ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر ونگ کیپٹن (ر) شعیب کے مطابق پاکستان کے تمام بینکوں کا ڈیٹا عالمی ہیکرز نے ہیک کرلیا ہے ۔اس خبر کے نشر ہونے کے بعد سینٹ میں بینکوں اور ایف آئی اے سے رپورٹ مانگ لی گئی ہے کہ بینکوں کاڈیٹا چوری کیسے ہوگیا ؟ بینک صارفین پر یہ خبر کسی ایٹم بم کی طرح گری ہے اور ہرکوئی سوچ میں پڑگیا ہے کہ جب بینکوں میں رکھی ان کی جمع پونجی بھی لوٹ لی جائے گی تو وہ بینکوں میں پیسہ کیوں رکھیں ۔
بینکوں کو ہیک کئے جانے کی وارداتیں سائبر کرائمز کا درجہ رکھتی ہیں ،دنیا بھر میں اگرچہ ایسی وارداتیں ہوتی ہیں لیکن متاثرہ بینک اپنی ساکھ بچانے اور کسٹمرز کا اعتماد حاصل کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا نہ جگاڑ لگاتا ہے مگر اپنے پاکستانی بینک اس کے الٹ چلتے ہیں، لگتا ہے جیسے ان کو کوئی پرواہ نہیں ،نہ ہی ان اداروں کو جو بینکوں میں صارفین کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس واردات کا ذکر اس وقت کیا جارہا ہے جب ہزاروں لوگوں کے اکاونٹس سے ہیکرز رقوم نکال چکے ہیں اور لاکھوں صارفین ابھی تک بے خبر ہیں کہ ان کے بینکوں میں رکھا ہوا اثاثہ غیر محفوظ ہوچکاہے ۔یہ سلسلہ تو کئی ماہ سے جاری ہے ۔اس ضمن میں سوشل میڈیاپر شور بھی مچایا جارہا ہے کہ پاکستانی بینکوں میں صارفین کے ڈیٹا کا نظام بری طرح فلاپ ہوچکاہے جس کی وجہ سے بینک صارفین کے اکاونٹ سے پیسہ نکالا اور ٹرانسفر کیاجارہا ہے ۔ لیکن نہ ایف آئی اے اور نہ ہی سٹیٹ بینک اس بارے میں فوری اقدامات ا ٹھا پایا ہے نہ متاثرین کی شکایات کا ان کے متعلقہ بینکوں نے فوری ازالہ کیا اور وہ خوار ہوئے چلے جارہے ہیں ۔اب کچھ دنوں کی بات ہے متاثرین یقینی طور پر ان بینکوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں گے ۔چونکہ مجھے اس کا خوب تجربہ ہوچکا ہے اور میں خود ان متاثرین میں شامل ہوں ،مجھے اس دوران بینکوں اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان پائی جانے والی مجرمانہ غفلت کو مانیٹر کرنے کا موقع ملا ہے تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بینکوں نے اپنے متاثرین کو فوری اعتماد میں نہ لیا تو پاکستان میں بڑا مالیاتی بینکنگ اسکینڈل سامنے آئے گا ۔
شرمناک بات یہ ہے کہ جب کوئی متاثرہ صارف اپنے بینک کو اس واردات سے آگاہ کرتا ہے تو بینک اسکو باقاعدہ لولی پاپ کھلاتے ہیں ۔بینکوں کا سردرویہ صارفین سے بلاوجہ نہیں ہے ۔انہیں یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ اس ملک میں سائبر کرائمز کے نام پر بننے والے ادارے خود تماشائی بنے بیٹھے ہیں ،جب کوئی ان کے پاس ایسی رپورٹ لیکر جاتا ہے تو اسکو روایتی طور ٹرخادیا جاتا اور پھر خوار کرکے اسکا کیس لمبی لائن میں لگا دیا جاتا ہے ۔ سٹیٹ بینک جس نے بڑے بینکوں سمیت سارے چھوٹے بینکوں کو بھی سختی سے ڈیٹا سکیورٹی کا نظام اپنانے کی ہدایات کی ہوئی تھیں ،اسکا اپنا مانیٹرنگ نظام انتہائی کمزور ہے کہ وہ اس حکمنانے پر ہونے والے عمل درامد کو ملاحظہ نہیں کرتا ۔ بینک صارفین کی شکایات کے ازالہ کے لئے اگرچہ بینک محتسب کا بھی ادارہ قائم ہے جس کے بارے گمان کیا جاتا ہے کہ وہ صارفین کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بینکوں کو ڈنڈاچڑھا تا ہے ،لیکن حالیہ وارداتوں کے تناظر میں اسکی اپنی ساکھ پر بھی سوال لگ گیا ہے کیونکہ بینک محتسب نے بھی اپنا نظام پیچیدہ کردیا ہے ۔ کوئی سائل کراچی میں موجود اس ادارہ کو اپنی شکایت پہنچانے کے بعد انتظار میں لگ جاتا ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی بینکوں سے ڈیٹا چوری کرنااتنا سہل ہے کہ لوگوں کے اکاونٹ خالی کردئے جائیں اور بینکوں کو اسکی خبر ہی نہ ہوپائے۔اس میں بینک سراسر ملوث ہوسکتے ہیں۔پاکستان کے ایک بڑے بینک کی غفلت کا اندازہ کریں کہ اس بینک نے جب اپنے صارفین کا ڈیٹا اپ گریڈ کیا تو زیادہ تر صارفین کی معلومات غلط فیڈ کردیں ،اب اگر کوئی صارف کسی مصیبت میں اس بینک کو ہیلپ لائن پر فون کرتا ہے تو تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ڈیٹا غلط ہے جس کی وجہ سے وہ صارف ہیلپ لائن کو اپنے ساتھ ہونے والی واردات سے بھی فوری آگاہ نہیں کرسکتا کیونکہ بینک اس کال کرنے والے فرد کو اپنا اصل کسٹمر نہیں مانتا ۔یہ ایسا معاملہ ہے کہ جو سٹیٹ بینک سمیت دیگر اتھارٹیز کو بھی معلوم ہے کہ صارفین کے ڈیٹا کے ساتھ ایسا کیونکر ہوا ہے مگر اس پر رسمی کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں کیا گیا جس سے اب صارفین کے دلوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے کہ بینکوں میں انکی جمع پونجی محفوظ نہیں ۔وہ بینک جو سروسز کے نام پرسالانہ کھربوں روپے کماتے ہیں ،اگر اپنے صارف کی فوری جینوئن شکایت کا ازالہ نہ کرسکیں تو پھر کیا اس بات کی ضمانت دی جاسکتی ہے کہ بینکنگ سسٹم فلاپ ہونے سے بچ پائے گا ۔
۔۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔