اختر شیرانی
قیام پاکستان سے کچھ سال پہلے جتنا نام اختر شیرانی نے کمایا اور جتنی مقبولیت ان کے کلام کے حصہ میں آئی وہ بہت کم شاعروں کو نصیب ہوئی۔ ان کا انداز جیسا کہ سب جانتے ہیں رومانوی تھا اور وہ اپنے کلام میں بھرپور رومانس سموتے تھے۔ لیکن کا خاص کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے کلاسیکل شاعری اور روایتی شاعری کے برخلاف اپنا محبوب سبزۂ خط والا نہیں بلکہ براہ راست لمبی چوٹی والا اور نسوانی حسن والا بنایا۔ گویا انہوں نے نسوانیت پر ستی کو شاعری میں فروغ دیا۔ شاعری میں جہاں سے یہ موڑ شروع ہوتا ہے وہیں سے اختر شیرانی کا نام بھی شروع ہوتا ہے۔ اور یہ نام اس پوری شاہراہ پر ایک خوبصورت سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 81 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حکیم نیرواسطی کا کہنا تھا کہ یہ سب سلمیٰ اور عذرا کے کردار جو اختر شیرانی کی شاعری میں آئے یہ سب ان کا عربی شاعری کے مطالعہ کا نتیجہ ہے ۔ لیکن اختر شیرانی خود عربی پر عبور نہیں رکھتے تھے۔ بقول حکیم نیرواسطی مرحوم ان کے پاس قبل اسلام کے شاعروں کا بہت سا کلام موجود تھا اور اختر چونکہ ان کے دوست تھے اور اکثر ان کے ہاں قیام کرتے تھے تو انہیں سننے کا موقع ملتا تھا۔ اس طرح اختر شیرانی وہاں سے متاثر ہوئے اور انہوں نے یہ کردار عربی سے لے کر اُردو میں منتقل کئے۔ واقعہ جو بھی ہو بہرحال اس سے انکار نہیں کہ اُردو شاعری میں یہ خوبصورت موڑ دینے والا تنہا اختر شیرانی تھا۔
اس زمانے میں ان کی نظمیں بہت مقبول تھیں مثلاً
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہوگیا ہوں
سلمیٰ سے دل لگا کر
یا پھر یہی کو چہ ہے اے ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی
یا پھر اودیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یا رانِ وطن
چنانچہ ان کی یہ سب نظمیں عروج پر تھیں۔ میں اس زمانے میں بالکل مبتدی کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور مرا قیام اس زمانے میں راولپنڈی میں تھا۔ وہاں مجھے ایک دن معلوم ہوا کہ اختر شیرانی تشریف لائے ہیں۔ میرے دل میں ان سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا کیونکہ میں ابتداء میں جن چند شاعروں سے متاثر ہوا ان میں سے ایک اختر شیرانی بھی تھے۔ وہاں راولپنڈی میں بانسوں والے بازار کے پاس ایک محلے میں ایک مکان میں اختر شیرانی کے ایک دوست رہتے تھے جو پینے پلانے والے آدمی تھے۔ ان کے ہاں کچھ شاعروں اور کچھ موسیقاروں کی ایسی محفلیں چلتی تھیں۔ وہ بہت آزادی کا زمانہ تھا اور جگہ جگہ شراب کی دوکانیں کھلی ہوتی تھیں اور ریستورانوں میں کھلے عام مری بروری کی بیئرپیش کی جاتی تھی۔ وہیں سے پتہ چلا کہ شام ان صاحب کے ہاں ایک محفل جمے گی جس میں شعروشاعری بھی ہو گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ بھی پتہ چلا کہ اختر شیرانی کے ہمراہ سلمیٰ بھی ہوں گی۔ اور معلوم ہوا کہ انہوں نے سلمیٰ سے شادی کر لی ہے۔
ہمارے لیے یہ اور بھی کشش کی بات تھی۔ اگلی شام ہم بھی وہاں پہنچے اور معلوم ہوا کہ کسی دوست نے یونہی مذاق کیا تھا۔
ہم لوگ ان لوگوں میں سے تھے کہ جس رسالے میں ان کی نظم دیکھتے تھے وہ خرید لیتے تھے ۔ اس دوران پارٹیشن ہو گیا ۔ میں پارٹیشن سے کوئی چھ ماہ پہلے لاہور شفٹ ہو گیا تھا اور وہاں پارٹیشن کے بعد میری اختر شیرانی سے ملاقات ہوئی وہ اسی طرح رنگے ہوئے تھے ۔ میں ان کا معتقد تھا اور خود بھی پیتا تھا۔ لیکن میں یہاں اس بات کی وضاحت کردوں کہ میں ایسا پینے والا نہیں تھا کہ اگر نہ ملے تو بے چین ہو جاؤں۔ ویسے ایک دو پیگ پی لیتا تھا۔ لیکن اگر کوئی ایسا شاعر مل جائے تو اس کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔
چنانچہ میں نے اختر شیرانی کو اپنے ہاں بلایا اور اس دن بڑے اہتمام سے سکاچ کی بوتل خریدی جو کہ کافی مہنگی تھی۔ وہ آئے اور سکاچ دیکھ کر کہنے لگے کہ صاحب یہ کیا ہے یہ تو ہمیں راس ہی نہیں آتی۔ ہمارے لئے تو آپ ایک دیسی بوتل لے آئیے چنانچہ میں وہ بھی لے آیا۔ میں نے دیکھا کہ انہوں نے اس کا ڈھکنا نہیں کھولا اور نہ ہی سوڈے میں یہ ڈالی بلکہ قریب ہی پڑی ہوئی ایک ہتھوڑا نماقسم کی چیز اٹھائی اور بوتل کے سرے پر ماری۔ بوتل کا سرا ٹوٹ کر شیشہ ادھر ادھر بکھر گیا اور انہوں نے اسی طرح گلاس میں انڈیل کر NEAT ہی پینا شروع کر دی۔ میں تو انہیں اس طرح پیتے دیکھ کر ڈر گیا ۔ لیکن وہ پیتے رہے۔ اور پی کر چلے گئے۔ پھر ان سے ملاقات حکیم نیرواسطی صاحب کے ہاں ہوئی۔
ایک بار پھر ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس میں پنجاب کے تمام سرکردہ شعراء شریک تھے۔ اس زمانے میں ساحر لدھیانوی بھی اپنی ماں اور نانی کے ساتھ لاہور ہی میں مقیم تھے۔ شورش کا شمیری بھی اس مشاعرے میں پیش پیش تھے۔ ساحر نے بھی شرکت کی۔ اختر شیرانی آئے تو بہت زیادہ پئے ہوئے تھے تو پبلک میں سے بہت سے لوگوں نے اس وقت احتجاج کیا۔ جب وہ اس حالت میں کلام سنانے کے لئے سٹیج پر آئے ۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ ہم نہیں سنیں گے۔ اختر شیرانی آگے بڑھے۔ اتنے میں شورش کا شمیری سٹیج پر آگئے و ہ تقریر کے بادشاہ تھے اور جیسا بھی مجمع ہوتا اسے اپنے پیچھے لگا لیتے تھے۔ انہوں نے مائیک پر آکر اختر شیرانی کے حق میں کچھ شاعرانہ جواز پیش کر کے پبلک کے جوش کو کچھ ٹھنڈا کیا اور اختر شیرانی سے دوبارہ پڑھنے کی درخواست کی تو وہ بے دلی سے کچھ پڑ ھ کر سٹیج سے اترے اور مشارے سے چلے گئے۔
اس کے بعد اختر شیرانی سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ مجھے کرید ہوئی کہ دیکھیں یہ جس سلمیٰ کو پنڈی لے کر آرہے تھے اس میں سے اب کتنے بچے پیدا ہو چکے ہیں۔ جن دنوں میں ’’اداکار ‘‘ کا ایڈیٹر تھا، شریف نیر جو ہمارے بڑے مشہور ڈائریکٹر ہیں وہ کچھ عرصے کے لیے اس زمانے میں ’’اداکار ‘‘ کے منیجر مقرر ہوئے تھے۔ دفتر’’اداکار ‘‘ میں نیئر صاحب نے ان کی شراب کی دعوت کی۔ وہاں اختر شیرانی آئے تو میں نے بات چھیڑ دی کہ سنا تھا کہ سلمیٰ سے آپ کی شادی کچھ عرصہ پہلے ہوگئی تھی۔ کہنے لگے کہ کون سلمیٰ؟ میں نے کہا کہ جس کا ذکر آپ شاعری میں کرتے ہیں بلکہ اس میں تو عذرا بھی ہے ۔ انہوں نے قہقہہ لگایا اور پھر کہنے لگے کہ بھائی یہ سب علامتیں ہیں۔ نہ اصل نام سلمیٰ ہے اور نہ عذرا ہے ۔ اور نہ ہی کسی سلمیٰ یا عذرا سے میری شادی ہوئی ہے ۔ میری ایک گھریلو بیوی ہے۔ اس میں سے اولاد بھی ہے۔ بس اس کو عذرا اور سلمیٰ سمجھو۔ پھر کہنے لگے کہ ویسے تو سب کی زندگی میں لڑکیاں آتی رہتی ہیں۔ کبھی کسی نے ہنس کر بات کر لی ہو گی۔ اس کا نام سلمیٰ ہو گا۔ اور کبھی کسی اور نے ہنس کر بات کر لی ہوگی تو اس کا نام عذرا ہو گا اور وہیں سے میں نے یہ علامتیں بنالیں۔
حکیم نیئر واسطی صاحب نے تو باقاعدہ ایک کتاب لکھی تھی اور اس میں اس طرح کے دعوے کئے تھے جیسے سلمیٰ نام کی کوئی لڑکی واقعی موجود تھی۔ اور اس رومانس میں وہ بھی راز دار تھے۔ اب نیئر صاحب بھی ثقہ آدمی ہیں۔ میری ان سے بھی نیاز مندی ہے ۔ نیئر صاحب کے تو ہمارے ساتھ گھریلو تعلقات بھی تھے۔ ہماری بیویوں کا بھی ملنا جلنا تھا۔ اب انہوں نے جو کتاب لکھی اس میں انہوں نے جو دعوے کئے وہ اپنی جگہ تھے۔ ادھر اختر شیرانی نے جو مجھے کہا وہ اپنی جگہ ہے۔ اب نہ تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ حکیم صاحب نے یہ دعوے کئے ہیں اور نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اختر شیرانی نے کہا کہ یہ تو سب فرضی نام ہیں ۔ مگر اختر شیرانی تو اس سے پہلے فوت ہو چکے تھے اس لئے ان سے میں کیا کہتا۔ البتہ میں نے نیئر صاحب سے کبھی نہیں کہا کہ کیا صورت ہے۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 83 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں