آزادی مارچ میں خیبر کا حصہ زیادہ، پشاور سے امیر مقام اسفندیارولی بھی قافلے لائے
قطع نظر اس سے کہ مولانا فضل الرحمن وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہوتے یا نہیں،یہ ضرور ہے کہ وہ کراچی سے خیبر تک اپوزیشن کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔حکومت مخالف جماعتوں کے کارکن نا سہی قیادت کو تو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا گیا ہے، امیر جمعیت اور ان کے ساتھیوں کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ آزادی مارچ نہایت پر امن رہا اور تادمِ تحریر ہزاروں میل سے بڑی تعداد میں آنے والے شرکاء نے قومی املاک کو نقصان پہنچایا نہ گھیراؤ جلاؤ کیا اور نہ ہی روٹین کی ہنگامہ آرائی، یہ جملہ بھی درست طور پر کہا جا رہا ہے کہ لاکھوں کے مجمع کی طرف سے ایک گملا بھی نہ توڑا گیا۔ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی تا حال سکون میں ہیں اور لاٹھی گولی کے استعمال کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی، ویسے تو جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے قافلے روکے جا رہے ہیں لیکن بظاہر اس امر کی کوئی ٹھوس شہادت نہیں ملی کہ ملک بھر سے آنے والے شرکاء کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہوں، اتنا ضرور دیکھا گیا ہے کہ سیکیورٹی انتظامات اور ٹریفک کی روانی کے لئے کچھ راستے روک کر متبادل بندوبست کیا گیا ہے۔ جہاں تک خیبر پختونخوا کا تعلق ہے تو گزشتہ دنوں انہی سطور میں جو یہ بات تحریر کی گئی تھی کہ جے یو آئی کا آزادی مارچ کے حوالے سے زیادہ فوکس خیبر پر ہی ہوگا تو وہ درست ثابت ہوئی اور کے پی کے سے جتنی بڑی تعداد میں شرکاء اسلام آباد پہنچے اس سے پنڈال میں خوب رونق لگی، جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ساتھ اے این پی اور مسلم لیگ (ن) کے بڑے قافلے نے آزادی مارچ کو چار چاند لگائے۔ اسفند یار ولی اور امیر مقام کی قیادت میں جو جلوس وفاقی دارلحکومت پہنچے انہیں منتظم جماعت کے سرکردہ رہنماؤں نے بھی بے حد سراہا، پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے مسلسل تین روز تک شرکائے مارچ سے خطاب کر کے مولانا فضل الرحمن کا ریکارڈ برابر کر دیا۔ تعداد کے اعتبار سے جمعیت کا یہ شو کافی اچھا ہے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کی حد تک اسے کامیابی بھی ملی ہے، مارچ کا اب تک پر امن رہنا بھی خوش آئند ہے لیکن ایک دو معاملات ایسے ہیں جن میں ایسا لگتا ہے جیسے احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا گیا، بعض حکومتی اور کئی اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات سے ماحول خراب ہوتا دکھائی دیا لیکن پھر کچھ دانشمند سیاستدانوں نے معاملہ فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے حالات قابو کر لئے۔ مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کے رہنما اسفند یار ولی کے والد بزرگوار کے حوالے سے جو گفتگو میڈیا کی زینت بنی وہ یقیناً مناسب نہیں، پنجاب کے وزیر اطلاعات نے دونوں مذکورہ سیاسی قائدین کے والد صاحبان کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا اس پر اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر والدین کا احترام نہیں ہو گا تو پھر وزیراعظم کے والد تک بھی بات پہنچے جائے گی۔واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمن کے والد گرامی مولانا مفتی محمود ، اسفندر یار ولی کے والد خان عبدالولی خان اور دادا خان عبدالغفار خان انتہائی معزز، اور قابل ِ احترام شخصیات ہیں۔جنہوں نے تحریک آزادی میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے اپنے لوگوں کی خدمت کی،اور اصولوں پر ڈٹے رہے۔ آباؤ اجداد کسی کے بھی ہوں ان کے بارے میں زبان طعن دراز کرنا کسی طور مناسب نہیں۔اس سے احتراز کرنا لازم ہے۔بزرگوں کی پگڑیوں سے کھیلنے اور انہیں اچھالنے کی کسی کواجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح بعض دیگر قابل اعتراض بیانات بھی سامنے آئے ہیں ان سے بھی اجتناب کی ضرورت ہے تا کہ آزادی مارچ، دھرنا، لاک ڈاؤن، پہیہ جام یا شٹر ڈاؤن جو کچھ بھی ہو وہ خوش اسلوبی سے گزر جائے۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان تو آزادی مارچ کے آغاز سے پہلے ہی سخت بیانات دیتے چلے آ رہے ہیں اور دو روز قبل انہوں نے اپنا یہ سلسلہ دراز کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے آزادی مارچ کے قائدین ملک دشمن قوتوں کی آوازبننے کی بجائے تعمیری بات کریں اور قومی اداروں پر بلا جواز اور بے بنیاد تنقید سے گریز کریں۔ سیاسی مقاصد کیلئے مذہبی کارڈ کا استعمال اب قصہ پارینہ بن چکا ہے اب عوام باشعور ہیں۔وہ کسی کے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ ہماری سیاسی، مذہبی جماعتوں کو مذہب کے نام پر سیاسی جنگ لڑنا نہایت افسوسناک ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نازک صورت حال میں ہم سب کا فرض ہے کہ محتاط رویہ اختیار کریں اور الفاظ کا چناؤ ایسا ہونا چاہئے کہ کسی دوسرے کی دل آزادی نہ ہو۔
خیبرپختونخوا میں امور صحت دن بدن دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں، حکومتی نمائندوں اور ڈاکٹروں کے مابین ہونے والے مذاکرات بھی کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، ہزاروں مریضوں اور ان کے لواحقین کو سخت پریشانی کا سامنا ہے، پولیو کے بعد ڈینگی کی صورت حال قابو سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور تازہ ترین اطلاع یہ آئی ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں 24گھنٹے میں ڈینگی کے مزید8کیسزرپورٹ ہوئے جس سے صوبے میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد 6 ہزار 670 جبکہ صرف پشاورمیں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد 2ہزار552 ہوگئی ہے۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث ڈینگی کا معاملہ خطرناک حدوں کو چھونے لگا ہے اور اموات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عجب معاملہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں یا پیرامیڈکس کے ساتھ ٹھوس انداز میں معاملات طے نہیں کئے جا رہے اور طویل عرصے سے جاری ہڑتال ختم کرانے کے لئے کوئی واضح حکمت عملی بھی نہیں اپنائی گئی جس وجہ سے حالات بہتر نہیں ہو پا رہے، وزیر اعلیٰ محمود خان کو امور صحت کے حوالے سے خود میدان میں آنا ہوگا اور وہ ذاتی دلچسپی لے کر مریضوں اور ان کے لواحقین کو مناسب طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے کوئی راہ نکالیں۔