دلدار پرویز بھٹی مرحوم کی یاد میں
جب بھی اکتوبر کا مہینہ آتا ہے، اُداس کر کے رکھ دیتا ہے۔31اکتوبر1994ء کو دلدار پرویز بھٹی مرحوم اِس دُنیا سے چلے گئے تھے۔اس کے باوجود آج24سال کے بعد بھی دلدار پرویز بھٹی مرحوم کے چاہنے والوں کی کمی نہیں۔ دلدار پرویز بھٹی مرحوم کے دوست اور جن کے ساتھ دلدار پرویز بھٹی مرحوم کا پیار تھا، اب بھی اُنہیں یاد کر کے روتے ہیں،صرف اِس لئے کہ وہ دوست اور اپنے چاہنے والوں سے محبت کرتے تھے۔میرا رابطہ دلدار پرویز بھٹی مرحوم سے اُس وقت ہوا، جب مَیں نے تعلیم مکمل نہ کرنے کی وجہ سے محنت مزدوری شروع کی تھی، مَیں ماہنامہ ’’زنجیر‘‘ لاہور میں کام کرتا تھا۔ اُس وقت ’’زنجیر‘‘ حسن نثار، محمد سعید اظہر اور مظفر محمد علی کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا۔وہاں میری ملاقات دلدار پرویز بھٹی مرحوم سے ہوئی،مَیں جو کبھی ٹیلی ویژن پر دلدار پرویز بھٹی کا پروگرام دیکھا کرتا تھا، کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دلدار پرویز بھٹی سے ملوں گا۔
جاب کے بعد دلدار پرویز بھٹی مرحوم، حسن نثار، محمد سعید اظہر اور مظفر محمد علی مرحوم ’’جنگ پبلشر‘‘ کے انچارج تھے، ملنے آتے تو مَیں بہت خوش ہوتا کہ آج دلدار پرویز بھٹی آئیں گے، سب سے ملنے کے بعد میرا حال چال بھی پوچھتے تھے کہ کیسے ہو،مَیں کہتا اچھا ہوں اور مجھے کہتے کہ تم اتنی چھوٹی سی عمر میں جاب کیوں کر رہے ہو،جاؤ تعلیم مکمل کرو اور مَیں کوئی جواب نہ دیتا، تو خود ہی کہتے گھر کی مجبوری کی وجہ سے کام کر رہے ہو؟ میرے پاس اُن کے سوال کا کوئی جواب نہ ہوتا، مجھے صرف دلدار پرویز بھٹی مرحوم سے ملاقات کی خوشی ہوتی اور لگتا انسان اچھے ہیں، جو کم از کم مجھے مل کر میرا حال تو پوچھ لیتے ہیں۔وہ میری جیب بھی گرم کر دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہیں کوئی ضرورت ہو تو مجھے ضرور بتانا اور مَیں کہتا اچھا جی،مَیں نے چھ ماہ تک ’’زنجیر‘‘ میں کام کیا،اس کے بعد محمد سعید اظہر اور مظفر محمد علی مرحوم نے ’’زنجیر‘‘ سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنا دفتر بنا لیا تھا، مجھے دوبارہ محمد سعید اظہر اور مظفر محمد علی مرحوم کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا، دلدار پرویز بھٹی مرحوم اس دفتر میں آنے لگے، مجھے دو بار دلدار پرویز بھٹی مرحوم کی خدمت کا موقعہ مل گیا۔
کالج سے فارغ ہونے اور ٹیلی ویژن کے پروگرام کے بعد دلدار پرویز بھٹی مرحوم، مظفر محمد علی مرحوم کے دفتر آ جاتے تھے، اس کے بعد کبھی الحمرا میں اور کبھی کلچرل کمپلیکس میں پروگرام کرنے چلے جاتے تھے، مجھے کہتے تھے وہاں آ جانا، مَیں جاب کے بعد پروگرام دیکھنے چلا جاتا،دلدار پرویز بھٹی مرحوم کی وجہ سے مَیں نے نصرت فتح علی خان کے بہت پروگرام دیکھے، رات کو واپس گاڑی میں گھر چھوڑ کر جاتے تھے، مَیں سوچتا تھا کہ کتنا اچھا آدمی ہے،جو ایک غریب کو گھر تک چھوڑنے آتا ہے،وجہ صرف یہ تھی کہ دلدار پرویز بھٹی مرحوم غریب آدمی سے بھی اتنا ہی پیار کرتا تھا جتنا اپنے بھانجے سے، کیونکہ دلدار پرویز بھٹی مرحوم کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی،مگر ہمیں اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے۔میری دلدار پرویز بھٹی مرحوم سے سات سال تک یہ محبت قائم رہی،مَیں نے ان سات برسوں میں دلدار پرویز بھٹی مرحوم میں نہ غرور دیکھا اور نہ لالچ۔
دلدار پرویز بھٹی مرحوم دوستوں سے لے کر دشمن تک سے پیار سے بات کرتے تھے،کچھ دوست صرف دلدار پرویز بھٹی مرحوم سے اپنے کام اور مفادات کے لئے دوستی کرتے تھے،اس کے باوجود دلدار پرویز بھٹی مرحوم کے چہرے پر کبھی کوئی پریشانی نہیں دیکھی تھی۔وزیراعظم عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے چندے کے لئے پوری دُنیا کا دورہ کیا تو دلدار پرویز بھٹی مرحوم عمران خان کے ساتھ تھے، صرف اِس لئے کہ عمران خان انسانیت کی خدمت اور عوام کے لئے کام کر رہا تھا۔ دلدار پرویز بھٹی مرحوم نے دن رات عمران خان کا ساتھ دیا،جب شوکت خانم ہسپتال بن چکا تھا تو اس وقت دلدار پرویز بھٹی مرحوم اِس دُنیا میں موجود نہیں تھے۔
عمران خان نے ہسپتال کے لئے آخری دورہ امریکہ کا کیا تھا، دلدار پرویز بھٹی مرحوم روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں کالم بھی لکھتے تھے۔ایک دن ’’پاکستان‘‘ اخبار آئے تو مجھے کہا کہ تم کل میرے دفتر آنا۔ دلدار پرویز بھٹی مرحوم اس وقت ایچ ٹی کمپلیکس کے ڈائریکٹر بن چکے تھے، مَیں ’’پاکستان‘‘ اخبار میں سرکولیشن میں کام کرتا تھا، مَیں آفس سے چھٹی لے کر دلدار پرویز بھٹی مرحوم کو ملنے گیا، ایچ ٹی کمپلیکس میں مجھے ملنے کے بعد کہا میرا عمران خان کے ساتھ آخری دورہ ہے،اس کے بعد شوکت خانم ہسپتال کا افتتاح ہونا ہے! تو کچھ دن آرام کروں گا، مَیں اب کافی تھک چکا ہوں،میری صحت اب اجازت نہیں دے رہی کہ عمران خان کے ساتھ جاؤں،مگر مَیں عمران خان کو نہ نہیں کر سکتا، مَیں نے تمہیں اِس لئے بلایا تھا کہ ایک تو میرے کالم کے میگزین لے آنا،جو کالم میں آج کل کے میگزین میں لکھ رہا ہوں، دوسرا مَیں نے ایک درخواست تمہاری جاب کے لئے دی ہے،
اس پر دستخط کر دو، مجھے آفس میں سٹاف کی ضرورت ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ تمہاری گورنمنٹ کی نوکری ہو گئی تو کم از کم اپنے ماں باپ کی بہتر خدمت کر سکو گے؟اُس دن کے بعد دلدار پرویز بھٹی مرحوم عمران خان کے ساتھ امریکہ چلے گئے، مجھے نوکری نہ ملنی تھی نہ ملی،اِس لئے کہ میرا محسن میرا رہبر واپس نہیں آیا تھا، دلدار پرویز بھٹی مرحوم امریکہ میں ہی انتقال کر گئے، اب جب وزیراعظم عمران خان نے 50لاکھ گھر بنانے کا سوچا ہے تو میری ایک درخواست ہے کہ آپ کم از کم دلدار پرویز بھٹی مرحوم کی بیگم کے لئے ایک گھر ضرور بنا کر دیں، دلدار پرویز بھٹی مرحوم کی بیگم آج بھی کرایہ کے مکان میں رہ رہی ہیں۔ آپ کی محبت میں دلدار پرویز بھٹی مرحوم نے اپنی صحت کا بھی خیال نہیں رکھا تھا، آج شوکت خانم ہسپتال،جہاں آپ نے عوام کی خدمت کی، وہاں دلدار پرویز بھٹی مرحوم، جس نے آپ کے مشن میں اپنی جان تک دے دی تھی،اُس کی یاد میں مکان سے محروم اُس کی بیگم کو فراموش نہ کریں۔