نیا پاکستان !

نیا پاکستان !
نیا پاکستان !

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب کہا ہے :
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
 جناب علامہؒ نے کس کی ذات کے لئے یہ شعر کہا تھا، ہم نہیں جانتے البتہ یہ جانتے ہیں کہ اس شعر کی دو خوبیاں ”عشق“ اور ”سادگی“ ہماری بھی ذات کا حصہ ہیں۔ ہم بھی عشق کرتے ہیں اور وہ بھی ”انتہا“ کا، آپ غلط نہ سمجھیں ہمارے معشوق میرا،قطرینہ یا کرینہ نہیں، بلکہ پرانے شاعروں کی طرح مذکر ہیں اور وہ بھی سیاست دان۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم گونا گوں مسائل کا شکار رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسائل بھی یہی حل کریں گے ، دعویٰ بھی یہ لوگ یہی کرتے ہیں اور ہم یہ مان کر کسی ایک کے پیچھے چل پڑتے ہیں البتہ کچھ عرصہ بعدہماری حالت جناب جوش کے اس شعر جیسی ہوجاتی ہے ۔
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید    
 لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

 اب سے کچھ عرصہ قبل ہمارے معشوق جناب نواز شریف تھے ۔ ہم نے نہ صرف ان کو ووٹ دئیے، بلکہ ان کے جلسے جلوسوں میں نعرے لگا لگا کر اپنا گلہ بھی خراب کرلیا، اس وقت سے ہماری آواز قربانی کے بکرے جیسی ہوگئی ہے لیکن ہمیں دکھ کے ساتھ اپنایہ معشوق چھوڑنا پڑا ۔ نواز شریف کو چھوڑنے کی وجہ یہ بنی کہ بجلی کا بل اوسطاً پانچ ہزارآتا تھا ، اب بیس ہزار آنا شروع ہوگیا۔ ہم نے میٹر کو عینک صاف کرکے بھی دیکھا اس میں اوسطاً ریڈنگ بھی ٹھیک تھی۔ اسکے بعد ہم نے سارے گھر کی بجلیاں بھی ایک ایک بند کرکے اندھیرے میں رہنے کی عادت ڈالی مگر جب قسمت میں ہی اندھیرے لکھ دئے جائیں تو انسان کیا کرے ۔ گھر کو اندھیروں میں ڈبونے کے باوجود بھی جب اگلے ماہ کا بل اتنا ہی آیا تو آنکھوں میں بھی اندھیراچھاگیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اکیلے ہم ہی نہیں، بلکہ سارا پاکستان ”بلبلا“ رہا ہے ۔ اخباروں نے لکھا ہے کہ نواز شریف حکومت نے ”اوور بلنگ“ کرکے غریب عوام کی جیبوں پر ستر ارب کا ڈاکا ڈالا ہے ۔ ان کی دیکھا دیکھی اب محکمہ گیس بھی چھریاں تیز کررہا ہے ، وہ کیوں پیچھے رہے ۔ اس ڈکیتی کے منصوبے کے خالق کہئے یا سرغنہ ، جناب اسحاق ڈار بتائے جارہے ہیں جنکی معاونت سنا ہے محترمہ نرگس سیٹھی نے کی ہے ۔ ہم نے حکومت کو درخواست بھیجی کہ آئن سٹائن کے ان جانشینوں کی خدمات باہر کے کسی ہم جیسے غریب ملک کے سپرد کرکے معقول زرمبادلہ حاصل کرلیا جائے اور ہماری ان سے جان چھڑائی جائے، تاکہ ہمارا ”بلبلانا“ کم ہومگر ” کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک “ جناب نوازشریف سے مایوس ہونے کے بعد ہمیں ایک دن اچانک ہر جگہ جناب علامہ طاہر القادری کے تصویر کے ساتھ بڑے بڑے اشتہار چسپاں دکھائی دئے ۔
 ” تعلیم مفت ۔ علاج مفت۔ مہنگائی ختم ۔ عدالتوں کا خرچہ ختم ۔یوٹیلٹی بل آدھے“ اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو اس پرکشش پیکج پر لبیک نہ کہے ۔ ہم نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، اپنا معشوق بدلا، تن من دھن معاف فرمائیں، دھن نہیں، کیونکہ وہ ہمارے پاس نہیں، جو تھا وہ سب بجلی کے بل کی مد میں چلا گیا ۔ بہرحال تن من سے ہم نے جناب علامہ کی بیعت کرلی اور ان کے دھرنے میں اسلام آباد جا پہنچے ۔ وہاں ایک نہیں، بلکہ دو دو دھرنے، ہم کبھی ادھر تو کبھی ادھر ”موجاں بھی اور رونقاں بھی“ ۔۔۔ ”موجاں “یعنی بریانیاںانقلاب دھرنے میں اور” رونقاں“ یعنی ٹھمک ٹھمیا آزادی دھرنے میں ۔” چپڑی اور دو دو“ دن بڑے اچھے گزر رہے تھے مگر وہ دن نہ آیا جب ہمارا یوٹیلٹی بل آدھا ہونے کا اعلان ہونا تھا۔ اسی انتظار میں تھے کہ آزادی دھرنے والے بازی لے گئے ۔اعلان ہوا کہ آج کے بعد کوئی کسی قسم کا بل جمع نہ کرائے ۔ نہ گیس کا، پانی کا نہ بجلی کا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ کہاں ہم یوٹیلٹی بل آدھے ہونے کے چکر میں تھے وہ اب سارے ہی معاف ہوگئے ۔ ہم نے اسی وقت جناب قادری کو چھوڑا اور کپتان کو اپنا مرشد اور امام مان لیا۔ کچھ گھنٹے ”زبان و بیاں“ کے اسباق لئے اور واپس گھر پہنچے ۔
 گھر میں ہم سے پہلے ہی گیس، پانی،فون اور بجلی کے بل پہنچے ہوئے تھے۔ ہم نے وہ سب پکڑے اور محلے کی نکڑ پر خواجہ صاحب کا دروازہ جاکھٹکھٹایا۔ خواجہ صاحب ہمارے علاقے میں کپتان کے نمائندے ہیں ۔ ہم نے ان کو کپتان کا تازہ ترین حکم سنایا، ان کے سامنے بل لہرا کر پوچھاکہ یہ اب آپ نے جمع کرانے ہیں یا کپتان نے، کیونکہ ہم آپ کے سلسلہ عالیہ سے بیعت ہوکر آپ کے پیر بھائی بن چکے ہیں ۔ خواجہ صاحب فرمانے لگے کہ اب بل جمع نہیں کرانے، بلکہ جلانے ہیں ، ہم سب نے یہی کیا ہے ۔ ہم نے خواجہ صاحب کے سامنے ہی سب بلوں کودیاسلائی دکھائی، کپتان کو ڈھیروں دعائیں دیں اور گھر آکر لمبی تان کر سو گئے ۔

 کوئی بیس دن بعد گھر کے دروازے کی گھنٹی بجی، ہم باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ واپڈا اہلکار بجلی کاٹنے آئے ہیں ۔انہوں نے ہم سے بل دکھانے کا مطالبہ کیا تو ہم نے انہیں خوشخبری سنائی کہ وہ توہم کپتان کے حکم بموجب جلا چکے۔اب انہوں نے اپنا حکم سنایا کہ چونکہ آپ نے مسلسل دو ماہ بل جمع نہیں کرایااسلئے آپ کی بجلی کاٹ کر میٹر اتارا جارہا ہے ۔ اب ہم نے سوچا کہ ”زبان و بیاں“ کے جو اسباق ہم نے کپتان سے لئے تھے ان سے کام لینے کا وقت آن پہنچا۔ ہم نے ایک ڈانگ ہاتھ میں پکڑی اور بڑھک لگائی، ” اوئے بجلی والیا، میٹر نوں ہتھ نہ لائیں“ ہماری بڑھک کام کرگئی اور میٹر کی طرف بڑھتے ہاتھ رک گئے ۔ ہم نے اس بات کا کریڈٹ بھی کپتان ہی کو دیالیکن سلطان راہی مارکہ یہ نشہ بھی چند منٹ ہی رہا۔اچانک تھانے کی پولیس گارد آئی اور آتے ہی ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دی ۔ ہم نے احتجاج کیاکہ بل جمع نہ کرانے پر گرفتاری تو نہیں ہوتی تو جواب ملاکہ یہ گرفتاری کار سرکار میں مداخلت اور سرکاری اہلکاروں کو دھمکیاں دینے کے سلسلے میں ہورہی ہے ۔ ہم نے کہا کہ ہمارے پیر و مرشدتو وزیر اعظم کو ”اوئے“ کہہ کر روز دھمکاتے ہیں ان سے تو آپ مذاکرات کرتے ہیں اور مجھ غریب کو پکڑ لیا ہے ۔ جواب ملا تم کو جو بھی کہناہے اب عدالت میں کہنا۔پولیس والے ہم کو گرفتار کرکے چلے تو راستے میں خواجہ صاحب کا مکان آیا۔ ہم نے شور مچا دیا کہ یہ بھی شریک مجرم ہیں۔ انہوں نے ہی ہم کو بل جلانے کا کہا تھا، ان کی بجلی کیوں نہیں کاٹی گئی، ان کے چراغ روشن کیوں ہیں۔ ایک واپڈا اہلکار بولا، خواجہ صاحب کے سارے بل وقت پر جمع ہوئے ہیں،ان کی بجلی کیوں کاٹی جائے ۔ ہمیں یقین نہ آیا، ہم نے ان کے گھر کی گھنٹی بجائی، خواجہ صاحب باہر نکلے تو ہم نے کہا، خواجہ صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے بل جمع کرا دیا ہوا ہے ۔ خواجہ صاحب فرمانے لگے کہ نوکر نے غلطی سے جمع کرا دیا تھا۔ ہمارے منہ سے بس اتنا ہی نکلا، ”یو ٹو بروٹس“ اسکے بعد ہمیں ہوش نہ رہا۔
 ہوش آیا تو ہم حوالات میں تھے، ”اشک رواں کی نہر تھی اور ہم تھے دوستو“ آواز آئی کہ تمہاری ملاقات آئی ہے، دیکھا کہ بیگم چلی آرہی ہیں ۔ بیگم نے آتے ہی اکٹھے تین چار دھماکے کردئے ۔ بجلی والوں کے بعد گیس والے بھی میٹر اتار کر لے گئے ہیں ۔ فون کٹ چکا ہے اور پانی والوں نے بھی اپنا فرض ادا کردیا ہے ۔ پیسوں والا ڈبہ کیوں خالی ہے جس میں بلوں کے لئے رقم اکٹھی کرکے رکھی جاتی ہے، اگر بل جمع نہیں ہوئے تو سمجھ نہیں آتی، رقم کدھر گئی ۔ ہم بولے ، اس میں سمجھ نہ آنے والی کون سی بات ہے ۔ ہر دوسرے دن دیسی مرغ کی کڑھائی دیسی گھی کے تڑکے ساتھ جو تم لوگ کھاتے تھے وہ ساری رقم ادھر گئی ۔ ہم نے سوچا کہ ہمارے رہنما کنٹینر کے اندر بیٹھ کر مزے مزے کے کھانے کھاتے ہیں اور خوشبو ان کی باہر آتی ہے، ہم کیوں پیچھے رہیں ۔ آخر کار ہمارے بل بھی تو انہوں نے ہی دینے ہیں ۔ میرے اور بچوں کے لئے اب کیا حکم ہے؟ بیگم نے پوچھا۔ ہم بولے کہ تم اب بچوں سمیت اسلام آباد دھرنے میں جاﺅ، وہاں قیام و طعام کا مفت انتظام ہے ۔ پہلی فرصت میں کپتان سے ملو۔ وہ ہمارا ”راہ نما“ ہے ۔ راہ نما کا مطلب ہے ”راستہ دکھانے والا“ یہ راستہ بھی اسی نے دکھایا تھا، اب اس سے پوچھو کہ اب اس دلدل سے نکلنا کیسے ہے ۔ اگر یہی ”نیا پاکستان“ ہے تو اس سے پرانا پاکستان ہی اچھا!
 
 

مزید :

کالم -