بدلتا ہوا پاکستان: حسین حقانی

اگرچہ 2008ء سے لے کر اب تک 36695 پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں فوجی ا ور سویلین رہنماؤں دونوں نے ہی دہشت گردی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے عزم کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان تین اہم علاقوں، خلیج، وسطی ایشیاء اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اور یہاں افغانستان، چین اور بھارت کی سرحدیں ہیں لہٰذا یہ سب باتیں مل کر مختلف وجوہات کے لئے اہم ہیں۔ پاکستان کی معیشت ابھی تک جمود کا شکار ہے جبکہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے ادارے ریاست کو درپیش کثیر الجہتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ایک ایسے قومی نظریئے سے منسلک ہیں جس کی جڑیں اسلام میں گہری ہیں۔ پاکستان میں تربیت یافتہ دہشت گرد پورے یورپ اور دیگر ایسے علاقوں جو مالی اور انڈونیشیا کی طرح ایک دوسرے سے دور ہیں میں دیکھے گئے ہیں، پاکستان کے نقطہ نظر میں تبدیلی اب ایک عالمی مسئلہ ہے۔
امریکہ یا چین کے ساتھ کئے گئے خفیہ معاہدوں کو مستحکم کرنا اب پاکستان کی فوجی اور سویلین اشرافیہ کے لئے آسان نہیں ہے۔ اگر پاکستان میں اسلام پسندوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ جاری رہا تو امریکہ اور مغرب کی طرف سے سخت مخالفت کا امکان ہوگا اور اسلامی مشرقی ترکستان کے قیام کے لئے اسلام پسندوں کا جوش و خروش چین کے لئے قابل قبول نہ ہوگا اور اس سے صرف پاکستان کی تنہائی میں ہی اضافہ ہوگا۔ بحیثیت ایک قوم کے پاکستان کی سمت کا تعین کسی بھی صورت میں نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے امریکہ اور دیگر باہر والوں کی طرف سے طے کیا جانا چاہئے اس عمل کے اہم اداکار پاکستانی ہی ہوں گے۔ متعدد بار آئین سازی اور دستوری ترامیم کے باوجود پاکستان ابھی تک کسی مستحکم نظام اور طرزِ حکومت کے حصول سے بہت دور ہے جبکہ اسلام پسندوں اور سیکولرازم کے حامیوں کے مابین ملٹری اور سویلین کے درمیان اور دیگر نسلی جماعتوں میں سیاسی پولرائزیشن اب بھی قائم ہے۔
پاکستان کا حکمت عملی سے متعلق مقاصد کا حصول اس کی صلاحیت کے لحاظ سے غیر متناسب ہے۔
حکمت عملی سے متعلق مقاصد کے حصول کی پاکستانی کوششیں صلاحیت کے لحاظ سے غیر متناسب ہیں جنہوں نے امریکہ کے ساتھ اس کے اتحاد کی نادانستہ طور پر حوصلہ افزائی کی ہے۔
قومی قوت کے ایک عنصر فوج کو قومی طاقت کے دیگر تمام عناصر کے عوض ترقی دی گئی ہے۔ پاکستان کی خالص قومی پیداوار GDP اپنی مطلق شرائط میں 222 ارب ڈالر پر کھڑی ہے جبکہ پاکستان کی قیمت خرید 447 ارب ڈالر ہے اور اس قدر چھوٹی معیشت کے حامل کسی ملک نے اب تک جوہری ہتھیاروں کا تجربہ نہیں کیا۔
پاکستان کی کل آبادی کا 22 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے ہے اور محض21فیصد اس سے اوپر ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت غریب ہے۔ پاکستان میں بسنے والے غریبوں کے لئے یہ خبر ہلکی سی خوشی کا باعث ہے جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ سرحد پار بھارتیوں اور افغانستان کے لوگوں کی معاشی حالت اس سے ذرا ہی بہتر ہے۔
پاکستان کے قیام کے فوری بعد پاکستان کی 16.4 فیصد آبادی ناخواندہ تھی جس کا موازنہ بھارت کے 18-3 فیصد ناخواندہ لوگوں سے کیا جاتا تھا جو پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ آبادی والا ملک تھا۔2011ء سے بھارت کی شرح خواندگی 74.04 فیصد ہو گئی جب کہ پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے 55 فیصد پر ہی کھڑا ہے 67 سال میں شرح خواندگی کا یہ فرق دو فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہو گیا ہے۔ پاکستان کی آبادی 180سے 190 ملین ہے جس کا60 فیصد ورکنگ ایج کیٹیگری یعنی 15 سے 65 سال میں آتا ہے جبکہ کل آبادی کا 35فیصد 14سال سے کم عمر ہے پاکستان ایک مردم خیز علاقہ ہے جو آبادی سے متعلق ڈراؤنے خواب میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی کم شرح خواندگی ا ور تعلیم پر ناکافی سرمایہ کاری نے اسے ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے چھوڑ دیا ہے جو جدید معیشت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
نظریے اور فوجی صلاحیتوں پر بہت زیادہ توجہ نے پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کر دیا ہے تاہم پلورلزم کی شکل میں پاکستان کے لئے ایک متبادل نقطہ نظر موجود ہے، جس کے تحت اسے کثیر النسل، جدید جمہوری مسلم ریاست بنایا جا سکتا ہے جو قانون کی حکمرانی میں لوگوں کی مادی فلاح و بہبود کے لئے کام کر سکے، لیکن حالیہ برسوں میں اس جدید نظریئے کے حامی افراد کو اسلام پسندوں کی طرف سے کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان کو بدلنے کے لئے جس میں ریاست کی نوعیت بھی تبدیل ہو، کے لئے ضروری ہے کہ اسے نظریاتی اسلامی ریاست کے ساتھ ساتھ اس میں قومی مفاد کے حصول کو بھی ممکن بنایا جا سکے تاکہ یہ ایک فعال ریاست کے طور پر کام کر سکے۔ پاکستان کو تبدیل کرنے کی سمت پہلا درست قدم یہ ہو گا کہ اس میں موجود قوم پرستوں کی تنگ نظری سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، کیونکہ پاکستان قائم رہنے کے لئے بنایا ہے اور اگر یہ ایک ذمہ دار بین الاقوامی شہری کے طور پر موثر طریقے سے کام کرتا ہے تو دنیا میں کوئی بھی اسے علیحدہ نہیں کرنا چاہتا۔ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں پاکستان کو خوف اور عدم تحفظ کے احساس میں رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا عدم تحفظ کا احساس محض نفسیاتی ہے جسے اب منطقی خود اعتمادی سے تبدیل کیا جانا چاہئے۔
میرے وطن میں پلور لزم اور سیکولرازم کوئی گندے لفظ نہیں ہیں تمام قومی مباحثوں کو اسلامی نظریات کی روشنی میں دیکھنا ضروری نہیں، اس طرح پاکستان کے لئے جہادی خطرے سے نپٹنا آسان ہو جائے گا۔ اب ایک نظریاتی قومیت پسندی سے ہمیں فنکشنل قومیت کی طرف لوٹنا ہو گا۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم پاکستانی ہیں، کیونکہ ہم پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں، بجائے اس کے ہم صرف اس لئے پاکستانی ہیں کہ اسے ہمارے آباؤاجدا نے اسلام کے نام پر بنایا تھا ،اس طرح سوچنا اس اسلامی انتہا پسندی سے نکلنے میں ہماری مدد کرے گا، جس میں جہادیوں اور اتنہا پسندوں کو کام کرنے کے لئے بھرتی کیا جاتا ہے۔
پاکستان کو قومی تحفظ کے متروک نظریے پر قابو پانا ہو گا ہمیں خود کو ایک جنگجو قوم کے طور پر دیکھنے کی بجائے اپنے آپ کو ایک تجارتی قوم کے طور پر دیکھنا چاہئے جومعاشی مقاصد کے حصول کے لئے ہماری لوکیشن کا فائدہ حاصل کر سکتی ہے۔ بلند شرح خواندگی اور دنیا سے رابطے نے زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ کیا ہے اور نئے پاکستان میں شہریوں کی خوشحالی ریاست کا مقصد ہو گی۔
ان مقاصد کا حصول جہالت پر مبنی اسلام پسندی اور جہاد پسندی کو بھارت کے ساتھ برابری اور حکمت عملی کی گہرائی سے بدل دے گا جو اب تک پاکستان کی تشنہ تکمیل خواہش رہی ہے۔ انہی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں امن قائم ہو گا اور پڑوسیوں کے ساتھ اس کے تعلقات مضبوط ہوں گے اور دنیا پاکستان کو بحرا ن شدہ ناکام ہوتی ہوئی ریاست کے طور پر دیکھنا ترک کرے گی۔ (ختم شد)