ایبولا (Ebola)اور پاکستان

ایبولا (Ebola)اور پاکستان
ایبولا (Ebola)اور پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نئے زمانے ہیں اور نئی بیماریاں ہیں۔ میری طرح بہت سے قارئین نے ”ایبولا وائرس“ کا نام پہلے کبھی نہیں سنا ہو گا۔ ماہرین ِ صحت ِ انسانی اور ڈاکٹر صاحبان کہتے ہیں کہ یہ ایک نہایت ہی مہلک وائرس(بیماری) ہے، جو آناً فاناً حملہ آور ہوتی ہے، کوئی اطلاع نہیں دیتی اور ہلاک کر کے رکھ دیتی ہے۔ ظہورِ علامات سے موت تک صرف دو تین ہفتے لگتے ہیں، ابھی تک اس کی کوئی ویکسین(دوا) دریافت نہیں کی جا سکی۔ سینکڑوں انسان گزشتہ چند مہینوں میں موت کی وادی میں اتر چکے ہیں۔ بیماری کا شکار ہونے والوں میں سے بچ جانے والوں کی تعداد صرف10،15 فیصد ہے۔
ایبولا وائرس (Ebola Virus) کا سب سے پہلا مریض تو1976ءمیں کسی افریقی ملک (شائد سوڈان) کا باشندہ بتایا جاتا ہے، لیکن جلد ہی اس کا علاج کر لیا گیا اور لوگ اس کو بھول گئے تاآنکہ ماضی قریب میں تین افریقی ممالک میں اس وائرس کا شدید حملہ ہوا۔ علاج اور پرہیز کے ہزاروں طریقے اور ادویات آزمائی گئیں ،لیکن بے سود۔ 7000لوگوں میں سے سینکڑوں جانبر نہ ہو سکے۔ ان افریقی ممالک کے نام گنی، سر الیون اور لائبریا ہیں اور تینوں میں مسلم آبادی کی غالب تعداد بستی ہے۔ ان ممالک کی سرحدیں بھی آپس میں ملتی ہیں۔افریقہ کے پولیٹیکل میپ پر نگاہ ڈالیں تو وسطی افریقہ کے انتہائی مغرب میں یہ تینوں ممالک نظر آئیں گے۔ تینوں کی مغربی سرحدیں بحر اوقیانوس کے پانیوں سے تشکیل پاتی ہیں (نقشہ دیکھئے)
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ایبولا وائرس بعض چمگادڑوں، لنگوروں، بندروں اور گوریلاﺅں وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ جن چمگادڑوں میں یہ وائرس موجود ہے، ان کا نام ”فروٹ چمگادڑ“ رکھا ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ چمگادڑ صرف ان درختوں پر بسیرا کرتی ہیں جو ثمر آور ہوتے ہیں۔ بندروں اور لنگوروں وغیرہ (Primates) میں یہ وائرس بھی انہی چمگادڑوں کے توسط سے آیا ہے۔ یہ لنگور ان چمگادڑوں کا شکار کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایبولا وائرس انسانوں میں کیسے آ گیا؟
وسطی اور جنوبی افریقہ کے قدیم لوگ نہ صرف چمگادڑیں اور بندر”بھون“ کر کھا جاتے تھے، بلکہ دوسرے جنگلی جانوروں اور درندوں کو بھی بڑے شوق سے تناول فرماتے تھے۔ جس چمگادڑ کا اوپر ذکر کیا گیا اور جس کو ماہرین نے فروٹ بیٹ (پھل خور چمگادڑ) کا نام دیا، یہ اب بھی اکثر افریقی ممالک میں ایک نہایت ”لذیذ“ اور ”بیش قیمت“ ڈش (Delicacy) سمجھی جاتی ہے!.... اِسی لئے تو انسان کو ”ظلوماً جہولا“ بھی کہا گیا ہے!
سختیاں سہتا ہوں دل پر غیر سے غافل ہوں مَیں
ہائے کیا اچھی کہی، ظالم ہوں مَیں، جاہل ہوں مَیں
         (اقبال) ؒ
مجھے اس موضوع پر لکھنے کا خیال اس لئے آیا کہ ابھی دو تین روز پہلے ہمارے حجاج کرام مکہ مکرمہ میں حج اور قربانی سے فارغ ہوئے ہیں۔ ان حجاج کی واپسی شروع ہو چکی ہے یا ہونے والی ہے۔ اگر خدا نہ کرے کوئی پاکستانی حاجی اپنے ساتھ یہ وائرس بھی لے آیا تو سوچتا ہوں کیا ہو گا؟.... آپ جانتے ہیںہم پاکستانی کسی بھی شعبے میں حفظ ِ ما تقدم کے قائل نہیں۔ وہ تو جب سر پر آن پڑتی ہے تو بگٹٹ بھاگتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر کہیں ایبولا کا مریض ”دریافت“ ہو گیا تو سارا میڈیا سراپا ایبولا بن جائے گا۔ آج اگرچہ غیر ملکی میڈیا میں اس وائرس اور اس کا شکار ہونے والوں کی حالت ِ زار کا ڈھنڈورہ پیٹا جا رہا ہے، لیکن ہمارا میڈیا خاموش ہے! آپ پوچھیں گے کہ حج اور ایبولا کا آپس میں کیا تعلق ہے تو محترم قارئین! وہ تینوں افریقی ممالک کہ جن میں یہ وائرس تباہی مچا رہا ہے (گنی، سیر الیون، لائبریا) ان میں آبادی کی اکثریت مسلمان ہے اور وہ ہر سال فریضہ ¿ حج کی ادائیگی کے لئے اِسی طرح امڈتی ہے جیسے پاکستانی قوم ہو۔
سعودی حکومت نے اگرچہ ان تینوں افریقی ممالک کے باشندوں پر حج کے لئے آنے پر سخت پابندی لگا دی ہے، اگرچہ باقی ممالک سے حج پرآنے والے مسلمانوں کو مختلف میڈیکل ٹیسٹوں سے گزارا جاتا ہے اور اگرچہ حاجیوں کو کئی ایسے فارم بھرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ جن میں اس وائرس سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر کی جاتی ہے، لیکن جب معاملہ20لاکھ حجاج کا ہو اور اس میں ساری دنیا کے ممالک شامل ہوں تو کس کس کو چیک کیا جا سکتا ہے؟....پاکستانی بھائی ویسے بھی ہزارہا چیکنگوں سے بچ نکلنے کے حربوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
اب ذرا اس ایبولا وائرس کی علامات کی طرف آ جاتے ہیں۔.... جیسا کہ اوپر لکھا گیا اب تک اس کی کوئی وجہ دریافت نہیں کی جا سکی کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں کس توسط سے پہنچتا ہے۔ کیا کھانے پینے سے پہنچتا ہے؟ کیا یہ وبائی مرض ہے؟ کیا اس کے جراثیم ہوا کے دوش پر اُڑ کر ایک سے دوسرے شخص پر اثر انداز ہوتے ہیں؟.... ان تینوں سوالوں کا جواب نفی میںہے!
تو پھر ایبولا وائرس کا حملہ کس طرح ہوتا ہے اور یہ کس طرح ایک انسان سے دوسرے انسان تک پہنچ جاتا ہے؟.... صحت کی عالمی تنظیم (WHO)نے یہ بتایا ہے کہ یہ مرض وبائی نہیں، چھوت چھات کا مرض ہے۔ یعنی جب تک متاثرہ انسان کے جسم کا کوئی حصہ کسی دوسرے تندرست انسان کے بدن سے ٹچ نہ کرے تب تک ایبولا وائرس، تندرست انسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ وائرس عام طور پر متاثرہ شخص کے ساتھ مصافحہ کرنے اور بغل گیر ہونے سے ہوتا ہے۔ جسم سے خارج ہونے والی کسی بھی رطوبت میں ایبولا کے جراثیم ہوتے ہیں۔پسینہ، خون، تھوک، بول و براز اور مادہ¿ منویہ وغیرہ میں یہ وائرس پایا جاتا ہے۔ اگر کس شخص کو یہ مرض ہو جائے تو اس کے لمس سے پرہیز کرنے کی سخت ہدایت کی جاتی ہے۔
اس کی علامات یہ ہیں کہ اچانک بخار ہو جاتا ہے، جس کی شدت میں فوری اضافہ ہونے لگتا ہے۔ قے شروع ہو جاتی ہے۔ اسہال اور پیچش آنے لگتے ہیں۔، مُنہ، ناک، آنکھوں اور مقعد(Rectum) کے راستے خون بہنے لگتا ہے اور اس طرح مریض کا اندرونی نروس سسٹم جواب دے جاتا ہے۔ یہ اعصابی نظام، جریانِ خون سے پہلے بھی فیل ہوسکتا ہے اور مریض کو قبرستان پہنچا سکتا ہے۔ اگر کسی مریض کی موت ہو جائے اور وہ مسلمان ہو تو اس کو کفنانے دفنانے اور غسل دینے میں نہایت احتیاط برتنی چاہئے۔ اب تک تینوں متاثرہ ممالک میں جو اموات اس مرض سے ہوئی ہیں ان میں 25فیصد ایسی تھیں جو کفنانے دفنانے کے وقت احتیاط نہ برتنے کی وجہ سے پیش آئیں۔
سعودی حکومت نے ایام حج میں سخت حفاظتی تدابیر اختیار کی تھیں اور ابھی تک ایبولا کا کوئی مریض وہاں منظر عام پر نہیں آیا۔ دوسری طرف سیر الیون، گنی اور لائبریا میں قربانی کرنے کے مقامات پر بھی لوگوں کے اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ بی بی سی کے مطابق ان ملکوں میں نمازِ عید کی ادائیگی کے لئے جو کھلے مقامات اور عید گاہیں مختص کی جاتی تھیں، وہ اس بار سنسان پڑی تھیں۔ قربانیاں تو لوگ کر رہے تھے لیکن آئمہ کرام نے فتاویٰ جاری کر دیئے تھے کہ لوگ نمازِ عید پڑھنے کے بعد ہاتھ ملانے اور بغل گیر ہونے سے پرہیز کریں۔ پاکستان میں بھی مصافحہ اور معانقہ، نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد ایک روایت بن چکا ہے۔ خاص طور پر امام صاحب سے اکثر نمازی معانقہ ضرور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متذکرہ بالا تینوں افریقی ممالک میں حکومت نے احکامات جاری کر دیئے تھے کہ مفتی صاحبان کے فتاویٰ کی پیروی کی جائے اور روایاتِ مصافحہ و معانقہ سے گریز کیا جائے۔
سعودی حکومت نے اگرچہ اپنی سی کوششیں کی تھیں اور متاثرہ ممالک کے 7400زائرین حج کے ویزے منسوخ کر دیئے تھے۔ لیکن پھر بھی باقی حجاج کرام کا قیام اگر سعودیہ میں زیادہ طویل نہ ہو اور وہ اپنے ممالک کو جلد واپس لوٹ جائیں تو بھی اس خوف کو 100فیصد دور نہیں کیا جا سکتا کہ ان واپس آنے والے حجاج میں کوئی حاجی متاثر نہیں ہوا ہو گا۔ جس بھی اسلامی ملک میں ایسا ہو جائے تو وہاں کے محکمہ ¿ صحت کو، عالمی ادارہ¿ صحت کی جانب سے یہ انتباہ جاری کر دیا گیا ہے کہ مریض کو فوراً تنہا (Isolate) کر دیا جائے اور اس سے ملنے جلنے والوں پر پابندی لگا دی جائے۔ بایں ہمہ یہ بات مشکل نظر آتی ہے کہ ایبولا وائرس کا مریض جلدی شناخت کر لیا جائے گا۔ جیسا کہ پہلے لکھا گیا، وائرس کے ”جوان“ ہونے (Incubation) کا دورانیہ 21دن ہے۔ کسی شخص کو اولین ایام میں اگر بخار، قے اور اسہال ہوں تو یہ علامات ہیضے وغیرہ کی بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر ان ایام میں دوسرے لوگ اس بظاہر ”ہیضے“ کے مریض سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان میں یہ وائرس منتقل ہونے میں دیر نہیں لگائے گا۔ اس لئے ہم پاکستانیوں کو چاہئے کہ جب بھی کسی چھوٹے بڑے لڑکے ، لڑکی، نوجوان، بچے یا بوڑھے سے اس کی اولین علامات دیکھیں اس کو فوراً ایک الگ کمرے میں ڈال دیا جائے۔ اگر ایبولا وائرس کا حملہ نہ بھی ہو اور ہیضے کا حملہ ہو تو بھی احتیاطیں اسی طرح ہونی چاہئیں جس طرح ایبولا وائرس کی ہوتی ہیں۔




 سلجھے ہوئے صحافی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اب خود کو

مزید :

کالم -