جوہرِقابل کی قدرافزائی!
ایک راج مستری کا بیٹا عرفان حسان فیصل آباد یونی ورسٹی میں ایم بی اے کے امتحان میں اوّل پوزیشن کا حقدار قرار پایا۔ اس جوہر قابل کو اوّل آنے پر حسب معمول گولڈ میڈل ملا۔ ہر مضمون اور یونی ورسٹی میں طلبہ وطالبات پہلی پوزیشن لیتے اور سنہری تمغہ جیتتے ہیں، مگر اس جوہرقابل نے مزدور کے گھر میں آنکھ کھولی اور اپنی محنت اور اعلیٰ دماغ کے درست استعمال سے پوری قوم کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ پھر یہی نہیں، یہ کامیابی ملتے ہی وہ اپنی ماں اور پھر باپ کے قدموں میں گر گیا اور ان کے پا¶ں چومے۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں یہ خبر بھی آئی اور تصویر بھی۔نیٹ پر اب تک کم وبیش تیس چالیس ہزار لوگوں نے اس ہونہار طالب علم کی کامیابی اور طرز عمل کی تعریف کی ہے۔ بلاشبہ یہ واقعہ اپنی جگہ اہم بھی ہے اور اس بات کی دلیل بھی کہ قوم میں جوہر قابل کی کمی نہیں ۔بدقسمتی سے یہاں کا نظام اپنی کرپشن کی وجہ سے حقداروں کو حق سے محروم کردیتا ہے اور سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اس سے قبل بھی مختلف بورڈز اور یونی ورسٹیوں میں ایسے طلبہ وطالبات اول آتے رہے ہیں جو کہیں نان بائی کے طور پر کام کرتے تھے، کہیں ان کو اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے خوانچہ فروش کا معمولی اور سخت کام کرنا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ ذہین اور غریب بچے اپنی تعلیم کے ساتھ ٹیوشن پڑھانے کا کام تو بہرحال کرتے ہی ہیں۔ کئی اول آنے والے بچوں کی ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں کہ انھوں نے والدین کی غربت کی وجہ سے اپنی تعلیم کے ساتھ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم کا خرچ بھی اٹھایا۔ جس قوم میں ایسے ہیرے پیدا ہوتے ہوں وہ دنیا میں رسوا اور بے وزن ہو، یہ بات ناقابل فہم ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہاں کا اشرافیہ ایسے مگرمچھ کی طرح ہے جو سب کچھ ہڑپ کرکے اپنے پیٹ میں ڈال لیتا ہے۔ اس میں محض روپیہ، پیسہ اور دولت ہی نہیں، دیگر حقوق کا بھی یہی معاملہ ہے۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ وطن عزیز میں بے شمار بچے اور بچیاں تعلیمی اداروں کا منہ دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہوپاتے کیونکہ ان کے گھریلو حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ تعلیم اور صحت حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، مگر یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ حکومت نے یہ بنیادی ذمہ داری اپنے سر سے اتار کر پھینک دی ہے۔ اعلانات ہوتے رہتے ہیں کہ کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے گا، مگر ان پر عمل درآمد کتنا ہوتا ہے، یہ معاشرے کے دیہاتی علاقوں، غربت زدہ کچی آبادیوں اور جھگیوں میں بسنے والے پاکستانیوں کے بچوں کو دیکھنے والا ہر شخص بخوبی جان سکتا ہے۔ گردوغبار میں اٹے ہوئے یہ بچے اور بچیاں کندذہن نہیں ہوتے۔ والدین ایک تو اپنی جہالت اور غربت کی وجہ سے تعلیم کی اہمیت سے بے خبر ہیں۔ دوسرے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسیں اور اخراجات برداشت کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔ان بچوں کے چہروں کو دیکھیے تو کئی ایک میں ذہانت اور سمجھداری کی جھلک نظر آتی ہے۔ انھی میں کوئی ڈاکٹر قدیر اور ڈاکٹر ثمرمندمبارک بھی ہوسکتا تھا، مگر نظام کی سفاکی وبدعنوانی کی وجہ سے گردِ راہ بن کر رہ جاتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
گر نہ ہوتے مائل لہو و بازی
انھی میں تھے ہزاروں طوسی و رازی
مسلمانوں کو طویل عرصے کی غلامی اور استعمار کے تسلط نے بہت سے بنیادی اوصاف سے محروم کردیا۔ خدا خدا کرکے ہم نے استعمار سے سیاسی آزادی تو حاصل کرلی، مگر ذہنی وفکری لحاظ سے ہم آج تک اس غلامی سے نہیں نکل سکے۔ ہمارے نوجوانوں نے کئی عالمی مقابلوں میں حصہ لیا اور علمی میدانوں میں ترقی یافتہ ممالک کے نونہالوں کو مات دی، مگر اس کے باوجود ان قوموں کا رعب ہمارے چھوٹوں، بڑوں سب پرحاوی نظرآتا ہے۔ چھوٹے تو معذور ہیں اصل مجرم تو بڑے ہیں۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ اپنے ملک سے دولت لوٹتے ہیں تو اسے بھی اپنے ملک میں نہیں رہنے دیتے، بلکہ بیرونِ ملک منتقل کردیتے ہیں۔ ان سب نے اپنی اپنی پرتعیش رہایش گاہیں مغربی دنیا یا خطہ مشرق میں مغرب کی علامت یو اے ای میں بنا رکھی ہیں۔ غلامی کی وجہ سے دل ٹوٹ جاتے ہیں اور حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ اگر آزادی کے بعد ایسی قیادت میسر آجائے جو مرعوبیت کی بجائے خود اعتمادی، خودداری اور خود انحصاری کی صفات سے متصف ہو توپھر قومیں ذلت سے نکل کر عزت کے بلند مقام پر فائز ہوسکتی ہیں۔
افسوس کہ ہماری پریشان نظری کا کوئی علاج نہ ہمارے نصاب تعلیم میں فراہم کیا گیا اور نہ زندگی کے دیگر شعبوں میں۔ اردو زبان جو ہماری قومی زبان اور دنیا کی معروف ترین زبانوں میں سے ایک ہے، ہمارے حکمرانوں کو نہیں بھاتی۔ اس کی جگہ آج بھی وہ انگریزی کو ذریعہ ¿ تعلیم بنانے پر مصر ہیں۔ اردو میں ہمارے پاس اتنا علمی ذخیرہ ہے کہ ہم اس پر فخر کرسکتے ہیں، مگر جس ڈگر پر حکمران بگٹٹ دوڑے چلے جارہے ہیںاس کے نتیجے میں یہ سارا ذخیرہ آنے والی نسلوں کے لئے محض ردی کا سامان ہوگا۔ اقبال کتنی درمندی کے ساتھ فرماتے تھے:
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
دے ان کو سبق خود شکنی ، خود نگری کا
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا
اے کاش غلامی کی روش چھوڑ کر اقبال کے تصورات کے مطابق یہاں کے نظام میں کوئی مثبت تبدیلیاں آتیں اور ہمارے نوجوان اور ان کا جوہر قابل ہمیں پستیوں سے بلندیوں کی طرف لے جاتا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہمارا جوہرِقابل بھی ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے وطن میں ان کی قدر نہیں ہوتی۔ ملک میں ان پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ جب وہ کچھ بن جاتے ہیں اور قوم کو کچھ لوٹانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں تو پھر مجبوراً دوسرے ممالک کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کردیتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہمارا یہ جوہرقابل پھیلا ہوا ہے۔ انھیں دیکھ کر فارسی شاعر غنی کاشمیری کا یہ شعر یاد آتا ہے:
غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرفان حسان اور اس جیسے دیگر فرزندان قوم کو سلامت رکھے اور اس ملک میں ایسی تبدیلی آجائے کہ جس کے نتیجے میں ہمارا اثاثہ ہمارے ہی کام آئے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب نے عرفان حسان اور اس کے والدین کو اس شاندار کامیابی پر ٹیلی فون کیا اور مبارک باد دی۔ یہ بہت اچھی روایت ہے کہ معاشرے کے نچلے طبقات کی کامیابیوں پر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔