نیب کے افسروں کی نااہلی کی وجہ سے مقدمات التواء کو شکار ہیں: جسٹس محمود مقبول باجوہ
لاہور(نامہ نگار خصوصی )لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ کرپشن سکینڈلز کے بعض مقدمات میں نیب کی رفتار جہاز سے تیز اور بعض مقدمات میں چیونٹی سے بھی سست ہوجاتی ہے، نیب کے افسروں کی نااہلی کی وجہ سے مقدمات التواء کا شکار ہورہے ہیں، مسٹر جسٹس محمود مقبول باجوہ کی سربراہی میں قائم ڈویژن بنچ نے یہ ریمارکس 3 کھرب روپے کے سکینڈل کے متاثرین کو رقوم کی عدم واپسی پر ڈی جی نیب پنجاب سید برہان علی کی سرزنش کرتے ہوئے دیئے ۔فاضل بنچ نے 3 کھرب روپے کے رؤف فاریکس سکینڈل کے متاثرین محمد اسلم اور محمد حسین کی رقوم کی عدم واپسی کی درخواستوں پر سماعت شروع کی تو ڈی جی نیب پنجاب سید برہان علی نے پیش ہو کر بتایا کہ متاثرین کو مساوی بنیادوں پر رقوم واپس کی جا رہی ہیں، درخواست گزاروں کی وکیل شازیہ خلیل نے بنچ کو بتایا کہ نیب نے میاں گلزار سمیت منظور نظر متاثرین کو زیادہ رقوم واپس کی ہیں جبکہ اکثر متاثرین ابھی تک دھکے کھاتے پھر رہے ہیں،عدالت نے ڈی جی نیب پنجاب کی سرزنشن کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر نیب متاثرین کو رقوم واپس کر رہا ہوتا تو بارہ برسوں سے یہ متاثرین عدالتوں اور نیب کے دروازے نہ کھٹکھٹا رہے ہوتے، بعض کرپشن سکینڈلز میں نیب کی رفتار جہاز سے تیز اور بعض میں چیونٹی سے بھی سست ہو جاتی ہے، نیب افسروں کی نااہلی کی وجہ سے مقدمات التواء کر شکار ہو رہے ہیں، فاضل جج نے کہاکہ عدالت نے چھ ماہ قبل بھی متاثرین کو رقوم کی واپسی کا حکم دیا تھا اور نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت میں یقین دہانی بھی کرائی تھی جس پر ڈی جی نیب نے کہا کہ ہو سکتاہے کہ کسی تفتیشی افسر نے بیان ریکارڈ کرا دیا ہو، اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا ، عدالت نے اس بیان پر ڈی جی نیب کی دوبارہ سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ رویہ تو پولیس کا ہے،پولیس افسر عدالت میں ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے ہیں، اگر یہی بات ہے تو پھر نیب اورپولیس میں فرق ختم ہو چکا ہے، عدالت نے ڈی جی نیب پنجاب کو حکم دیا کہ وہ اس سکینڈل کے متاثرین کو رقوم کی واپسی کیلئے معاملے کی خود نگرانی کریں اور جتنی جلدی ممکن ہو سکے، اس معاملے کو نمٹایا جائے، عدالت نے ڈی جی نیب سے پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 2 نومبر تک ملتوی کر دی۔