ایک پیج پر 

ایک پیج پر 
ایک پیج پر 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک پیج پر کتاب کے حوالے سے لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ اسلم لودھی صاحب نے روزنامہ ”پاکستان“ کے ایڈیٹوریل ایڈیٹر قدرت اللہ چودھری کے انتقال کی خبر دی۔روزنامہ ”پاکستان“ دیکھا تو اس خبر کی جس طرح کوریج کی گئی اس سے قدرت اللہ چودھری کے لئے ادارے کی طرف سے انتہائی احترام جھلکتاہے۔ لیڈ سے بھی اوپرسپر لیڈ کے طور پر ان کے انتقال کی خبر اور بڑی تصویر لگائی گئی ہے۔شامی اینڈ شامی اس پر ستائش کے سزاوار ہیں۔اب دوسرے موضوع کی طرف آتے ہیں۔


پاکستان میں جب بھی ایک پیج پر ہونے کی بات کی جاتی ہے تو عموماً حکومت اور پاک فوج مجسم متصور ہوتی ہے۔پاک فوج حکومت کے ماتحت ادارہ ہے دیگر بہت سے اداروں کی طرح مگر ان اداروں کے حوالے سے کبھی حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی بات نہیں کی گئی۔ویسے ایک پیج کی بات کی جائے تو پاکستان کو نقصان پہنچانے اور بدنام کرنے میں بھارتی حکومت، سیاستدان اور میڈیا ہمیشہ نہ صرف ایک پیج پر رہتے ہیں،بلکہ انتہا پسندوں کے ہاں سرخرو ہونے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں بھی سرگرداں رہتے ہیں۔ غیرجانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو چند ایک کے سوا پاکستان کے حوالے سے ہر ہندو انتہا پسند نظر آتا ہے۔ ان کو تو کھیل میں بھی پاکستان کی جیت برداشت نہیں۔ پاکستان نے  دبئی میں ٹی 20 میچ کیا جیت لیا، پورے ہندوستان میں آگ لگ گئی۔ اگلا میچ پاکستان کے ”نمک حلالوں“ افغانستان ٹیم نے بنئے کے نام کردیا۔
آیئے چند سال پیچھے چلتے ہیں۔یہ جنوری 2013ء کا مہینہ ہے۔پی پی حکومت میں ن لیگ اپوزیشن میں تھی۔بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے لئے پی پی بے تاب تھی اور ن لیگ اس کی ہمنوا تھی۔ان دنوں کی ایک مختصر تحریر ملاحظہ کیجئے بھارت کے حوالے سے اگر کوئی طبقہ ایک پیج پر ہے تو وہ ہمارے حکمران ہیں جن کو بڑی اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ(ن) کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ طبقہ بھارت کے ساتھ تعلقات، دوستی اور تجارت میں مزید فروغ کے لئے کمربستہ ہے۔ان کو بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے یا جواب دینے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ بھارت پاکستانی فوجیوں کی لاشیں گر ا رہا ہے، پاکستان پر بھونڈے،بے بنیاد اور لغو الزامات لگا کر دھمکا رہا ہے، یہ بھارت کو پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دینے  کے لئے بے قرار ہیں“۔ہماری بات شروع ہوئی تھی حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے کی، پاکستان میں کئی گروہ اور گروپ پاک فوج کے خلاف ایک پیج پر ہیں،جن کے منحوس بیانئے سامنے آتے رہتے ہیں۔


فوج دیگر اداروں کی طرح حکومت کے ماتحت ایک ادارہ ہے۔ایک پیج پر ہونے کی جب بات کی جاتی ہے تو پھرماتحتی نہیں رہتی برابری کا تأثر پیدا ہوتا ہے اور یہ تأثر ہی نہیں ایک حقیقت بھی ہے۔ پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل مسروی تھے۔ وہ جب تک آرمی چیف رہے فوج حکومت کے ماتحت رہی۔وہ گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو جوابدہ تھے۔کشمیر میں جو کچھ ہورہاتھا اس نے ساری صورت حال سے قائداعظم کو آگاہ رکھا۔فیلڈ مارشل ایکنلک کو علم ہوا تو وہ آگ بگولا ہوا اور مسروی کی  جگہ ڈگلس گریسی کو فوجی سربراہ بنادیا۔جو پاکستان بھارت افواج کے مشترکہ کمانڈر سے ہدایات لیتا اور قائد اعظم کے احکامات کوکبھی کبھی نظر انداز بھی کردیتا تھا۔اصول اور قانون کے مطابق تو آرمی چیف کو اسی طرح حکومت کے احکامات کا پابند ہونا چاہئے،جس کی مثال جنرل مسروی نے قائم کی تھی،مگر ہمارے ہاں کئی فوجی سربراہوں کے رویے جنرل گریسی جیسے،بلکہ اس سے بھی بھیانک رہے۔اس میں صرف فوج کو قصور وار قرار نہیں دیا جا سکتا اس میں کسی دور میں پردہ نشیں رہنے والوں کے بھی نام آتے ہیں جو اب بے پردہ ہو چکے ہیں۔ قائداعظم نے ایک جنرل کو سختی سے خاموش کرادیا تھا جب اس نے فوج کے حکومت میں حصے کی بات کی تھی۔ہر حکمران کا رویہ ایسا ہی ہوتا تو شاید جرنیل اپنے آپ میں رہتے۔یہ ایک سہانا خیال ہی ہے۔ فوج اپنے آپ میں تب رہتی جب پاکستان میں سیاستدان قائداعظم جیسے ہوتے۔یہاں کس کس قماش کے لوگ اقتدار میں آئے،انہوں نے جو کچھ کیا اس کا کسی نے تو نوٹس لینا تھا۔اس کے لئے بہترین فورم عدلیہ ہے،اسے اپنے ساتھ ملانے کے لئے ترغیبات اور ڈنڈے بھی استعمال ہوتے رہے۔یوں کئی معاملات میں فوج کو مداخلت کرنا پڑی۔جس سے کئی سیاست دان تو بڑے شاداں اور کئی نالاں بھی رہے یہ فوج کے خلاف یاوہ گوئی میں آخری حدوں تک بھی چلے گئے۔ زرداری کم نواز شریف تو بہت زیادہ اپنے اپنے دورِ حکمرانی میں فوج کو آنکھیں دکھاتے رہے خاص کر تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد۔ڈان لیکس سامنے لائی گئیں اور بھی بہت کچھ۔


پاکستان میں تین مارشل لاء لگے ان میں سے ایک بھی ناگزیر نہیں تھا۔مشرف والے مارشل لاء سے بچا جاسکتا تھا، مگر نوازشریف نے کہہ دیا آبیل مجھے مار۔اس سے قبل نواز شریف فوج کی آنکھ کا تارہ اور ان کے لئے پاک فوج مائی باپ تھی اس کے بعدوہ شمعیں بجھ گئیں، جن سے نوازشریف کی سیاست چمکتی تھی اور دمکتی تھی۔پاک فوج اب پاکستان میں طاقت کی علامت ہے،وہ ماتحت ادارے سے حکومت کے مقابل ایک قوت بن چکی ہے۔اگر حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں ہوں گے  تو وہی کچھ ہوتا رہے گا،جس سے دشمن شادیانے بجاتے ہیں۔دشمن کبھی پاکستان کے مفاد پر شہنائی اور شادیانے نہیں بجاتا۔حقائق کے پیش ِ نظر آج حکومت اور فوج کا ایک پیج پر ہونا ناگزیر ہے۔یہ ناگزیریت چونکہ پوری ہورہی ہے تو اس پر سب سے زیادہ مطمئن جناب اسداللہ غالب صاحب ہیں۔آپ نے  اس حوالے سے565صفحات کی ضخیم اوربہترین کتاب لکھی ہے۔کتاب کا انتساب ہے۔”سول ملٹری اشتراک کار کے نئے جذبے کے نام“۔انتساب سے واضح ہوجاتا ہے کہ غالب صاحب پاکستان کی سلامتی خود مختاری سالمیت ترقی و خوشحالی اور جمہوریت کی بقا کے لئے فوج اور حکومت کے مابین ہم آہنگی کے خواہشمند ہیں۔ کتاب کے شروع میں 24خوبصورت رنگین تصاویر دی ہیں۔غالب صاحب خوبصورت دِل اور طبیعت کے مالک ہیں،پوری کی پوری کتاب خصوصی طور پر اس کا ٹائٹل بھی اسی طرح خوبصورت ہے۔


کتاب میں تین سال کے ملٹری حکومت اشتراک کا جائزہ لیا گیا ہے۔پیش لفظ سے ایک اقتباس یہاں پیش کرتا ہوں،جس سے اندازہ ہو سکے گا کہ غالب صاحب اس اشتراک کو کس طرح دیکھتے ہیں اور کون سے طبقے درد میں مبتلا ہیں۔”یہ سن سن کر لوگوں کے کان پک گئے ہیں کہ پاکستانی فوج کسی حکومت کو نہیں چلنے دیتی،مگر آج جب فوج برملا کہہ رہی ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ ہے اور حکومت بھی مان رہی ہے کہ وہ فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور دونوں ادارے ایک پیج پر ہیں پھر بلیم گیم کے شوقین طبقوں کی طرف سے یہ کیوں کہا جارہا ہے کہ حکومت سلیکٹڈ ہے اور اس کی تاریں کہیں اور سے ہلائی جارہی ہیں۔یہ طعنہ دینے والوں کا کیا یہ مقصد ہے کہ فوج اور حکومت میں وہی دوری پیدا ہوجائے،جو ہمیشہ دیکھنے کو ملتی رہی ہے، جس سے ملک سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔“


ایک پیج پر کتاب میں دیگر موضوعات  بھی زیر بحث لائے گئے ہیں۔ان میں عمران خان کے بارے میں چند یادیں،کرتار پور کی دیوار برلن گر گئی، پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا، دلچسپی کا پورا سامان لئے ہوئے۔کتاب الفیصل  غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور نے شائع جس کی قیمت پندرہ سو روپے رکھی گئی ہے۔یہ کتاب سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے نہایت سودمند ثابت ہوسکتی اور ہر لائبریری کی ضرورت ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -