سوشل میڈیا کا ’’چائے خانہ‘‘

سوشل میڈیا کا ’’چائے خانہ‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پاکستان میں چائے خانہ بن چکا ہے جس کا جو جی چاہے وہ لکھ دیتا ہے سوشل میڈیا پر ماضی کی کہی ہوئی بات موجودہ صورتِ حال سے منسلک ہو جاتی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق سوشل میڈیا پر جعلی خبریں اور تصویریں پہلے سے زیادہ پھیل رہی ہیں یہ شکایت بھی عام ہے کہ معروف شخصیات کے نام سے جعلی اکاؤنٹس بنا کر ان کی جانب سے متنازع قسم کے ایسے بیانات جاری کئے جاتے ہیں جن سے اشتعال پھیلے یہاں تک کہ سرکاری اداروں کی جانب سے جعلی نوٹیفکیشن بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیئے جاتے ہیں جن سے کنفیوژن پھیلتا ہے جعلی اکاؤنٹس کے خلاف سخت کارروائی اور کریک ڈاؤن کے باوجود سوشل میڈیا میں جھوٹی اور سنسنی خیز خبریں عام ہیں آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے محققین کے مطابق فیس بک اور ٹویٹر بدستور انتہا پسندانہ، سازشی، سنسنی خیز اور جھوٹے تبصروں پر مبنی خبروں سے بھرا ہوا ہے اور ساتھ ہی غیر معیاری خبروں کی دوسری اقسام بھی موجود ہیں جعلی خبروں میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے یا پھر ایسا مواد گمراہ کن سرخیوں کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے اور ان میں ناقابلِ بھروسہ ذرائع کے حوالے دیئے جاتے ہیں، جس مواد اور پوسٹس میں پانچ فیصد تک حوالہ جات دیئے جاتے ہیں وہ سرکاری ایجنسیوں، ماہرین یا پھر سیاسی امیدواروں کی طرف سے ہوتی ہیں۔
دنیا بھر میں توسوشل میڈیا میں جو خرابیاں ہیں، سو ہیں لیکن پاکستان میں دیدہ دانستہ طور پر جھوٹی خبروں کا ایک فلڈ گیٹ کھول دیا گیا ہے اور بے سروپا جعلی اور جھوٹی خبریں پھیلاتے وقت انسانی جذبات کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔ یہاں تک کہ نامور شخصیات کی موت کی جھوٹی خبریں کسی خوف اور جھجک کے بغیر پھیلا دی جاتی ہیں جن دنوں سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز لندن کے ہسپتال میں زیرعلاج تھیں اس حوالے سے جعلی خبروں کا ایک ایسا طوفان اٹھایا گیا تھا جن کی کوئی بنیاد نہیں تھی یہاں تک کہ ان کی شدید بیماری کے دوران ان کی موت کی خبر اُڑا دی گئی اور پاکستانی ٹی وی چینلوں پر اس کے لئے جس ’’ذریعے‘‘ کا حوالہ دیا گیا اسے ہسپتال کا ڈاکٹر ظاہر کیا گیا حالانکہ اس جھوٹی خبر کے بعد بھی وہ کئی ماہ تک نہ صرف زندہ رہیں بلکہ ان کی حالت بھی بہتر ہوئی اور وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ بات چیت بھی کرتی رہیں پھر دوسری مرتبہ جب ان کی موت کی جھوٹی خبر پھیلائی گئی اس وقت بھی وہ نہ صرف زندہ تھیں بلکہ ان کا انتقال بہت بعد میں ہوا، اڈیالہ جیل سے نوازشریف اور مریم نواز ان کے ساتھ بات چیت بھی کرتے رہے لیکن جھوٹی خبریں پھیلانے والے بدستور سرگرم عمل رہے یہ اپنی نوعیت کا کوئی واحد واقعہ نہیں ہے اس سے ملتے جلتے واقعات روزانہ ہوتے رہتے ہیں کئی حضرات کے بارے میں جو خبریں پھیلائی گئیں وہ بعد میں غلط ثابت ہوگئیں، اکاؤنٹس بھی جعلی ثابت ہو گئے ابھی آج ہی سابق وزیراطلاعات پرویز رشید نے ایف آئی اے سے یہ شکایت کی ہے کہ ان کے نام سے جعلی اکاؤنٹس چلائے جا رہے ہیں۔
جعلی اور جھوٹی خبروں کا معاملہ تو رہا ایک طرف جو اکاؤنٹس اصلی ہیں ان پر بھی پوسٹ اپ لوڈ کرتے وقت اخلاقیات اور قانون کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا قابلِ احترام شخصیات جن میں اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان بھی شامل ہیں ان کے متعلق اخلاق سے گرے ہوئے اور بے بنیاد تبصرے کئے جاتے ہیں۔ ان کی زبان بھی انتہائی سوقیا نہ اور قابلِ اعتراض ہوتی ہے، حالیہ برسوں کے دوران عام جلسوں میں نامور شخصیات کے خلاف جس طرح کی زبان کو رواج دیا گیا ہے اس سے بھی زیادہ رذیل حرکات سوشل میڈیا پر جاری ہیں فوٹوشاپ میں پرانی تصویروں کو کاٹ اور جوڑ کر یوں پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ اصلی ہوں، یہاں تک کہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے ایک حالیہ ہنگامہ خیز اجلاس کے بعد اپوزیشن نے شکایت کی کہ کسی ہنگامے کی پرانی تصویر میڈیا کو جاری کر دی گئی اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ وہ جب واک آؤٹ کرکے ایوان سے نکل آئے اس وقت تک اسمبلی کے ایوان میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا جو تصویر میں دکھایا گیا۔ اگرچہ اپوزیشن کا یہ موقف حکومت نے مسترد کر دیا تاہم اس سے یہ تو اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر جعلی تصویروں کا بھی ایک سیلاب آیا ہوا ہے اسی لئے صدر مملکت نے اسے ’’چائے خانہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ویسے تو یہ بھی مہذب لفظ ہے جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے اس کے لئے کوئی ایسا لفظ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو صورت حال کی بالکل درست عکاسی کرتا ہو اور اس کے شایانِ شان بھی ہو۔ ایک ہم قافیہ لفظ ذہن میں آتو رہا ہے لیکن ہم اس کے استعمال سے پرہیز کررہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے اس طوفانِ بدتمیزی سے تنگ آکر دنیا کے کئی ملکوں نے اس کو روکنے کے لئے اقدامات شروع کر دیئے ہیں اور ویب سائٹس بنانے والوں کو قانون اور ضابطے کا پابند بنانے کے اقدامات کئے ہیں، مصر میں ویب سائٹ یا ویب اخبار چلانے کے لئے پیشگی اجازت کا قانون نافذ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی اگر سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو یہ اچھی بات ہے کیونکہ مادر پدر آزاد سوشل میڈیا کے معاشرے پر انتہائی منفی اثرات سامنے آنے لگے ہیں اور جعلی خبروں کی وجہ سے ایسے المیے جنم لینے لگے ہیں جو انتہائی افسوسناک ہیں اور اگر یہی سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہا تو یہ کوئی بھی رخ اختیار کر سکتا ہے ’’ڈس انفارمیشن‘‘ کا جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال بہت پرانا ہے لیکن سوشل میڈیا تو دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں ہی جنگی بنیادوں پر کام کر رہا ہے اور جھوٹ کا یہ کاروبار سب وشتم کی مہم کی شکل اختیار کرکے ملک کے امن پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ بعض عناصر نے ایسی مہم جوئی کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کر رکھی ہے اور جونہی ان کی کوئی ’’پسندیدہ‘‘ خبر سامنے آتی ہے وہ اس پرمن پسند تبصرے کرکے اسے لمحوں میں پھیلا دیتے ہیں اور ان کے پھیلائے ہوئے اس دام ہمرنگ زمین میں سادہ لوح لوگ بھی جوق در جوق پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں نے بھی سوشل میڈیا کو اپنے سیاسی مقاصدکے لئے استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے اور بہت سی جماعتیں اس سلسلے میں ڈس انفارمیشن کا سہارا ہی لے رہی ہیں، حکومت کو اگر اس میڈیاکو ریگولیٹ کرنے کا خیال آ گیا ہے تو ضروری ہے اس کا آغاز جلد کر دیا جائے اس کام میں جتنی تاخیر ہوگی معاشرہ بے راہ روی کی اس شاہراہ پر بگٹٹ دوڑتا رہے گا اور بالآخر کسی بڑے حادثے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

مزید :

رائے -اداریہ -