امریکہ کا صدارتی الیکشن اور اس کے اثرات!

امریکہ کا صدارتی الیکشن اور اس کے اثرات!
امریکہ کا صدارتی الیکشن اور اس کے اثرات!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اپنے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ امریکہ میں بھی وہی کچھ ہونے لگا جو پاکستان میں ہوتا ہے، نہ جانے ہم لوگ امریکی صدر (موجودہ) ٹرمپ کو کس کس کے ساتھ تشبیہ دیتے رہے ہیں، لیکن وہ تو کچھ اور ہی نکلے، اب ہم تو یہ نہیں کہتے لیکن ایک ”انصافیئے“ نے صبح ہی صبح کہہ دیا کہ ٹرمپ بھی مولانا فضل الرحمن بن گئے اور ”میں نہ مانوں“ کی گردان شروع کر دی، حالانکہ وہ واضح طور پر چِِت ہو گئے اور جوبائیڈن فاتح ہیں، لیکن وہ ماننے کو تیار نہیں اور عدالتوں کا رخ کر لیا ہے۔ ٹرمپ نے جو رویہ اختیار کیا، ان کی نسبت متوقع صدر جوبائیڈن اب سنجیدہ ہو گئے کہ ان کو حلف لینا ہے، وہ ابھی سے اپنے انتخابی مزاج میں تبدیلی لے آئے ہیں، حالانکہ انتخابی معرکہ میں وہ بھی ٹرمپ کے ساتھ دوبدو تھے اور اس الیکشن میں تو گرما گرمی تحریک انصاف اور پی ڈی ایم والی تھی، دونوں ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے کرتے رہے، تاہم غداری کے الزام سے گریز ہی کیا، حالانکہ روس اور چین کی چمچہ گیری کے طعنے دیئے گئے، اب صورت حال میں تبدیلی کے ساتھ ہی جوبائیڈن کے رویے میں تبدیلی آ گئی ہے۔


امریکی نظام میں بھی خامیاں ہوں گی، ہم تو نہیں جانتے۔ماہرین کو اپنی رائے دینا چاہیے کہ وہاں یہ صدارتی انتخاب بظاہر براہ راست عوامی ووٹوں کا مرہون منت ہے لیکن پیچیدگی کا بھی حامل ہے کہ دہرا سلسلہ ہوتا ہے اور فیصلہ ریاستی الیکٹرورل ووٹوں کی بناء پر کیا جاتا ہے اور یہ سیدھا سادا بالواسطہ نظر آتا ہے، اگرچہ اسے براہ راست ہی کہا گیا ہے، بہرحال ہمیں ایک بات اچھی لگی کہ 4نومبر کو ہونے والی رائے شماری کے نتیجے میں جو بھی منتخب ہو، اس کی حلف برداری 20جنوری کو ہوتی ہے۔ یوں اس میں ڈھائی ماہ ہوتے ہیں، اس دوران تنازعات اور اعتراضات کا بھی فیصلہ ہو جاتا ہے، جیسے بش جونیئر کی مرتبہ ہوا، اس لئے جو بھی عدالتی کارروائی ہونا ہے وہ اس عرصہ میں ہو جائے گی اور 20جنوری کو نومنتخب صدر وائٹ ہاؤس منتقل ہو جائیں گے، اس میں اب شک نہیں کہ یہ جوبائیڈن ہوں گے کہ ان کی اکثریت واضح ہو گئی ہے، تاہم ٹرمپ صاحب کی وجہ سے امریکی نظام میں ایک ایسی ہلچل تو ضرورہے، جس کا موازنہ پاکستان میں کیا جا سکتا ہے، امریکہ میں تو ہارنے والا امیدوار شکست تسلیم کرکے مبارک باد دیتا ہے، یہاں ٹرمپ صاحب الیکشن چوری ہونے کی بات کر رہے ہیں اور اس پر غور نہیں کرتے کہ انہوں نے اپنے زمانہ صدارت میں جو جو کیا وہ جمع بھی تو ہوتا رہا ہے ہم تو یہی کہیں گے کہ ٹرمپ کی شکست خود کردہ ہے کہ وہ صدر کی بجائے ”اچھا پہلوان، قلعہ گوجر سنگھ والا“ نظر آنے لگے تھے، بلکہ جن صاحب نے ان کو ہمارے سلطان راہی کے کردار سے مماثل قرار دیا، وہ شاید زیادہ قریب تھے۔


ہم تو اجمالی سا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ماہرین اپنی آراء سے پوری دنیا کو مستفید کریں گے۔ بہرحال ہمارے نزدیک تو ٹرمپ کو ”امریکن پولیس“ نے ہرایا ہے جو کالوں کو تاک تاک کر نشانہ بناتی اور امریکی صدر ٹرمپ کے نسلی تعصب کو مزید ہوا دیتی تھی۔ امریکی گوروں کے ہاتھوں کالوں کی اموات اور اس کے ردعمل نے رائے عامہ کو ان کے خلاف کر دیا تھا اور یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اسلاموفوبیا کا جو مظاہرہ کیا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر دنیاء اسلام کو جس قدر زچ کیا، اس سے امریکی مسلمان بھی بے زار ہو گئے تھے اور امریکی آزادیوں کے باعث وہ بھی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیئے گئے کہ ٹرمپ سے خیر کی کوئی امید نہیں، لہٰذا امریکی مسلمانوں نے بوجوہ ٹرمپ کے خلاف جوبائیڈن کی حمائت کی اور ان کو ووٹ بھی ڈالے کہ جوبائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران کھل کر نسلی تعصب کی مذمت کی اور مسلمانوں کو یقین دلایا تھا کہ ان کو تحفظ ملے گا، جوبائیڈن تقریبات میں اپنی پالیسی کا اعلان کسی لگی لپٹی کے بغیر کرتے رہے اور ٹرمپ کا کیا دھرا ان کے سامنے آ گیا۔

ہم نے گزشتہ روز عرض کیا تھا کہ اس معرکہ میں ٹرمپ کی شکست سے بھارتیوں اور اسرائیلیوں کو دھچکا لگے گا، پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا یقین کر لینا درست نہیں ہو گا کہ امریکہ کی دونوں جماعتوں کے درمیان خارجہ محاذ پر کچھ زیادہ اختلاف نہیں ہیں، صدر ٹرمپ نے چین، روس اور شمالی کوریا کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی وہ غنڈہ گردی نوعیت کی تھی، اس سے تمام حضرات متاثر ہوئے جو صلح کن اور امن کے داعی ہیں حاضر صدر ٹرمپ کی پالیسیاں بھی دوغلے پن ہی کا مظہر تھیں کہ ان کے دور میں دوستی ہمارے وزیراعظم عمران خان سے کی گئی اور کشمیر پر ثالثی کی پیش کش بھی ریکارڈ پر ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ مودی کے جپھے کے جواب میں خود بھی جپھا ہی ڈال لیا، حتیٰ کہ اب بھارت کے ساتھ فوجی نوعیت کا بھی معاہدہ کر لیا، اگرچہ جو کچھ ہو چکا اس میں تبدیلی نہ ہو،تاہم اب قدرے اعتدال کا مظاہرہ ضرور ہو گا کہ ڈیمو کریٹس جمہوریت کا دم بھرتے ہیں، ماضی میں ڈیموکریٹس کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا ہے، تاہم نئے حالات میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ بات اور برتاؤ میں قدرے اعتدال آ جائے، جہاں تک افغانستان کے حوالے سے پالیسی کا سوال ہے تو یہ اوباما سے شمار ہو گی کہ اوباما نے بطور صدر کافی کوشش کی، تاہم وہ ”ڈیپ سٹیٹ“ کے دباؤ کی وجہ سے افواج کی تعداد نہ گھٹا سکے جو ٹرمپ نے کم کر دی تھی، ان کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ افغانستان کے لئے امن مذاکرات ہوئے۔ اگر اوباما کے دور صدارت کے حوالے سے ”اوباما وارز“ پڑھ لی جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ٹرمپ نے ان طاقتور حضرات کی رائے کے علی الرغم افغانستان میں امن اور افواج کی واپسی کی کوشش اور فیصلہ کیا، جوبائیڈن ”امن“ کے حوالے سے تو یوٹرن نہیں لے سکیں گے لیکن افواج کی مکمل واپسی سے گریز ہی کیا جائے گا۔
امریکہ میں فیصلہ ہو لینے دیجئے اور اس حوالے سے ماہرین کی رائے سے مستفید ہوں کہ کیا ہو رہا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -