مثالی پولیس کی ’’مثالی کارکردگی‘‘
پشاور یونیورسٹی میں طلباء کے احتجاج، ان پر پولیس تشدد اور گرفتاریوں کے بعد اب یہ اطلاع ہے کہ گزشتہ روز (جمعہ) کیمپس میں امن رہا، یونیورسٹی کے طلباء نے ٹیوشن فیسوں میں ناروا اضافے کے خلاف احتجاج کیا اور یونیورسٹی حدود میں مظاہرہ کرکے نعرہ بازی کی، انتظامیہ نے پولیس طلب کرلی جس نے طلباء و طالبات پر باقاعدہ طور پر لاٹھی چارج کردیا، جو اب میں بعض طلباء اور اہل کاروں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی، تاہم پولیس تشدد سے متعدد طلباء اور طالبات زخمی ہوگئیں جن کو علاج کے لئے ہسپتال لے جانا پڑا، کئی زیادہ زخمی ہوئے جو اب بھی زیر علاج ہیں ان میں طالبات بھی ہیں طلباء کاموقف ہے کہ وہ پرامن تھے، یونیورسٹی انتظامیہ نے فیسوں میں اضافہ کیا تو احتجاج پر مجبور ہوئے جو ان کا حق ہے، مگر بات چیت یا مطالبات سن کر پورا کرنے کی بجائے تشدد کیا گیا، متعدد مظاہرین کو گرفتار کرکے تھانوں میں بند کیا گیا۔کے پی کے کی حکومت کے ترجمان یوسف زئی نے وضاحت کی کہ دو سال سے فیسوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا اور اب جو اضافہ ہوا وہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی طرف سے ہوا تھا، اس میں حکومت کا دخل نہیں، پولیس تو یونیورسٹی انتظامیہ کی شکایت پر گئی تھی، انہوں نے گرفتار طلباء کی رہائی اور طلباء نمائندوں سے مذاکرات کا بھی اعلان کیا تھا، ترجمان یوسف زئی نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس ہنگامے کے پیچھے کچھ اور ہے۔ یہ واقع اپنی جگہ افسوس ناک ہے خصوصاً تعلیم اور طلباء کی حامی تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے چیئرمین وزیر اعظم عمران خان کے دعوؤں ہی کا خیال رکھنا چاہئے تھا جن کے مطابق خیبرپختونخوا کی پولیس رول ماڈل اور مثالی ہے اور تعلیم ان کے یقین کامل کا حصہ ہے، ایسا ہے تو پھر یہ ’’مثالی کارکردگی‘‘ تو نہ ہوئی ایسی حرکتیں تو پولیس ہمیشہ کرتی آئی ہے۔ اس کے علاوہ ترجمان یوسف زئی نے بھی روائتی بیان دیا ہے۔بہرحال یہ بہتر ہوا کہ حالات سنبھل گئے تشدد وہ بھی پولیس تشدد کسی طور پر بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا، طلباء سے پہلے بھی مذاکرات ہوسکتے تھے، اب بھی اگر معاملہ مذاکرات ہی سے حل ہوتے جارہا ہے تو اس کا خیرمقدم ہی کیا جاسکتا ہے، حکومت کا فرض ہے کہ گرفتار طلباء کورہا کرنے کا جو اعلان کیا اس پر فوراً اور مکمل عمل کرے، طلباء کے خلاف مقدمات بھی واپس لئے جائیں اور زخمیوں کی پوری طرح دیکھ بھال ہو اور ان کو علاج کی بہترین سہولتیں فراہم کی جائیں، مسائل کا حل مذاکرات ہی میں ہوتا ہے، بہتر ہے کہ ان کے ساتھ تفصیلی بات چیت کرکے ان کے موقف سے آگاہی حاصل کی جائے اور ہر جائز بات کو تسلیم کیا جائے۔