جلدی کیجئے، بہت تاخیر ہو چکی ہے

جلدی کیجئے، بہت تاخیر ہو چکی ہے
جلدی کیجئے، بہت تاخیر ہو چکی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 کہاوت مشہور ہے کہ وقت اور سمندر کی لہر کسی کا انتظار نہیں کرتے ہیں اور کسی کو بخشتے بھی نہیں ہیں۔ دونوں بڑی ظالم چیزیں کہلاتی ہیں۔ وقت کھڑا کر دیتا ہے اور گرا بھی دیتا ہے۔ لہریں بہا کر لے جاتی ہیں اور ہر چیز کو سمندر کے پیٹ میں اتار دیتی ہیں۔ یہ مَیں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کو احساس دلایا جا سکے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ کل تک جس رسی کو انہوں نے بڑی مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اب تو وہ ہی رسی ان کے ہاتھ سے تیزی سے سرک رہی ہے جیسے اس میں کسی نے مکھن لگا دیا ہو جو ہاتھ میں ٹھہر ہی نہیں سکتی۔ معلوم نہیں کہ ان کے پاس کتنا وقت بچا ہے۔ بظاہر تو وہ پانچ سال کے لئے منتخب ہوئے ہیں، لیکن غیر یقینی حالات پر کس کا بس چلتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ میاں صاحب کو وفاق میں اقتدار نہایت خراب حالات میں ملا۔ معیشت ، امن و امان، بجلی، ایسے شعبے تھے جو فوری توجہ طلب تھے، لیکن ان کی ترجیحات جو ہونا چاہئے تھیں ان پر اس تیز رفتاری سے عمل نہیں کیا جاسکا کہ نتا ئج سامنے آپاتے۔ وزیراعظم کے مشیروں نے انہیں فوری اور جلدی نجکاری کے کام پر بھی لگا دیا، جس کی حالانکہ ابھی قطعی ضرورت نہیں تھی۔
مَیں بات کر رہا تھا وقت کی۔ میاں صاحب کو اقتدار پر فائز ہوتے ہی جو فیصلہ کرنا چاہئے تھا اور عمل در آمد کرنا چاہئے تھا وہ انتخابی معاملات ، الیکشن کمیشن، صاف اور شفاف انتخابات کے طریقہ کار پر بھی کوئی کام فوری شروع کر دینا چاہئے تھا۔ جب میاں صاحب یہ کہتے ہیں کہ انہیں علم نہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی تو پھر وہ بڑے معصوم نظر آتے ہیں۔ وہ تو ایک ملکی سطح کی سیاسی جماعت کی قیادت کر رہے ہیں انہیں یہ اندازہ کیوں نہ ہو سکا کہ 2013ءمیں پاکستان میں کرائے جانے والے انتخابات پاکستان میں ایک فرد ایک ووٹ پر کرائے جانے والے گزشتہ دس انتخابات کے مقابلے میں اپنے انتظامات اور شفافیت کے لحاظ سے بدترین انتخابات تھے۔ 11مئی 2013ءکو بی بی سی کے پروگرام سیربین میں رات آٹھ بجے ان انتخابات پر میں نے جو تبصرہ کیا تھا اس میں یہ جملہ بھی شامل تھا ” دن بھر جو کچھ ہوا، گزشتہ رات سے جو کچھ ہو رہا ہے، ان سے شفاف انتخابات کے جو چرچے چل رہے تھے بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ کسی قسم کا کوئی انتظام نہیں تھا۔
 پولنگ سٹاف جس بری طرح متاثر ہوا ہے ، اس سے توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ وہ آج کے دن پولنگ چلائے گا۔ بہت ساری جگہوں پر صورت حال خراب رہی۔ اور بنیادی بات یہ ہے کہ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنا کام کیا۔ یہ تھا شفاف انتخاب“۔ جس طرح کے انتخابات ہوئے سب کو ہی نظر آرہا تھا کہ عوام کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ ڈبے بھرو مہم تھی ۔ انتخابات کرانے کے ذمہ دار ان تمام اداروں نے لوگوں کے ساتھ مکروہ مذاق کیا۔ اس کے بعد یہ توقع کرنا کہ لوگ برداشت کریں گے اور خاموشی کے ساتھ منہ بند کرکے پانچ سال گزار دیں گے۔ میاں صاحب اور ان تمام سیاسی قائدین کی تاریخی ٰ خوش فہمی ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن ہو یا نادرا کے زبردستی نکالے گئے سربراہ طارق ملک ہوں یا بہت سارے ریٹرنگ افسران ہوں یا پریذائیڈنگ افسران، اب کھلے عام یہ کہتے پھرتے ہیں کہ انتخابات صاف تھے نہ شفاف تھے۔
الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنایا ہے کہ آئندہ انتخابات عدلیہ کے بجائے انتظامیہ کی مدد سے کرا ئے جائیں گے۔ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس انور ظہیر جمالی کی زیرصدارت الیکشن کمیشن کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آ ئندہ عام انتخابات عدلیہ کے بجائے انتظامیہ کی معاونت سے کرائے جائیں گے اور ریٹرننگ افسر اور ڈپٹی ریٹرنگ افسر کے لئے 1500 افسران کی خدمات انتظامیہ سے لی جائیں گی ۔ یہ فیصلہ انتہائی متنازعہ اور مہلک ثابت ہو گا۔اس ملک میں انتظامیہ کے افسران ہی تو اپنی جانبداری کی وجہ سے عوام کے لئے ایک مصیبت کا سبب بن گئے ہیں۔ عدلیہ کے افسران پر تو لوگ ابھی بھی اعتماد کرتے ہیں۔حکومت نے کئی محکموں میں کل وقتی سربراہوں کا تقرر نہیں کیا ہے اس میں الیکشن کمیشن بھی شامل ہے۔ کیا افسران نہیں ہیں یا جو ہیں وہ حکومت وقت کو پسند نہیں آرہے ہیں۔ ایک دوست نے ازراہ تفنن کہا کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اراکین کا تقرر سارک ممالک سے کیا جائے تاکہ کسی قسم کی جابنداری کا خدشہ نہ رہے۔
 ایک اور صاحب نے گرہ باندھی کہ انتخابات کرانے کا عملہ بھی کسی اور ملک سے منگا یا جائے ۔ کتنا سنگین مذاق ہے۔ تمام محکموں اور اداروں میں تقرریاں کی جا ئیں اور سربراہوں کا بتا دیا جائے کہ ان کی تقرری مستقل تین یا پانچ سال کے لئے ہے اور اگر ان کے خلاف کوئی شکایت آئی یا ان کی کارکردگی پر انگلی اٹھی تو حکومت سپریم کورٹ سے فیصلہ لے کر ان کے خلاف کارروائی کرے گی۔ صوبے محنتی، صاف کردار اور کارکردگی والے پولس افسران سے کیوں محروم ہیں۔ حکومتوں کو کیوں ” جی حضور“ کہنے والے افسران چاہئے۔ یہ ملک ہے کوئی رجواڑہ نہیں ہے۔ انگریز کے زمانے میں جن ریاستوں کے نظام بہتر تھے اور رعایا مطمئن تھی اس کی بڑی وجہ نیک نام اہل کار تھے۔ پاکستان میں حکومتوں نے عوام کو رعیت تصور کر لیا ہے۔ سندھ کی ثقافت میں ”راج“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ وڈیرے بڑی رعونت یا فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ” یہ میرا راج ہے“۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ میرے حکم کے غلام ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اراکین نے یہ بھی کہا کہ نچلی سطح پر اقتدار کی منتقلی کے لئے بلدیاتی انتخابات جلد ازجلد کروانے کے لئے وفاق سمیت دیگر صوبائی حکومتوں پر دباﺅ بڑھایاجائے گا۔ قانون کے مطابق بلدیاتی الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنے والے صوبوں کیخلاف آئین کے مطابق کارروائی کی جائیگی۔ صوبوں نے تاریخ نہ دی تو الیکشن کمیشن خود کوئی مناسب تاریخ جاری کر دے گا۔ پاکستان میں بدترین غیر منظم انتخابات کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہی عائد ہوتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتی ہیں۔ اس وقت کوئی بھی انتخابات کرانا بچکانہ حرکت ہوگی ۔ جو عناصر بلدیاتی انتخابات یا درمیانی مدت کے انتخابات کی بات کرتے ہیں ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ ایک بار پھر منتخب ہو سکیں۔ بلدیاتی اداروں میں ان کے ہی بھائی بند اور رشتہ دار منتخب ہو جائیں اور وہ سرکاری رقومات کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکیں۔
 دوسرے معنوں میں لوٹ مار کرنا مقصود ہے۔ پہلے انتخابی نظام، طریقہ کار، پارلیمنٹ میں اصلاح، سیاسی جماعتوں کے قانون میں ترامیم اور دیگر معاملات کی طرف توجہ دینا چاہئے تاکہ آئندہ قومی یا بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی جاسکے۔ حکومت نے محسوس کر لیا ہوگا کہ عام لوگ کیا چاہتے ہیں، وہ ملک میں ایسی تبدیل چاہتے ہیں جس میں انہیں اہمیت اور حیثیت حاصل ہو۔ وہ حکومت اور اقتدار میں شراکت کے خواہاں ہیں، وہ انقلاب ہو یا سسٹم میں تبدیلی ، دراصل طرز حکمرانی اور رویوں میں تبدیلی لانا ضروری ہے جو قوانین اور ضابطوں میں تبدیلی کی صورت میں ہی آ سکتی ہے ۔ حکومت کے لئے وقت تھم سا گیا ہے، کیونکہ ملک بھر میں ایک عجیب سی غیر یقینی فضا ہے ، ایک خلفشار پایا جاتا ہے، لیکن وفاقی حکومت کو پھر بھی چاہئے کہ اس وقت جنگی بنیادوں پر اہم اصلاحات پر توجہ دے ۔ پارلیمنٹ کی 33 رکنی خصوصی کمیٹی سے کہا جائے کہ تاخیر تخریب کو جنم دے سکتی ہے۔ اگر حکومت نے اصلاحات پر پہلے روز سے ہی آغاز کر دیا ہوتا تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔ میاں نواز شریف اگر اب بھی اصلاحات کرا دیتے ہیں تو ان کی سیاسی ساکھ میں اضافہ متوقع ہوگا۔

مزید :

کالم -