مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:76
عدلیہ کی آزادی، جمہوریت کا تقاضا
عدلیہ کی آزادی…… ہمارے ملک میں ہر ایک کا پسندیدہ موضوع ہے۔ تقریر کرنے والا بڑے بلند بانگ نعروں سے عدلیہ کی آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ عدلیہ کی آزادی کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ جس کا بظاہر مطلب یہی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہت لائق اچھی شہرت کے افراد کو جج متعین کیا جائے اور پھر انہیں آزادی سے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے دیں۔ حکومت کا مؤقف غلط ہو تو حکومت اسے تسلیم کرے اور عدالتی فیصلہ کو قبول کرے جیسا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں، میں نے مسلم لیگ (ن) کے عہدہ داروں کو بری کر دیا تو حکومت نے فوری طور پر ان سب کو رہا کر دیا اور عدالت کا فیصلہ تسلیم کیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ فیصلہ بالکل درست اور آئین میں دی گئی شہری اور سیاسی آزادیوں اور بنیادی حقوق کے مطابق دیا تھا۔ اُس وقت کی حکومت کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ اس نے اس فیصلہ کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے بعد میری کنفرمیشن بھی کی…… حالانکہ عام لوگوں اور دوستوں کا خیال تھا چونکہ میری تقرری مسلم لیگ کے دور حکومت میں ہوئی اور اس فیصلہ کے بعد اب کنفرمیشن مشکل سے ہو گی۔ ہم نے بھی معاملہ ذات باری تعالیٰ کے حوالے کر دیا تھا۔
اس اطمینان قلب کی اصل وجہ یہ تھی کہ میں آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والا انسان ہوں۔ دوسرا یہ کہ یہ کام کرتے ہوئے میں نے انصاف کے تقاضوں اور شہری و بنیادی حقوق کا خیال رکھا۔ نیت میں کوئی کھوٹ نہیں تھا۔ تیسرا یہ کہ میرا خدا پر مکمل بھروسہ ہے۔ میرے اللہ نے ہر مشکل موقع پر اور آزمائش میں میری رہنمائی اور معاونت کی ہے۔ اس لئے اپنے اللہ کے سوا مجھے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس فیصلہ کے علاوہ بھی میں نے ہمیشہ ایسے فیصلے کئے ہیں جن پر مجھے ناز ہے۔ہم جب آزاد عدلیہ کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات پر غور بھی کرنا ہو گا کہ جج یا عدلیہ کے پاس کوئی فوج نہیں ہوتی۔ اُن کے پاس کوئی انتظامی اختیارات بھی نہیں ہوتے کہ وہ کسی کو اُس کے منصب سے علیٰحدہ کر دیں ان کے پاس آئین اور قانون کا متعین کیا ہوا راستہ ہوتا ہے جس پر انہوں نے چلنا ہوتا ہے۔ کوئی عدالت جب تک آئین اور قانون کے راستے پر چلتی رہے کوئی اس عدالت کا راستہ نہیں روک سکتا۔ عدالت کے فیصلہ میں اگر کوئی خامی رہ جائے تو اس کی نشاندہی کر کے اپیل کی جا سکتی ہے۔ غلطی کرنے والی عدالت اپنی غلطی خود ہی نظر ثانی میں دور کر سکتی ہے۔
چونکہ عدلیہ کی ہر بات نیک نیتی پر مبنی ہوتی ہے اس لئے کوئی جج کے کردار پر انگلی نہیں اٹھا سکتا جبکہ پاکستان میں پہلے تو جج کی تقرری سیاسی اور ذاتی تعلقات پر یا سفارش پر ہوتی رہی ہے اور حکومت اپنی مرضی کا چیف جسٹس مقرر کروانے کی کوشش کرتی ہے اور اگر کوئی جج حکومت کے ایماء کے خلاف فیصلہ دے تو بذریعہ چیف جسٹس اس کا تبادلہ کسی دیگر بنچ میں لامحدود عرصہ کے لئے کر دیا جاتا ہے تاکہ اُسے ذہنی اذیت دی جائے اور وہ گھریلو پریشانیوں میں مبتلا ہو۔ یہاں پر میں پھر برطانیہ کی مثال دوں گا جہاں پر جج کو بلاتفریق دوسرے شہروں میں کام کرنا ہوتا ہے اور تمام روسٹر یا ٹائم ٹیبل جج کی رضامندی کے ساتھ طے کیا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد انگلش لاء پر ہے۔ جہاں اب کچھ عرصہ قبل سے پارلیمنٹ نے ایکٹ وغیرہ بنائے وگرنہ زیادہ تر کیس میں لاء پر ہی انحصار کیا جاتا تھا اور اگر جج فیصلہ دینے کے بعد یہ خیال کرے کہ فیصلہ میں اس نے اختیارات سے تجاوز کیا تھا وہ دوسرے فیصلہ میں اپنے فیصلہ سے اختلاف کر سکتا ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔