سیاسی فتوے بازی
میں گھر میں داخل ہوا تو بیگم بھاگتے ہوئے کمرے میں گھس گئی مجھے عجیب لگا کیونکہ پہلے تو میرے آنے پر وہ ہمیشہ جی بسم اللہ کہا کرتی تھی، مگر آج یہ کیا چکر ہے۔……میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ میری دونوں چھوٹی بچیاں بھاگتی ہوئی آئیں اور میری ثانگوں سے لپٹ کے رونے لگیں۔بیگم کے بھاگ کر کمرے میں گھسنے اور بچیوں کا یوں ثانگوں سے لپٹ کے رونا میرے لیے حیران کن واقعہ تھا مگر مزید حیرانی اس وقت ہوئی جب اماں نے کپڑے دھونے والا ڈنڈا گھماتے ہوئے حکم دیا خبردار جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا تم جیسے شخص کے لئے اس گھر میں اب کوئی گنجائش نہیں ہے دفعہ ہو میری نظروں سے۔ لفظ خرناس سرائیکی میں گدھے اور شیطان کیلے استعمال ہوتا ہے سو اماں مجھے شیطان اور گدھے کے لقب سے نواز رہی تھیں مگر مجھے ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ یہ القابات مجھے کس وجہ سے مل رہے ہیں اب ابا کی باری تھی جو پہلے تو میری شکل نہ دیکھنے کی قسم کھائے بیٹھے تھے مگر اب عقل دلانے کے لئے میرے سر پر کھڑے تھے۔
گناہ پوچھنے پر بتایا کہ تم نے گزشتہ رات شیر افگن کے جلسے میں مولانا عبدالستار خان نیازی کے خلاف نظم پڑھی تھی اور جواباً فلاں مولانا نے فتویٰ دیا تھا جسے ہزاروں لوگوں نے سنا تھا کہ شیر افگن اور افضل عاجز جلسوں میں کھلے عام مولانا نیازی کے خلاف تقریریں اور نظمیں پڑھتے ہیں سو ازروئے شریعت ایک مولانا کے خلاف باتیں کرنے کی وجہ سے دونوں یعنی شیر افگن اور افضل عاجز کی بیویوں کو طلاق ہوگئی ہے سو شیرافگن کو ووٹ تو کیا ان کے ساتھ میل جول بھی حرام ہے یہ سننے کے بعد مجھے ساری بات کی سمجھ آگئی، مگر گھر والے ایک مولانا کے فتوے کے مقابلے میں میری بات سننے پر آمادہ نہ ہوئے سو میں خاموشی سے گھر سے باہر نکل گیا یہ بیانیہ یا فتویٰ ھزاروں کے مجمعے میں دیا گیا تھا سو گھر گھر یہ بات پھیل گئی اس دوران ایک شخص نے مسجد میں بیٹھے مولانا کو جا پکڑا اور سوال کیا کہ مولانا یہ جو آپ کے سٹیج سے فلاں فلاں کے نام فتویٰ دیا گیا ہے کیا یہ درست ہے...؟
مولانا کا اللہ بھلا کرے انہوں نے سوال پوچھنے والے بندے کو ڈانٹتے ہوے کہا کم بخت انسان جو باتیں سیاسی سٹیج پر کی جاتی ہیں ان باتوں کو مسجد میں نہیں کیا جاتا جاؤ بھاگ جاؤ یہاں سے، سو مولانا کے اس بیان کے بعد لوگوں کو سمجھ آ گئی کہ طلاق والا بیان سیاسی تھا اس کی مذہبی حیثیت نہیں ہے اور اس طرح طلاق کا حکم لاگو نہیں ہوتا یہ واقعہ یہاں سنانے کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فتویٰ بازی چل رہی، پورا منہ کھول کھول کے ایک دوسرے کو بھارتی ایجنٹ ثابت کیا جارہا ہے لاہور کی سڑکوں پر تو ایک کاروباری سیاست دان نے بھارتی وزیراعظم کی تصویر کے نیچے ایاز صادق کی تصویر لگے پوسٹر لگا دیے ہیں انڈین نیوز چینل ان پوسٹرز کو بنیاد بنا کر تبصرے کر رہا ہے کہ پاکستان میں سڑکوں اور چوراہوں پر مودی کی تصویریں لگ چکی ہیں جو وہاں ان کی مقبولیت کا کھلا ثبوت ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس کاروباری سرکاری سیاستدان کو یہ مشورہ کس نے دیا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ایاز صادق نے ایک بار نہیں دوبار اس کاروباری سیاستدان کے لیڈر اور ایک بار اس کاروباری سیاستدان کو شکست دی ہے باوجود اس کے کہ مبینہ طور پر اس سیاستدان نے ایاز صادق کے مقابلے میں الیکشن جیتنے کے لئے تقریباً ایک ارب سے زائد رقم خرچ کی،مگر شکست سے نہ بچ سکے سو ایاز صادق کے خلاف ان کی طرف سے پوسٹر بازی کی وجہ سیاسی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بھی ہے، کیونکہ موصوف وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے لئے پر اعتماد تھے اور ان کا خیال تھا کہ عمران خان کے نزدیک مالی اور انتظامی سطح کے لئے مجھ سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے سو انہوں نے خود کو وزیراعلیٰ پنجاب سمجھنا شروع کردیا، مگر عمران خان نے عثمان بزدار کے سر پر ہاتھ رکھ کے ان کے سر پر پنجاب کی پگ باندھنے سے انکار کردیا، مگر یہ اب بھی پنجاب کی پگ باندھنے کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ عثمان بزدار وزیر اعظم کی انا ہی نہیں روحانیت کا بھی مرکز ہیں اور انہیں اپنی جگہ سے ھلانے کا مطلب پوری حکومت کو گرانا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم جو ہر مسئلے پر یوٹرن لیتے ہیں عثمان بزدار کے معاملے میں اپنے اقتدار کے آخری دن تک یو ٹرن نہیں لیں گے اور وسیم اکرم پلس کے سر پر ہاتھ رکھے رہیں گے۔
چلیے عثمان بزدار کا ہونا یا نہ ہونا تو ایک جیسا ہے مگر قومی سطح پر یہ جو غدار غدار کا کھیل کھیلا جارہا ہے یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس سے لگتا ہے کہ ملک میں غداروں کے سوا کچھ باقی نہیں بچا یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے اور اس صورت حال کی ذمہ دار حکومت ہے، کیونکہ حکومت ایک خاص انداز میں اپنے حوالے سے ہونے والی تنقید کو بھی ریاست کی طرف پلٹ دیتی ہے یوں وہ اپنے گناہوں کا بوجھ ریاست پہ ڈال کر ریاست اور فرد کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی عملی کوشش کر رہی ہے آپ ایاز صادق کے بیان کو ہی لے لیجئے حکومت کے ترجمان وزیر مشیر ایاز صادق کو غدار قرار دے رہے ہیں پوسٹر لگا رہے مقدمات درج کر رہے گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں، مگر ایک وفاقی وزیر فواد چوہدری اپنے گھس کر مارنے والے بیان کی تردید کے ساتھ ساتھ انڈین چینل کو بتا رہے ہیں کہ نہ تو انہوں نے گھس کر مارنے والی بات پلوامہ حملے کے حوالے سے کی ہے اور نہ ایاز صادق کا بیان کسی جرنیل یا آرمی چیف کے خلاف ہے ایاز صادق نے سیاسی بیان دیا ہے جو وزیر خارجہ اور حکومت کے خلاف ہے اور وہ انڈین پائلٹ ابھی نندن کی رہائی کے حوالے سے ہے اور ایاز صادق اپنی فوج کے خلاف ایسی بات کر ہی نہیں سکتے فواد چوہدری کے اس بیانیہ کے بعد تو حکومتی سطح پر ایاز صادق کی سیاسی کردار کشی نہیں ہونی چاہئے تھی،
مگر چونکہ حکومت دانستہ حکومت مخالف بیانیہ کو ریاست مخالف بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہی اور ملک کے حالات بدامنی بیروزگاری مہنگائی اور دیگر مسائل کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے جاتے ہیں حکومت ان سوالات کو ریاست مخالف بیانیہ بنا کر پیش کرتی ہے جس ریاست دن بدن کمزور ہو رہی ہے سو ان حالات میں ریاستی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کا نوٹس لیں کہ آخر حکومت اپنی کمزوریوں اور نالائقوں کا ملبہ ریاست پر کیوں ڈال رہی ہے ریاست کے ذمہ داران کو جان لینا چاہئے کہ اس ملک کے عوام اپنے ریاستی اداروں کے تابع فرمان رہنا چاہتے ہیں، یعنی یہ سیاست دان چاہتے ہیں کہ ریاست اور حکومت کے درمیان قومی معاملات پر اتفاق ہو، مگر کسی شخص کی نالائقیوں کا بوجھ ریاست اپنے کندھوں پر نہ اٹھائے سو ملک کی سلامتی اور استحکام کے لئے ضروری ہے کہ فتویٰ فروشوں اور زبان درازوں کے ساتھ ساتھ پوسٹر بازوں پر بھی نظر رکھے جو اپنے سیاسی مفادات کے لئے لاہور میں جگہ جگہ مودی کے پوسٹر لگا کے اس پاک سرزمین کو ناپاک کر رہے ہیں میرے خیال میں یہ وقت غدار غدار کھیلنے کا نہیں وطن پرستوں کی حوصلہ افزائی کا ہے۔