مولانا فضل الرحمن خسارے میں نہیں رہے!
مولانا فضل الرحمن اگر وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ واحد ہدف بنا کر آزادی مارچ نہ کرتے، تو ان کی باقی باتوں سے تو شاید سبھی کو اتفاق ہے۔ انہوں نے دھرنا دینے کے اگلے دن جو خطاب کیا، وہ بہت جامع اور مدلل تھا۔ ایک دن پہلے وہ کچھ سخت باتیں کہہ گئے تھے اور انہوں نے وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کی انتہا پسندانہ بات بھی کہہ دی تھی،لیکن اپنی دوسری تقریر میں آنسوؤں کے ساتھ انہوں نے بڑی درد مندانہ باتیں کیں۔ انہوں نے بالکل درست کہا کہ پاکستان میں ووٹ کا احترام موجود نہیں اور عوام کی رائے کو چرا لیا جاتا ہے۔ 72 سال سے یہ المیہ جاری ہے اور اسمبلیوں کی ہیئت ترکیبی بھی کوئی اور طے کرتا ہے۔ ان کی یہ بات بھی زمینی حقائق کے قریب تھی کہ الیکشن لڑنے والے کبھی عوام کی طرف نہیں دیکھتے، ساری توجہ نادیدہ طاقتور حلقوں کی طرف مبذول رکھتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کا انتخاب ووٹ سے نہیں، طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے اشارے سے ہونا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے نوازشریف کا ”ووٹ کو عزت دو“ والا بیانیہ بھی دہرایا، مطالبے کی شکل میں نہیں، بلکہ التجا کی شکل میں، جو انہوں نے فوجی قیادت سے کی۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن ایک بہت بڑا عوامی شو کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ پاکستانی سیاست سے آؤٹ ہو گئے ہیں،لیکن آج وہ پاکستانی سیاست میں سب سے زیادہ اِن ہیں۔ ان کا معاملہ ایسا نہیں کہ آج انہوں نے جس عوامی قوت کا مظاہرہ کیا ہے، کل نہیں کر سکیں گے، ان کے ساتھ عوام کی ایک مستقل طاقت موجود ہے، جنہوں نے ہر صورت میں ان کی آواز پر لبیک کہنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن انہیں کل بھی دوبارہ بلا سکتے ہیں اور پرسوں بھی، غرض یہ لاکھوں افراد ان کی عقیدت کی ڈور سے بندھے ہوئے ہیں۔ ایسا تو کسی کے پاس بھی نہیں۔ آج پیپلزپارٹی نیز مسلم لیگ (ن) عوامی طاقت کے مظاہرے سے محروم ہو چکی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے ابھی دو روز پہلے اوچ شریف میں جس ورکرز کنونشن سے خطاب کیا، اس کی حالت بہت پتلی تھی، حتیٰ کہ انتظامات بھی بہت ناقص تھے، اسٹیج پر مناسب لائٹس تک نہیں تھیں، بلاول اندھیرے میں خطاب کرتے رہے۔
اس کے برعکس مولانا فضل الرحمن کے کارکن ہیں، دھرنے کی جگہ پر ایک شہر آباد کر لیا، اپنی مدد آپ کے تحت کھانے پینے کا انتظام کیا، صفائی ستھرائی کا بھی خیال رکھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ نظم و ضبط اور امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ اس قسم کا عوامی شو تو مولانا فضل الرحمن کسی وقت بھی کر سکتے ہیں، یہ کارکن تو انہیں ہر وقت دستیاب ہیں۔ اب ایسے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ مولانا سیاست کے لئے غیر متعلقہ ہو گئے ہیں۔انہوں نے اس آزادی مارچ اور دھرنے سے جو مقاصد حاصل کرنے تھے، کر لئے۔ وہ خواہش کرتے ہوں گے کہ دھرنے سے عمران خان کی طرح ان کے خطاب کو بھی میڈیا براہ راست نشر کرے۔ ان کی اہمیت اور دھرنے کے حوالے سے ان کے موقف کی اہمیت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انہیں نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں رہا تھا۔ سو انہیں براہ راست دکھایا جاتا رہا اور ان کے جوش خطابت کے جوہر بھی عوام کے سامنے آئے۔سو یہ کہنا مناسب ہو گا کہ مولانا فضل الرحمن نے خود کو سیاسی تنہائی سے نکال کر سیاست کے ”بھرے میلے“ میں لاکھڑا کیا ہے۔
چودھری شجاعت حسین نے انہیں فون کرکے درست کہاہے کہ آپ نے تو میلہ لوٹ لیا ہے، دونوں بڑی سیاسی جماعتیں آپ کو اپنا لیڈر مان کر پیچھے آ کھڑی ہوئی ہیں۔ اتنا تو مولانا فضل الرحمن کو بھی یقین ہو گا کہ وزیراعظم عمران خان کا استعفا لینا آسان نہیں،تاہم اس کا شاید انہیں یقین نہ ہو کہ وہ راتوں رات قومی سیاست کی سب سے اہم شخصیت بن جائیں گے۔
اچھا ہوا کہ مولانا فضل الرحمن جذبات کی رو میں نہیں بہے، وگرنہ جس قسم کا ان کے کارکنوں میں ڈی چوک جانے کے لئے جوش و خروش تھا، وہ واقعی سب رکاوٹیں توڑتے ہوئے وہاں پہنچ جاتے، اس دوران کتنا خون خرابہ ہوتا،کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مَیں سمجھتا ہوں انہوں نے ڈی چوک نہ جانے کا فیصلہ کرکے ایک بڑے تصادم کو بھی ٹالا اور اپنی سیاست کو بھی بچا لیا۔ تحریک لبیک والے مولانا خادم حسین رضوی نے بصیرت کا مظاہرہ نہیں کیا تھا اور آج وہ قصہء پارینہ بن چکے ہیں۔ ریاستی اداروں سے ٹکراؤ بنتا ہی نہیں۔ مَیں نے خود اپنے کالم میں مولانا فضل الرحمن کی وزیراعظم ہاؤس جا کر وزیراعظم کو گرفتار کرنے کی دھمکی پر کہا تھا……”کیا وہ پاکستان کو لیبیا اور عراق بنانا چاہتے ہیں“؟…… شکر ہے، مولانا فضل الرحمن کو اس کا ادراک تھا۔ انہوں نے خود اپنی تقریر میں کہا کہ ملک دشمن طاقتیں یہ چاہتی تھیں کہ اسلام پسند نوجوانوں کا ٹکراؤ، ریاستی اداروں کے ساتھ ہو، تاکہ وہ اس خانہ جنگی سے اپنے مقاصد پورے کر سکیں، مگر ہم آئین اور ریاستی اداروں پر یقین رکھتے ہیں، ہم نے بے مثال نظم و ضبط کا مظاہرہ کرکے دشمن کی اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
مولانا نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بات بھی سرعام کہہ دی کہ کچھ لوگ ہمیں اکساتے ہیں، ٹکراؤ کی راہ دکھاتے ہیں، ہمیں ان طعنوں سے ڈراتے ہیں، جو بغیر استعفا لئے واپس جانے پر سننے پڑیں گے، لیکن ہم ایسی باتوں میں آنے والے نہیں۔ ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اورکوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جو جمہوریت، آئین اور قومی سلامتی کے خلاف ہو۔ ہم نے احتجاج کرکے صرف اپنا آئینی حق استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ملک میں آئین سے انحراف کی وجہ سے جو خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اور عوام کے اندر جو مایوسی پائی جاتی ہے، اس کا بروقت تدارک کیا جائے، وگرنہ عوام کے اندر پیدا ہونے والا اضطراب بہت کچھ بہا لے جائے گا۔
جہاں تک میرے تجزیئے کا تعلق ہے تو مَیں اس آزادی مارچ کو ایک بہت بڑی سیاسی سرگرمی سمجھتا ہوں، جس نے ہمارے جمہوری نظام کی پختگی کی جانب سفر کی پھر نشاندہی کی ہے۔ اس سارے عمل کے دوران سوائے دوچار واقعات و بیانات کے سب کچھ مثبت رہا۔ مفتی کفایت اللہ اگر جوشِ خطابت میں فوج کے خلاف دل کا غبار نہ نکالتے تو کہیں بہتر تھا، اسی طرح مولانا فضل الرحمن،عمران خان کو گالیاں نہ دیتے، نیز انہیں گرفتار کرنے کے بیان سے احتراز کرتے تو ان کا مجموعی تاثر زیادہ مثبت ہوتا۔ وزیراعظم سے استعفا مانگنا کوئی انہونی بات نہیں، لیکن اس کے لئے متشدد سوچ کا پرچار کرنا بہت بڑی خامی ہے۔ یہاں دیگر سیاسی قوتوں کے مثبت کردار کا ذکر بھی ضروری ہے۔
پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور اے این پی حالات کو اعتدال میں رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے ان جذباتی لمحوں میں انہوں نے ہوش کا دامن نہیں چھوڑا، جب وہ مایوس ہو کر کچھ ماورائے آئین کر گزرنا چاہتے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کردار بھی ایک میچور سیاستدان کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا، حالانکہ اس آزادی مارچ سے پہلے وہ بہت سخت بیانیہ کے ساتھ میدان میں موجود تھے، مگر دھرنے اور ریڈ زون جانے کے معاملے میں انہوں نے دو ٹوک مؤقف اختیار کیا۔
کچھ ایسا ہی طریقہ شہباز شریف نے بھی اپنایا اور مسلم لیگ (ن) کو انتہائی قدم اٹھانے سے دور لے گئے، لیکن سب سے بڑا کردار پھر بھی مولانا فضل الرحمن کا ہی رہا، جنہوں نے خود سامنے آ کر یہ اعلان کیا کہ ریڈ زون ان کی منزل تھی ہی نہیں۔ وہ سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور سیاسی تحریکیں سمندر کی چٹانوں سے ٹکرانے کا نام نہیں، بلکہ سمندروں کی لہروں کے ساتھ جدوجہد کرنے کا نام ہے۔ البتہ کہیں بہتر ہوتا اگر مولانا فضل الرحمن مدرسہ اصلاحات کی مخالفت نہ کرتے اور دینی مدارس کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بہرہ مند کرنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں، ان کا ساتھ دینے کی بات کرتے۔ ان کی اس بات میں زیادہ وزن نہیں تھا کہ پہلے اصلاحات ایچی سن کالج اور برن ہال کالج میں کرو، جہاں اس ملک کے حکمران پیدا کئے جاتے ہیں۔
اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں تعلیم کی جدید سہولتیں موجود ہیں، ان میں اصلاحات کر کے کیا انہیں دینی مدارس بنا دیا جائے؟ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ جہاں لاکھوں طالب علم پڑھتے ہیں، ان میں اصلاحات لا کر انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ مولانا کا یہ بڑا شو آج نہیں تو کل ختم ہو جائے گا، تاہم اس کے سیاسی اثرات تادیر موجود رہیں گے۔ حکومت کے لئے بھی اس میں ایک بڑا سبق موجود ہے۔ بحران ٹل جانے کے بعد اطمینان کا سانس لینے کے بعد اپنا احتساب بھی کرنا چاہئے کہ آخر وہ کون سے خلاء باقی رہ گئے ہیں، جن کی وجہ سے ملک میں سکون کی بجائے اضطراب موجود ہے۔ سب سے پہلا کام عوام کو مطمئن کرنا ہے، جنہیں کم از کم اس آزادی مارچ اور دھرنے کے بعد صرف باتوں سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا، اس کے لئے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔