہے۔ بطور صدر باراک اوباما نے اپنی افتتاحی تقریر میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ کس طرح وہ امریکہ اور باقی دنیا میں رہنے والوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائیںگے۔ اُس وقت امریکی معیشت دباﺅ کا شکار تھی۔ صدر باراک اُوباما نے دعویٰ کیا کہ وہ اس میں استحکام لائیںگے۔ انہوںنے وعدہ کیا کہ وہ عراق میں لڑی جانے والی بے مقصد جنگ کو ختم کر دیں گے، جبکہ افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کوشکست دیںگے، تاہم اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران وہ ایسا کچھ نہیںکر سکے ابھی تک عراق بھی سلگ رہا ہے، جبکہ القاعدہ (اگرچہ بن لادن کا خاتمہ ہو گیا ہے) ابھی تک افغانستان میں موجودہے اور افغانستان میں قیام ِ امن کی خواہش ہنوز ایک خواب ہے۔
اُن کا یہ تصور کہ امریکہ دوسری دنیا کے ساتھ پُر امن تعلقات استوار کرے گا ، پورا نہ ہو سکا اور امریکہ کی جارحانہ پالیسی جاری رہی۔ اگر ہم پورے نہ ہونے والے وعدوں پر نظر ڈالیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ انتخابات میں باراک اوباما کسی سحر انگیز شخصیت کے طور پر سامنے نہیں آئیںگے، جبکہ امریکی ووٹروںکو بھی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ،چنانچہ یہ بات محسوس کی جاسکتی تھی کہ موجودہ مباحثوںکے دوران باراک اوباما اپنی کارکر دگی کے سوال پر دفاعی قدموں پر نظر آئے۔ اس میںکوئی شک نہیںہے کہ باراک اوباما کو امریکی صدارت اُس وقت ملی ،جب وائٹ ہاﺅس نے بہت سی جنگیں چھیڑ رکھی تھیں، اس کی معیشت دباﺅ کا شکار تھی ، عوام کو ہیلتھ کئیر، تعلیم، روزگار اور سماجی عدم تحفظ کے مسائل تھے، جبکہ امریکہ کا عالمی امیج دھندلا چکا تھا۔ فرینکلین روزویلٹ کے بعد،جنہوںنے صدر بنتے ہی 1933ءمیں ہونے والی کساد بازاری کی تپش محسوس کی تھی، کسی امریکی صدر نے اتنے مسائل کا سا منا نہیںکیا تھا، جن کا بوجھ اوباما کو وائٹ ہاﺅس میں داخل ہوتے ہی اٹھانا پڑ گیا۔
غالباً سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ امریکہ کے جارحانہ امیج کو تبدیل کرکے امن پسند سپر پاور کا امیج بحال کریں، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ غالباً اوباما کوچیلنجوں کی سنجیدگی کا احساس تھا۔ ڈیموکریٹ پارٹی کو دونوں ایوانوں میں ملنے والی تازہ اکثریت کی وجہ سے وہ اس پوزیشن میں تھے کہ اپنے ایجنڈے پر عمل کر سکتے، تاہم 2010ءمیں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں ان کی مقبولیت میںکمی آگئی۔ ڈیموکریٹ پارٹی کو ری پبلکن پارٹی کے ہاتھوں ایوان ِ نمائندگان کے انتخابات میں شکست کا سامناکرنا پڑا ۔ یہ باراک اوباما کے لئے نازک وقت تھا، کیونکہ امیدیںپوری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مقبولیت کا گراف نیچے آرہا تھا۔ اب تک امریکیوںکو ایک بات کی سمجھ آچکی تھی کہ باراک اوباما بھی اپنے پیش روﺅںسے مختلف نہیںہیں۔ہو سکتا ہے کہ ابتدا میں مخلص ہوں اور وہ بہت سے کام کرنا چاہتے ہوں، مگر وہ کمزور حکمت ِ عملی کی وجہ سے مسائل سے نبرد آزما نہ ہوسکے۔اس میںکوئی شک نہیں کہ مسائل بہت زیادہ تھے اور بارک اوباما کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں تھی کہ چشم زدن میں سب معاملات ٹھیک ہو جاتے، تاہم وہ افغان جنگ ختم کر کے کم از کم امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ ہی بحال کر سکتے تھے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔
اس کی بجائے انہوںنے جنگ کو توسیع دینے میں وسائل جھونکنا شروع کر دیئے۔ افغانستان میں افواج کی تعداد میںاضافہ کیا، جبکہ پاکستان میں ڈرون حملوںکی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اُن کو امن کا نوبل انعام بھی قبل از وقت دے دیا گیا۔ اس کا مقصد صرف اُ ن کی حوصلہ افزائی کرنا تھا،تاکہ وہ عالمی امن کے ایجنڈے پر ثابت قدم رہیں، تاہم یہ عزت افزائی بھی ان کی طرف سے افغان جنگ کے پھیلاﺅ میں حائل نہ ہو سکی۔ ایسالگتاتھا کہ امریکی صدر اپنی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے سامنے بے بس ہیں ۔ اس دوران وہ اپنی غلطیوں کا الزام متواتر پاکستان پر لگاتے رہے۔ اُن کو افغان میں امن کے لئے کوئی عملی قدم اٹھانے میں م از کم دوسال لگ گئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس اب بھی قیام ِ امن کے لئے کوئی مربوط حکمت ِ عملی نہیں ہے۔
عالمی حقائق کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں پاکستان میںجس چیز کی تفہیم کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ6 نومبر کو امریکی اپنے، ناکہ پاکستانی، صدر کا انتخاب کرنے جارہے ہیں۔ خارجہ پالیسی پر ہونے والی بحث سے ہم پر ایک بات عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان کے حوالے سے دونوں امیدواروںکی پالیسی کم و بیش ایک سی ہے۔ دونوںنے مختلف الفاظ استعمال کرتے ہوئے ایک ہی بات کہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ واشنگٹن میں دہشت گردی کے حوالے سے ایک ہی سوچ پائی جاتی ہے.... پاکستان اپنے قبائلی علاقوں میںموجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔ اس طرح دونوں امیدواروں،باراک اوباما اور مٹ رومنی، نے اپنے قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے ایک جیسی سوچ کا اظہار ہی کیا ہے۔اب ہمارے حکمرانوں کے لئے بھی جاگنے کا وقت ہے کہ وہ بھی اپنے قومی مفاد کا تعین کرلیں۔ ٭