عمران خان کی سولو فلائٹ ، فیصلے پر پوری اپوزیشن حیران رہ گئی ؟
تجزیہ :چودھری خادم حسین
ایک دوست اور سینئر صحافی نے کہا کہ عمران خان جو موقف اختیار کریں اور کوئی بھی فیصلہ کریں یہ ان کا حق ہے اس پر اعتراض کرنا ہمارا کام نہیں لیکن اس فیصلے کے اثرات پر تو بات ہو سکتی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے اور عمران خان نے بھی اپنا یہی حق استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور کہا کہ ان کی جماعت کی طرف سے کل جماعتی کانفرنس اور خود ان کی طرف سے رائے ونڈ کے جلسہ میں کشمیر اور بھارتی جارحیت کے حوالے سے واضح کر دیا گیا کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ ہے۔ اس لئے وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں جا کر کیا کریں گے۔ پھر انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم محمد نوازشریف وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں، اس لئے وہ ان کو وزیراعظم نہیں مانتے، ان کو استعفیٰ دینا چاہیے یا پھر خود کو اپوزیشن کے ٹی آر او کے مطابق خود کو احتساب کے لئے پیش کرنا چاہیے۔ الیکٹرونک میڈیا والوں نے اندر کی کہانی کے مطابق یہ خبر دی کہ اسد عمر نے اس فیصلے پر احتجاج کیا، جبکہ اکثریت بائیکات کے خلاف تھی جب عمران خان نے کہا کہ وہ نہیں جائیں گے تو شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ اکیلے کیوں پھر سبھی کیوں نہیں؟ اس پر عمران خان نے مزید فیصلہ کر دیا کہ تحریک انصاف بائیکاٹ کرے گی اور پھر یہ بھی طے کر دیا کہ اس وقت تک پارلیمنٹ میں نہیں جائیں گے جب تک ان کا مطالبہ نہیں مانا جاتا، اب الیکٹرونک میڈیا والے دوست کا کہنا ہے کہ مجلس میں اختلاف بہت واضح تھا۔
جس وقت عمران خان میڈیا سے بات کررہے تھے اس وقت شاہ محمود قریشی ان کے بائیں طرف کھڑے اور چہرہ اترا ہوا تھا ان کی بدن بولی سے بالکل واضح ہو رہا تھا کہ وہ غمزدہ اور فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں کہ کل جماعتی کانفرنس میں انہوں نے نمائندگی کی تھی اور بعد میں میڈیا سے خوشگوار باتیں بھی کی تھیں۔ عمران خان کے اس فیصلے پراپوزیشن حیران رہ گئی پیپلزپارٹی نے کہاکہ عمران خان نہیں مانتے نہ مانیں نوازشریف منتخب وزیراعظم ہیں اور عمران خان کا فیصلہ حیران کن ہے۔اب اس فیصلے پر بحث شروع ہو گئی اور مضمرات پر بھی رائے دی جا رہی ہے۔ ایک دانشور نے یہ کہہ کر بات بڑھائی کہ عمران خان نے کسی کے اشارے پر یہ فیصلہ کیا ہے تاہم انہوں نے خود اشارہ نہیں دیا کہ یہ کس کا اشارہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس فیصلے اور آج (جمعرات) عمران خان اسلام آباد مارچ اور بند کرنے کی جو تاریخ دیں گے موجودہ معروضی حالات میں اس کے اثرات بہت گہرے ہوں گے۔ اول تووہ خود اپوزیشن سے کٹ کررہ جائیں گے کہ ان کو امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے بھی مشورہ دیا کہ اجلاس کا بائیکاٹ نہ کیا جائے، لیکن وہ نہیں مانے، اب ان کے بائیکاٹ اور اسلام آباد بند کرنے کے فیصلے کے بہت ہی دور رس اثرات ہوں گے اور یہ تاثر ابھرے گا کہ کل جماعتی کانفرنس اور قومی سلامتی کمیٹی کے متفقہ فیصلے کے باوجود پاکستان میں اتفاق رائے نہیں اور جو کچھ بھی کیا گیا وہ ایک منصوبہ بندی تھی۔ عمران خان کے حالیہ مشیر خاص جن کو ایک دوست ’’بقراط عصر‘‘ کہتے ہیں، برملا وزیراعظم پر الزام لگا رہے ہیں اور اسے ان کی چال قرار دیتے ہیں جبکہ انہوں نے شاہ محمود قریشی کے بارے میں بھی عمران خان کو بدظن کر دیا ہے۔ یہ ’’بقراط عصر‘‘ جو خود کو ’’فرزند راولپنڈی‘‘ کہتے ہیں عمران خان کو باور کرانے میں کامیاب ہیں کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح حمائت کا عوامی انقلاب اور سیلاب لا سکتے ہیں کہ وہ ریکارڈ پر ہیں جب انہوں نے کہا کہ سولو فلائٹ پر اعتراض کیوں، بھٹو نے بھی تو 1970ء اور 1977ء میں سولو فلائٹ کی تھی، ایسا کہتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ سے نکل کر خاص حالات میں عوام کے جذبات کو ابھارا اور تاشقند معاہدہ کو ایشو بنا کر اور غریبوں کی حمائت کرکے ان کو اپنے ساتھ ملایا تھا اور ایوب خان کے خلاف دوسری اپوزیشن نے عوامی سطح پر تحریک شروع کر رکھی تھی، یوں اپوزیشن اور ذوالفقار علی بھٹو الگ الگ رہتے ہوئے بھی ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کئے ہوئے تھے پھر ایوب خان خود ہی شرافت سے چھوڑ گئے یا پھر یحییٰ خان نے بھی ان کو مجبور کیا تو 1970ء کے انتخابات کا وقت آیا پھر نتیجہ کیا ہوا؟ اس کے بعد فرزند راولپنڈی کا 1971ء یا 1977ء کی مثال دینا بھی درست نہیں کہ 1970ء کے بعد حالات تبدیل ہوئے اور 1977ء میں تو بھٹو برسراقتدار تھے اس وقت سولو فلائٹ کا کیا سوال؟ تب تو پیپلزپارٹی اور پاکستان قومی اتحاد میں براہ راست مقابلہ ہوا اور پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ ہی نہیں کیا بھٹو کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا۔ شیخ رشید کی منطق غلط ہونے کے باوجود وہ عمران خان کو باور کرا چکے کہ وہ ’’بھٹو‘‘ کے ہم پایہ لیڈر بن چکے اور اب ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں، اسی لئے تو انہوں نے بھی مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ یوں بھی وہ جاتے تو خود کو اجنبی محسوس کرتے کہ باقی سب جماعتوں نے کل جماعتی کانفرنس میں بھی ان کا نام تک نہیں لیا تھا۔
بہرحال عمران خان کو اشارہ ہوا یا شیخ رشید کا جادو چلا، یہ اور آج ہونے والا اعلان اور فیصلہ ملک میں نئی صورت حال پیدا کر دے گا۔ اسلام آباد بند کرنے سے حکومت پر دباؤ تو آئے گا تاہم وہ اس بار فری ہینڈ نہ دے سکے گی اگر ایسا ہوا اور طاقت کا استعمال ہوا تو شاید منصوبہ سازوں کا یہ منصوبہ کامیاب بھی ہو جائے کہ تصادم لازمی ہے اور اگر ایک دو نعشیں مل جائیں تو کام بن جائے گا۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن اس صورت میں مضمرات کیا ہوں گے ملک کے اندر تصادم اور جسے روکنے کے لئے رائے ونڈ میں فری ہینڈ دیا گیا اور تحریک انصاف نے بھی جلسے پر ہی اکتفا کیا، کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا نہیں ہوئی تاہم اسلام آباد بند کر دینے والے فیصلے سے ناخوشگوار حالات پیدا ہو سکتے ہیں جو سرحدوں سے توجہ ہٹا سکتے ہیں یوں بھی یہ وقت مقبوضہ کشمیر کے عوام کی وکالت اور دنیا کو اس طرف مائل کرنے کا ہے، اگر خود پاکستان کے اندر تصادم پیدا ہو گیا تو بھارت کو جو اب تک کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے کنٹرول لائن پر فائرنگ اور پاکستان مخالف پروپیگنڈہ تیز کئے ہوئے ہے یہ پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ پاکستان کس منہ سے کشمیریوں کی حمائت اور بھارتی ظلم کی بات کرتا ہے جو خود اپنے ملک کے اندر اپوزیشن کو برداشت نہیں کر پا رہا، یہ نازک معاملہ ہے۔ عمران اور تمام سیاسی جماعتوں کو غور کرنا ہوگا اور حکومت کو بھی سنجیدہ ہو کر معاملے کا حل تلاش کرنا ہوگا جو سینٹ میں پیش کئے جانے والے اپوزیشن کے احتساب بل کو منظور کروانا بھی ہو سکتا ہے۔