مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے ڈوزئر امریکہ کے حوالے
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ڈوزئر امریکہ کے حوالے کر دیئے ہیں یہ ڈوزئر امریکہ میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے پاکستان و افغانستان رچرڈ اولسن کے حوالے کئے۔ اِس موقع پر سفیر جلیل عباس جیلانی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔عالمی برادری بالخصوص امریکہ کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کا نوٹس لینا چاہئے۔ امریکہ فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی دہشت گردی اور ظالمانہ کارروائیاں بند کروائے۔ امریکہ کو سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہئے، عالمی برادری انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دلوائے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز نے جو ظالمانہ کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں اُن کے بارے میں دُنیا کو باخبر رکھنا اِس لئے بھی ضروری ہے کہ بھارت نے اِس تمام عرصے میں وہاں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند کر رکھی ہے اور وادی میں ظلم و ستم کی خبریں بہت کم باہر آ رہی ہیں اس کے باوجود اب تک ایک سو سے زائد کشمیریوں کی شہادت اور700سے زیادہ ایسے زخمیوں کی مصدقہ اطلاعات سامنے آ چکی ہیں، جو پیلٹ گنوں کے فائر سے عمر بھر کے لئے بینائی سے محروم ہو گئے، باقی زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ چونکہ خبروں کے ذرائع پر کڑے پہرے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اِن مظالم کا مشاہدہ کرنے کے لئے وفد بھیجنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اِس لئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مظالم کا یہ سلسلہ اور زیادہ سنگین ہو سکتا ہے جسے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اِس لحاظ سے امریکہ کو ان مظالم کا ڈوزئر پیش کر کے بروقت اور درست فیصلہ کیا گیا ہے۔
امریکہ پر دُنیا کی واحد سپر طاقت ہونے کے حوالے سے بھی اہم ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ امریکہ نے دونوں ممالک سے رابطہ کر کے اُنہیں جنگی اور کشیدہ صورتِ حال سے بچنے کا مشورہ بھی دیا ہے اور امریکہ کی یہ کوشش بھی ہے کہ دونوں ممالک کو اپنے تنازعات باہمی مشاورت سے طے کر لینے چاہئیں اِس لئے کشمیر میں مظالم کی عکاسی کرنے والے یہ ڈوزئر پیش کر کے پاکستان نے امریکہ کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اِن ثبوتوں کا بچشم خود مشاہدہ کر سکے، جو کشمیر میں روا رکھے جا رہے ہیں اور انہی مظالم کا جنرل اسمبلی کے خطاب میں ذکر کرنے پر بھارتی وزیراعظم اور حکومت سیخ پا ہے اور ان سے توجہ ہٹانے کے لئے کنٹرول لائن پر سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچایا گیا تاہم خود بھارت میں اب نریندر مودی کے دعوؤں کو تسلیم نہیں کیا جا رہا اور وہاں بھی حکومت سے سرجیکل سٹرائیک کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں،لیکن نریندر مودی سرکار اس سے اس حد تک خوفزدہ ہے کہ ثبوت مانگنے والوں کو ان کے انتہا پسند حامیوں کی طرف سے پاکستان چلے جانے کے مشورے دیئے جا رہے ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اگر کوئی بھارتی فلم پروڈیوسر اپنی فلموں میں پاکستانی آرٹسٹوں کو شامل کرتا ہے تو اس کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پاکستانی آرٹسٹ کوئی دہشت گرد تو نہیں ہیں جیسا کہ سلمان خان اور اوم پوری نے کہا تو ان کو دھمکیاں دی گئیں، بلکہ موخر الذکر کے خلاف تو غداری کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے، جس مُلک میں پاکستان کے حق میں سرسری بات کرنے والوں کو پاکستان چلے جانے کے ’’مشورے‘‘ دیئے جا رہے ہوں اور غداری کے مقدمے بھی درج کرنے سے گریز نہ کیا جا رہا ہو، وہاں رواداری اور تحمل و برداشت تو رخصت ہو ہی جائے گی۔بھارت میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور کشمیریوں کے ساتھ مظالم سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوششوں کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اب اپوزیشن کی طرف سے سخت نکتہ چینی کا سامنا ہے۔
ایک کانگرسی رہنما نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ نریندر مودی نے ووٹ لینے کے لئے جھوٹا دعویٰ کیا، ثبوت ملنے تک اسے جعلی ہی کہا جائے گا، پاکستانی علاقے میں کنٹرول لائن کے قریب جو عالمی اور پاکستانی میڈیا ٹیمیں گئی تھیں انہوں نے بھی نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کے شواہد پورے علاقے میں نہیں دیکھے، ایسے میں نریندر مودی کے تمام دعوے تو ایکسپوز ہو گئے ہیں اور پاکستان نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا ایسے میں امریکہ کے سامنے کشمیریوں پر مظالم کی جو تصویر رکھی گئی ہے اس کے بعد دُنیا کے ہر صاحبِ دِل سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ان مظالم کو رکوانے کی پوری کوشش کرے گا ایسے ہی ثبوت دوسرے ممالک کو بھی دیئے جا رہے ہیں۔
اِن حالات میں بھی نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھارت کو کشمیر پر مذاکرات کی پیشکش کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کشیدگی کو بڑھانے پر یقین نہیں رکھتا اور کشمیر سمیت تمام تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔عبدالباسط نے بھارتی اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’مذاکرات ہمارے دونوں ممالک کے باہمی مفاد میں ہیں، اگر بھارت تیار ہے تو پاکستان بھی مذاکرات کے لئے آمادہ ہو گا تاہم اگر بھارت مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہے تو ہم اُس وقت تک انتظار کر سکتے ہیں، جب بھارت مذاکرات کے لئے اپنا ذہن بنا لے‘‘۔ پاکستانی ہائی کمشنر کو بھی پچھلے دِنوں نامعلوم فون نمبروں سے دھمکی آمیز کالیں کی جاتی تھیں، جس میں اُنہیں بھارت چھوڑ دینے کے لئے کہا جاتا تھا، لیکن عبدالباسط نے اتنی اشتعال انگیزی کے باوجود جو بات بھی کی وہ فکر انگیز اور بہتر ہے، بھارت اِس پر ٹھنڈے دِل سے غور کرے۔ پاکستان تو پاکستانی ہائی کمشنر کا وطن ہے، وہ جب چاہیں گے واپس آ جائیں گے،لیکن کیا دھمکیاں دینے والے بھارتی انتہا پسند چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں جو سفارتی تعلقات کم ترین سطح پر ہیں وہ بھی نہ رہیں۔یہ بھارتی حکومت کی خواہش تو نہیں ہو گی،لیکن انتہا پسندوں کو لگام دینا بھی تو حکومت کی ذمہ داری ہے، ہر کسی کو جو بھی صاف گوئی سے کام لے پاکستان چلے جانے کے لئے کہہ دینا آخر کس طرزِ عمل کی غمازی کر رہا ہے؟