پلٹ پلٹ پلٹ...تیرا دھیان کدھرہے

پلٹ پلٹ پلٹ...تیرا دھیان کدھرہے
پلٹ پلٹ پلٹ...تیرا دھیان کدھرہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امریکی انتخابات کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ ہار اور نواز شریف کے بیانئے نے ہفتہ رفتہ کو قابو کئے رکھا۔ نواز شریف کا بیانیہ تو اس حد تک زیر بحث رہا، لگتا ہے کہ ہمارے تجزیہ کاروں کو اس بیانیہ سے چڑ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی اثر دکھانے سے پیشتر بحث کر کر کے اس بیانیہ کا زہر نکال دیں، جس طرح کبھی اداکار حمزہ عباسی نے ریحام خان کی کتاب کے آنے سے پیشترہی  ہر ٹی وی چینل پر جا کر ریحام خان کے بارے میں اس قدر پراپیگنڈہ کیا تھا کہ لوگوں کو وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں ریحام خان کی کتاب سے زیادہ خود ریحام میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور بات آئی گئی ہوگئی تھی۔
نواز شریف کے بیانیہ کا اس قدر قضیہ ہے کہ اس کے سامنے پوری پی ڈی ایم اور ساری پیپلز پارٹی بے وقعت ہو چکے ہیں۔ ہمارے تجزیہ کار پی ڈی ایم کے جلسوں اور لانگ مارچ سے اس قدر خوفزدہ ہیں اور نہ پیپلز پارٹی کے متوقع استعفوں کی اس قدر فکر انہیں لاحق ہے، جس قدر مسئلہ انہیں نواز شریف کے بیانیہ سے ہے، حتیٰ کہ بیچارے ایاز صادق وضاحت کرکر تھک گئے کہ ان کا روئے سخن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف تھا، مگر یاران تیز گام نے اپنی تمام تر توانائیاں یہ ثابت کرنے میں لگادیں کہ ان کی مراددراصل کیا تھی گویا کہنے والے سے زیادہ سننے والے کی بات کو ترجیح دینی چاہیے۔ 


یہی نہیں،بلکہ مسلم لیگ(ن) کے حصوں بخروں میں تقسیم ہونے کی اس قدر فکر خود مسلم لیگ(ن) کو نہیں جس قدر اس کے ناقدین کو بے چینی ہے، کوئی بھی بات کرلیں، کہیں کا بھی قصہ چھیڑ لیں، احباب خوش گفتار کی تان مسلم لیگ(ن) کو تاش کے پتوں کی طرح ہوا میں بکھرتا دکھا کر ہی دم لیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلم لیگ(ن) کی مقبولیت کو بٹہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور عوام میں کنفیوژن کو ہوا دینے کی دھن سرمستوں کے سر پر سوار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یاران تیز گام اس کوشش میں کس قدر کامیاب ہوتے ہیں، کیونکہ مسلم لیگ(ن) اور اس کی قیادت بظاہر تو یہی ظاہر کرتی ہے کہ وہ کشتیاں جلا کر اس بیانیہ کی جنگ میں کودی ہے،وہ پورے دھج کے ساتھ مقتل میں جانے کے لئے تیار ہے اور وہ بھی جان کی پروا کئے بغیر!.....مگر دوسری جانب واقفان حال کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی بے خودی بے سبب نہیں ہے، انہیں اپنے بیانیہ کی حدودوقیود کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ اداروں کی بجائے کرداروں پر بات کرکے عوام کی توجہ حاصل کئے ہوئے ہیں۔سیاست نام ہی ”کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانے“کا ہے، اس لئے ان سے کیا گلہ، بس اللہ کرے کہ تمام معاملات خیر اسلوبی سے پایہء تکمیل کو پہنچیں۔ 


اب آئیے ذرا امریکی انتخابات کی جانب جہاں پر ووٹنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نے ثابت کردیا ہے کہ امریکی اور پاکستان معاشرے میں کچھ فرق نہیں رہ گیا۔ وہاں پر بھی لوگ ووٹ ڈالنے کے بعد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آرہے ہیں …… بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران امریکہ میں اسلحے کی ریکارڈ سیل ہوئی ہے اور اب بڑے بڑے شاپنگ سٹوروں کے مرکزی دروازوں کو لکڑی کے تختوں سے سیل بند کردیا گیا ہے تاکہ بلووں کے نتیجے میں ہونے والی اس لوٹ مار سے بچا جا سکے جو ایک افریقی نوجوان کی امریکی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد پیدا ہوگئی تھی اور احتجاج کرنے والوں نے احتجاج کے دوران خوب لوٹ مار کی تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ 2020ء کے انتخابات کے نتائج امریکہ کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ سنیئر بش کا نیو ورلڈ آرڈر لٹنے کے قریب ہے اور تماش بین تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ 


ٹرمپ کو غیر روائتی سیاستدان کہا جاتا ہے اور وہ کام بھی غیر روائتی ہی کر رہا ہے۔ ایک ٹرمپ ہی کیا، خود ہمارے ہاں بھی وزیر اعظم عمران خان کا اپنے بارے میں بھی یہی خیال ہے کہ وہ بھی ٹرمپ کی طرح ایک غیر روائتی سیاستدان ہیں۔ لوگ ان کے تبدیلی کے نعرے سے متاثر ہوئے تھے، مگر وہ نعرہ جس طرح شرمندہ تعبیر ہوا ہے، اس سے لوگ فاقوں پر آگئے ہیں، کیونکہ ان کی جیبوں پر پڑے پیسے مٹی ہو چکے ہیں، جس سے کچھ بھی کام کی شے نہیں خریدی جا سکتی ہے……امریکی انتخابات اور پاکستانی سیاست سے ایک مشترکہ نتیجہ یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں اور یہاں کے الیکٹرانک میڈیا کے آؤٹ لیٹ خودمختار نہیں ہیں، بلکہ بری طرح اپنی اپنی اسٹیبلشمنٹوں کے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔  دونوں جگہوں پر پرائیویٹ ٹی وی چینلز ایک مخصوص انداز میں اپنی اپنی اسٹیبلشمنٹوں کے ایجنڈے کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور ایک خاص وقت میں ایک خاص طرح کا ماحول بنا کر عوام کو پراپیگنڈے کی رو میں بہالے جاتے ہیں۔  پتہ تب چلتا ہے…… جب مصیبت عوام کے سروں پر سوار ہو چکی ہوتی ہے۔ دیکھئے وہ نوبت کب آتی ہے کہ لوگ ان کے پراپیگنڈوں سے تنگ آکر اپنے اپنے ٹی وی سیٹ کھڑکیوں سے باہر پھینک کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -