نوازشریف کے سوچنے کی بات
مَیں گورنمنٹ کالج لاہور میں اُردو پڑھاتا تھا۔غالباً 1964ءمیں تعطیلاتِ گرما کے بعد جب کالج کھلا اور مَیں ماہ ستمبر میں اپنی کلاس کے کمرہ 29 میں پڑھانے کے لئے پہنچا تو اس کلاس میں سب سے نمایاں طالب علم ایک گورا چٹا لڑکا تھا،جس نے اپنا نام بتایا سر! میرا نام محمد نوازشریف ہے....دوچار روز کے بعد ہی مَیں نے محسوس کیا کہ اس طالب علم کی نمایاں خصوصیت اس کا مو¿ دّب ہونا ہے۔یہ ادب و احترام کا چلتا پھرتا منہ بولتا ثبوت نظر آتا تھا۔ کلاس میں بیٹھے ہوئے اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رہتی جو مجھے ڈسٹرب کرتی تھی۔آخر مَیں نے اس سے پوچھا عزیزم! یہ تمہارے چہرے پر مسکراہٹ کیسی ہے؟اس کے جواب میں واحد متکلم میں بولنے کے بجائے اس برخوردار نے کہا سر! یہ ہمارے چہرے پر قدرتی مسکراہٹ ہے۔مَیں نے کہا عزیزم میرے چہرے کے بجائے ہمارے چہرے پر اس طرح کہہ رہے ہو،جیسے کوئی وزیراعظم بول رہا ہے۔یہ بات مجھے خود عزیزم نوازشریف نے بتائی، جب وہ وزیراعظم بنے کہ سر !آپ نے تو مجھے اپنی کلاس ہی میں وزیراعظم بنا دیا تھا۔
نوازشریف سے میرے تعلقات کلاس تک ہی نہ رہے، وہ اکثر مجھے جب بھی کہیں ملتے ،بڑے ادب و احترام کے ساتھ ملتے۔مجھے اپنی زرعی زمین کو پانی دینے کے لئے ایک انجن درکار تھا۔مَیں وہ انجن لینے کے لئے جب ریلوے روڈ لاہور نوازشریف کے دفتر پہنچا تو وہ وہاں مجھے عجب انداز سے ملے۔مَیں ان کے کمرے میں جانے لگا تو دربان نے کہا: سر!آپ اپنے نام کی چٹ دیجئے۔مَیں وہ اندر لے جاﺅں گا ، اگر صاحب نے ملنا چاہا تو پھر وہ آپ سے ملاقات فرمائیں گے۔مَیں نے اپنے نام کی چٹ دی، یوں نوازشریف سے ملاقات ہوئی۔مجھے اس وقت بھی احساس ہوا کہ یہ برخوردار صرف کاروبار نہیں کرے گا، کچھ اور بھی بن سکتا ہے،لہٰذا یہی ہوا کہ جب غلام جیلانی گورنر پنجاب تھے تو انہوں نے نوازشریف کو وزیرخزانہ بنا دیا۔مَیں نے فون پر مبارکباد دی تو نوازشریف نے کہا: ”سر یوں تو مجھے کئی حضرات نے مبارکباد دی ہے، لیکن آپ کا مبارکباد دینا بالکل الگ نوعیت کا ہے۔اسی زمانے میں میرے بڑے بیٹے ڈاکٹر صفدر رضا کی شادی تھی، مَیں نے نوازشریف کو دعوت نامہ دیا، کہنے لگے :”سر مَیں شادی میں ضرور شرکت کروں گا “اور واقعی میرے بیٹے کی شادی میں وہ پوری طرح شریک ہوئے۔
پرویز مشرف کے دور میں جب نوازشریف کراچی میں قید تھے تو میرے دوست رائے منصب علی خان ان سے ملے۔انہوں نے کہا کہ ”رائے صاحب میرے استاد سید مشکور حسین یاد صاحب آپ کے دوست ہیں، لیکن وہ بہت نیک انسان ہیں، ان سے کہئے وہ میرے لئے دعا کریں کہ مَیں پاکستان سے دیارِ حبیب سعودی عرب پہنچ جاﺅں اور جب مَیں جدہ سرور محل میں نوازشریف سے ملا تو کہنے لگے:سر !یہ سب آپ کی دعاﺅں کا اثر ہے کہ آج مَیں یہاں موجود ہوں۔جب تک وہ جدہ میں رہے ،مَیں باقاعدہ نوازشریف سے ملتا رہا اور وہ باقاعدہ میرے لئے محفلیں برپا کرتے رہے۔ایک محفل میں ایک صاحب نے قصیدہ پڑھا کہ نوازشریف بہت خوش قسمت انسان ہیں کہ آج وہ دوباپوں کے درمیان بیٹھے ہیں۔ایک باپ وہ جن سے وہ پیدا ہوئے اور دوسرے باپ وہ ،جنہوں نے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔
ایک بار جدہ میں نوازشریف نے مجھ سے کہا: ” سر! جب مَیں وزیراعظم تھا،آپ مجھ سے ملنے نہیں آتے تھے،جس کی وجہ سے فضول اور مطلبی لوگوں نے مجھے گھیرے رکھا، اگر آپ ملتے تو مَیں اس طرح ان کے گھیرے میں نہ آتا، لیکن آج جبکہ ماشاءاللہ نوازشریف وزیراعظم ہیں، ان کا ملنا مجھ سے نہیں ہوتا۔میرا خیال ہے انہیں میرا خیال بھی نہیں آتا ہوگا۔مجھ جیسا خالص مخلص انسان ان کے قریب کیسے ہو سکتا ہے؟یہ میرے سوچنے کی بات نہیں، نوازشریف کے سوچنے کی بات ہے۔ ٭