جھارا پہلوان طاقت و شرافت کی بلندیوں سے نشہ کی وادی میں اندھا دھند گرتا جارہا تھا، جب بھولو گاڈی جیسا بوڑھا شیر اس کو للکارنے لگا تھا۔ کشتی کا دن آیا تو عین کشتی کے وقت جھارا نشیلے سگریٹ کا زہر اپنے اندر اتار کر اکھاڑے میں اترا تھا۔ وہ مست قدموں سے اکھاڑے کو سلامی دینے آیا تھا۔ بھولو برادران کے عاشق زار تماشائی جھارے کی اس دگرگوں حالت پر خون کے آنسو رو رہے تھے۔ ان کی چشم تر جھارا کے خاندان کے ’’اتارے‘‘ کا خوش کن اور والہانہ انداز دیکھنے لگی تھیں۔ ان کے دل رو رہے تھے کہ وقت نے یہ ستم بھی دکھانا تھا کہ گاماں پہلوان ،امام بخش پہلوان اور بھولو برادران کا آخری چراغ ٹمٹماتے دیئے کی طرح اکھاڑے میں اپنے ڈولتے جسم کے ساتھ مضحکہ خیز لگ رہا تھا۔ مقابلہ ہوا مگر جھارے نے اپنے فن طاقت کو اپنی رگوں میں مجتمع کیا اور بھولا گاڈی پر فتح حاصل کرلی۔اس کی فتح سے امید ہوئی تھی کہ اب وہ سنبھل جائے گا۔ اس کا اعتماد تو آخری حدوں کو چونے لگا تھا۔ وہ اکثر کہنے لگا۔’’میں جھارا ہوں۔ مجھے کوئی کیا گرائے گا۔ تم سمجھتے ہو نشے نے مجھے خالی کر دیا ہے۔ڈھول بن گیا ہوں۔ نہیں۔ میں آج بڑے بڑے رستموں کو اڑا کر رکھ سکتا ہوں۔‘‘
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر84 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جھارے کا نشہ اس کی فتوحات کو نگلنے کے درپے تھا۔ دنیا اس دیسی کشتی کا عبرتناک منظر دیکھنا چاہ رہی تھی۔ شاید کاتب تقدیرکو بھی یہی منظور تھا۔1984ء میں جھارا کا اندر اتھل پتھل ہو چکا تھا۔ اس کی زوار ملتانی کے ساتھ کشتی باندھ دی گئی۔ بھولو پہلوان اس سے خفا ہو چکا تھا۔ وہ ڈوبتی ناؤ کا منظر نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ کلا پہلوان اور دوسرے بھائیوں نے زور لگایا کہ بھولو پہلوان جھارے کے ساتھ ملتان جائے مگر وہ انکار پر ڈٹا رہا۔
’’میں نہیں جاؤں گا۔ میں تو کہتا ہوں جھارے کواب کشتی نہ کراؤ۔اس کی فتوحات کا جوبھرم قائم ہے اسے قائم ہی رہنے دو۔ کیوں عزت کا جنازہ اٹھانا چاہتے ہو۔‘‘ بھولو پہلوان کا خفا ہونا ناجائز تھا۔ زوار سے کشتی سے قبل بھولو پہلوان نے جھارے کو اکھاڑے میں پابند کرنا چاہا تھا مگر وہ اپنی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کے باعث تعلی آمیز گفتگو کرنے لگ جاتا تھا۔جس پر بھولو پہلوان ناراض ہوتا اور کہتا۔’’جھارے پتر تو اپنی خاندانی جاہ پر طاقت کی نمائش نہ کر۔کشتی جیتنا اسی کا مقدر ہے جو انکساری کے ساتھ ریاضت کرے۔ تیرے زوروں میں اب روانی نہیں رہی۔ تیری رگوں میں خون منجمد ہو رہا ہے اور اب تو طوفان پیدا نہیں کر سکتا۔ اگر اکھاڑے میں آکر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرلے تو تیری اور ہمارے خاندان کی بچت ہو جائے گی۔‘‘بھولو پہلوان جھارے کو اس کے دادا امام بخش پہلوان کی مثال دے کر سمجھاتا۔’’ابا حضور اسی نشے کے ہاتھوں گونگا پہلوان کے ہاتھوں چت ہو گئے تھے مگر خود دار تھے۔ تایا جی نے انہیں پیس کر رکھ دیا تھا اور ابا جی دوبارہ سے جواں ہو گئے تھے۔ بعد میں انہوں نے گونگا سے گن گن کر بدلے لئے۔ اگر تو بھی سنبھلنا چاہے تو سنبھل سکتا ہے۔ ایک بار ارادہ تو کرکے دیکھ لے۔‘‘
’’تایا جی آپ تو بلاوجہ فکر میں ڈوب رہے ہیں۔ آپ شاید جانتے نہیں کہ جھارے کو نشہ نہیں مار سکتا۔ خیر آپ کہتے ہیں تو علاج کرائے لیتا ہوں۔۔۔‘‘
جھارا نے چند روز تک بھولو پہلوان کی نصیحت پر عمل کیا مگر پھر وہی شب و روز تھے اور جھارا تھا۔۔۔زوار پہلوان سے کشتی سے قبل جھارا پہلوان کی طاقت و توانائی جواب دے چکی تھی۔ بیرا پہلوان اور کلا پہلوان اسے ملتان لے کر گئے تھے۔ کشتی کے دن تک انہوں نے جھارے اور نشہ کی پڑیوں کے درمیان پُر گداز منظر دیکھا تھا۔ ان کے کلیجے بار بار پھٹ رہے تھے مگر کیا کرتے۔ جو سرکش اب بھولو پہلوان سے نہیں ڈرتا تھا وہ بھلا ان دونوں سے کیا ڈرتا۔ زوار سے کشتی ہوئی مگر اب وہی زوارجو جھارا پہلوان کی زندگی کی ابتدائی کشتی لڑ چکا تھا۔ چٹان کی طرح مقابلے پر ڈٹ گیا تھا۔ اگرچہ جھارا نے فصیل جاں کی ساری طاقت سے زوار کو اپنے نیچے دبا لیا تھا مگر وہ پسینے میں تربتر ہونے کے باوجود اسے چت نہیں کر سکا۔ کشتی کافی طویل ہوگئی تھی۔ سورج کی ڈوبتی کرنوں نے جھارے کی شکست حیات کو الوداعی سلام کیا تو یہ کشتی برابر چھڑا دی گئی۔ یہ جھارے کی آخری کشتی تھی۔ اس کے بعد وہ اکھاڑے میں تو جاتا تھا مگر زور کرنے سے پرہیز کرتا۔ کشتیاں لڑنے سے تائب ہو گیا۔
بھولو پہلوان جھارے کے عبرتناک انجام سے بہت خوفزدہ رہنے لگا تھا۔ناصر بھولو اور بھولو کی بیگم، بھولو پہلوان کو شکستہ حالت میں دیکھ کر ڈولتے لگتے تھے۔
’’خدا کے لیے خود کو سنبھالیں۔عزت و وقار دینا خدا کا کام ہے۔ اس نے اتنی اقبال مندی دی ہے اب اگر ہمارے نصیبوں میں یہی دن لکھے تھے تو کیسا گلہ۔‘‘بیگم بھولو اپنے میاں کی دلجوئی کرنے کے لیے اسے سمجھاتی۔
’’بیگم میں خدا سے دعا کرتا ہوں مجھے بے کسی کی حالت میں نہ مارے۔ ایسا زوال جو کبھی ہمارے خاندان پر نہ آیا تھا، میرے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے۔ مجھ سے یہ رسوائی برداشت نہیں ہو گی۔‘‘
غم و اندوہ نے بھولو رستم زماں کو نڈھال کر دیا تھا۔ شوگر کا مرض اسے دیمک کی طرح چاٹنے لگا تھا۔انہی دنوں1984ء میں متحدہ عرب امارات سے بلاوا آیا اور بھولو پہلوان ایک نادیدہ خوشی کی امید لے کر پہلوانوں کا جتھا لے کر چلا گیا۔ وہاں ایک روز بھولو پہلوان باتھ روم میں گیا تو پاؤں پھسل جانے سے گر گیا۔ ایک کیل بازو میں گہرائی تک اتر گیا اور پے درپے صدمات کی وجہ سے دماغ جو بھاری ہو چکا تھا،پھٹ گیا۔زخم گہرا تھا تو صدمات کی گہرائی کا اندازہ شمار نہ کیا جا سکتا تھا۔ کافی دیر بے ہوش رہنے کے بعد ہوش آیا تو زخم خوردہ بھولو پہلوان اپنے ناتواں جسم کے ساتھ باہر آیا۔ پہلوانوں کو خبر ہوئی تو ہسپتال لے جانا چاہا مگر پہلوان نے اندازہ کر لیا تھا کہ ڈاکٹر اس کے زخموں کا علاج نہ کر سکیں گے۔ویسے بھی بھولو پہلوان بیرون ملک اپنی پذیرائی دیکھ چکا تھا کہ میزبانوں کے دل میں بھولو پہلوان رستم زماں کے لیے احترام کا گوشہ خالی ہے۔خیر بھولو پہلوان کے علاج کے لیے کوئی غیر معمولی تو درکنار معمول کے مطابق بھی دلچسپی نہ لی گئی۔
واپسی پر بھولو پہلوان کا دل فگار ہونا اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ جھارے کا نشہ اور بدمعاشی کی خبروں نے اس کے زخموں پر نشتر لگائے اور دل غم کے بھاری بوجھ سے ساکت ہو گیا۔بھولو کو اس بار دل کا شدید دورہ پڑا۔ اسے فوراً میو ہسپتال لاہور لے جایا گیا۔ بے مروّتی اور بے حسی کا دور شروع ہو چکا تھا۔ رستم زماں بھولو پہلوان کو جنرل وارڈ میں رکھا گیا۔کمرہ دینے سے انکار کر دیا گیا۔حکومت نے علاج معالجے سے نظریں پھیرلیں۔ دس روز تک موت و حیات کی کشمکش سے نکل کر بھولو پہلوان کو گھر لے جایا گیا۔
بیگم بھولو اور ناصر بھولو اب بھولو پہلوان کی پائنتی سے لگ کر بیٹھ گئے تھے۔پہلوان کو بستر علالت نے اپنے مہیب و شکیب پنجوں میں جکڑ لیا تھا۔ اچھا پہلوان،اکی پہلوان،اعظم پہلوان اور حسّو پہلوان اپنے شاہ زور بھائی کی بے بسی اور علالت پر خوں کے آنسو رو رہے تھے مگر وہ رونے کے سوا کر بھی کیا سکتے تھے۔ ان کے اختیارمیں تقدیر سے لڑنا ہوتا تو اپنے بھائی کو یوں بستر پر چت ہوا نہ رہنے دیتے۔ وہ جو ہمیشہ اس کی ڈھال کر اس کے حریفوں کے پھلکے اڑا دیتے تھے۔بیماریوں کے تندوتیز ہلے کے آگے بالکل بے بس تھے۔وہ اپنے بھائی کی ذرا بھر بھی مدد نہ کر سکتے تھے۔ اسے زخموں کی اذیت سے نہ بچا سکتے تھے،صرف خرچ کر سکتے تھے تو پیسہ۔۔۔ مگر وہ بھی تو ختم ہو چکا تھا۔اگر تھا تو جھارے کی کمائی کا انبار لگا تھا جسے بھولو پہلوان نے یہ کہہ کر دھتکار دیا تھا۔
’’میں بے بسی سے مرنا پسند کرلوں گا جھارے کی کمائی کاایک پیسہ بھی میرے علاج پر خرچ نہ کیا جائے۔‘‘
بھولو پہلوان کا دل غموں کی آماجگاہ بن گیا تھا اور اس بے وفا کے ہاتھوں بے بسی کی تصویر بن کررہ گیا تھا۔ اوپر سے شوگر نے بھی رستم زماں سے گن گن کر بدلے لینا شروع کر دیئے تھے۔انہی دنوں بھولو پہلوان کو پاؤں پر زخم آیا تو شوگر نے زخم بگاڑ دیا۔ ناصر بھولو نے ہسپتال لے جانا چاہا تو انکار کر دیا۔
’’ابا جی خدا کے واسطے حوصلے کے ساتھ علاج کرائیں۔ آپ کو دیکھ کر میرادل بھی ڈوبنے لگتا ہے۔‘‘
’’ناپترا!تو ہمت نہ ہار۔‘‘بھولو اسے سمجھاتا اور پُر خیال لہجے میں کہتا۔’’ناصر پتر میرے پاؤں کا زخم تو کچھ بھی نہیں ہے۔ دل کے زخموں سے بڑا تو نہیں ہے۔ اس کا علاج کرانے سے کیا ہو گا۔ رہنے دو۔جو خدا کو منظور ہے وہ ہو کر ہی رہے گا۔‘‘
ناصر اور بیگم بھولو ضد کرکے بھولو پہلوان کو ہسپتال لے گئے۔ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ شوگر زخم بھرنے نہیں دے گی اور اب زخم بھی بگڑ چکا ہے۔لہٰذا پہلوان صاحب کے پاؤں کی انگلیاں کاٹے بغیر چارہ نہیں۔
یہ بڑا حوصلہ آزما مرحلہ تھا۔ بھولو پہلوان کی انگلیاں کیا کاٹ دی گئیں، بھولو برادران کے دل بھی کٹ گئے تھے۔ شوگر جاں لیوا بیماری ہے۔ اس نے انگلیاں بھینٹ لے کر بھی رستم زماں کو نہ چھوڑا اور اپنے خونی پنجے پہلوان کے پاؤں تک پھیلا دیئے۔ اب ڈاکٹروں نے کہا۔’’پہلوان جی کی زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے کہ پاؤں کاٹ دیا جائے۔‘‘
بھولو پہلوان نے یہ سنا تو بڑے حوصلہ سے کہا۔’’میں نہ کہتا تھا کہ کچھ فائدہ نہ ہو گا۔‘‘
ناصر بھولو پر رقت طاری تھی۔ اس نے بھولو پہلوان سے کہا۔’’ابا حضور آپ ۔۔۔‘‘ اس روز حوصلہ مند ناصر کچھ نہ بول سکا۔ قدرت کی ستم ظریفی پر جی بھر کر رویا۔بھولو نے دیکھا تو کہا۔’’ناصر،شیر جوان پتر روتے نہیں ہیں۔‘‘
پاس ہی بھولو پہلوان کی وفا شعاری بیوی کھڑی تھی۔بھولو پہلوان نے بیگم کو دیکھا تو کہا۔
’’ناصر وعدہ کرو، اپنی ماں کا ہر دم خیال رکھو گے۔اسے کبھی تنہا نہ چھوڑو گے۔‘‘
ان دنوں ناصر بھولو کی شادی حاجی افضل پہلوان کی بھتجی سے ہو چکی تھی اور وہ صاحب اولاد ہو چکا تھا۔ بھولو پہلوان نے اس کے بچوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔’’ناصر پتر تو ہمارا خون ہے۔ اگرچہ ہم نے تمہیں جنم نہیں دیا مگر تو ہمارا جگر گوشہ ہی تو ہے۔ تو نے اپنا حق ادا کیا ہے۔ تیری تابعداری میں کبھی فرق نہیں آیا۔ مجھے امید ہے کہ تو ہمیشہ اپنی ماں کی خدمت میں کمی نہیں کرے گا۔‘‘
ڈاکٹروں نے ناصر بھولو کی اجازت کے بعد بھولو پہلوان کا وہ پاؤں کاٹ دیا جو کبھی تباہ کن پبی مار کر حریف کو نڈھال کر دیتا تھا۔بیماریاں بھولو رستم زماں سے گن گن کر بدلے چکا رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا بیماریاں نون خاندان کے تمام بدلے بھولو پہلوان سے ہی لیں گی۔پاؤں کٹنے کے بعد مرض بڑھتا گیا اوربات ٹانگ کاٹنے تک پہنچ گئی۔ بالآخر ڈاکٹروں نے رستم زماں بھولو پہلوان کی ٹانگ بھی کاٹ دی(جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر86 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں