ہندوستان کا عرب ریاستوں پر اثر و رسوخ
پاکستان کے پڑھے لکھے لوگ عموماً یہ شکایت کرتے ہیں کہ ”برادر“ عرب ممالک پاکستان کے ساتھ وہ التفا ت نہیں برتتے جو وہ ہندوستان سے کرتے ہیں۔ پہلے تو یہ بتا دوں کہ ”مسلم اُمہ“ کا طوطا پاکستان نے ہی پالا ہوا ہے۔ اِقتصادیات، سیاست اور ڈپلومیسی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں مذہبی فیکٹر کہیں نہیں آتا۔موجودہ عرب ریاستوں کا اور ہندو کاروباریوں کا تعلق 250 سال پُرانا ہے۔ پاکستان کی تو عمر ہی 72سال ہے۔ 1947ء سے قبل پاکستانی خطے سے کوئی بھی قابل ِ ذکر مسلمان عرب ریاستوں میں اتنی تعداد میں کبھی نہیں گئے تھے۔
سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے اہلِ ہُنر البتہ بحرین اورکویت ضرور گئے تھے لیکن ہندو مارواڑیوں یا انگریزوں کے ملازم بن کر۔ یہ 1820ء سے بھی پہلے کی بات ہے جب خلیج فارس پر واقع تمام ساحلی پٹی پر چھوٹے بڑے عرب بدّو سرداروں یا شیخوں کی عملداری ہوا کرتی تھی۔ انگریزی سامراج کا اثر و رسوخ اس علاقے میں ہو چکا تھا۔ یہ بدّوشیخ نہائت غریب اور عموماً بے روزگار ہوتے تھے۔ اونٹ اور بھیڑ بکریاں چراتے تھے لیکن کہلاتے شیخ تھے۔اِن شیخوں کی ریاستوں سے ملحقہ سمندروں سے موتی نکالنے کا کاروبار ہندوستانیوں اور ایرانیوں کے پاس تھا۔ سمندر سے موتی نکالنے کے عوض کاروباری ہندوستانی اور ایرانی ساحلی علاقے کے شیخوں کو کچھ رقم گذارے کے لئے دیا کرتے تھے، لیکن اُس رقم سے تمام قبیلے جو اِن شیخوں کے زیر اثر ہوتے تھے مطمین نہیں ہو سکتے تھے۔
لہٰذا بحری قزاق خلیج فارس میں عام ہوگئے۔ یہ Sea pirates اکثر لوٹ مار کرتے اور اِن کا نشانہ موتیوں کے تاجر ہی ہوتے کیونکہ اُن کی مالی حالت کا ساحلی بدّوں کو معلوم ہوتا تھا۔ یہ ہی بدّو Season میں غوطہ خوری کر کے سمندر سے موتی نکالتے تھے۔ اِن ریاستوں کے شیخوں کا سمندری ڈاکوں پر کوئی کنٹرول نہ تھا لہٰذا اِن شیخوں نے اجتماعی طور پر انگریزوں سے ایک قسم کا صلح نامہ کر کے Protection طلب کی۔ یہ سب کام ایک تحریری معاہدہ کے ذریعے سے1820 میں ہوا۔ اِن تمام Sheikdoms کو انگریز نے Trucial states کا نام دے دیا اور یہ ریاستیں 1971ء تک ٹروشیل اسٹیٹس ہی کہلاتی رہیں۔ اِن میں UAE کی سات ریاستوں کے علاوہ بحرین اور کویت بھی شامل ہوگئے۔ ظہور اسلام سے پہلے یہ تمام خطہ ایرانیوں کے قبضے میں تھا۔ بنی اُمیّہ کے زمانے میں یہ تمام علاقہ مسلمان ہو چکا تھا، لیکن 18ویں صدی تک اقتصادی اور ثقافتی طور پر یہ بے خانماں بدّو ہی رہے۔
گذشتہ 250 سال میں برصغیر سے موتی نکالنے کا کاروبار ایرانیوں کے علاوہ سندھی مارواڑیوں نے بھی شروع کر دیا۔ 1833ء میں المکتوم خاندان کے پاس دبئی کی اِمارت آ گئی۔ دبئی ایک بے آب و گیاہ بنجر سر زمین کا خطہ تھا جس پر ایرانی اثر و رسوخ زیادہ تھا۔ ایران کے بعد ہندوستان سے تجارتی تعلق ایسٹ اِنڈیا کمپنی کے زمانے سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ مچھلیاں اور سمندری موتی کی Seasonal تجارت ہوتی تھی۔ دبئی کے نزدیک ترین دو بندر گاہیں تھیں۔ ایران کی بندر عباس تھی جو خلیج فارس یا خلیج عرب کے سمندر کے ساتھ لگتی ہے اور دوسری کراچی کی بندر گاہ تھی،جو ہندوستان (آج کا پاکستان) کے صوبہ سندھ کے ساتھ بحرہ عرب کے ساحل پر واقع ہے۔ ڈیرھ دو سو سال قبل لکڑی کی بنی ہوئی کشتی (Dhow) میں 10 روز کے سفر کے بعد کراچی سے دبئی پہنچا جا سکتا تھا۔ ایران کی بندرعباس دبئی سے صرف 3گھنٹے کی سمندری مسافت پر واقع ہے۔
سندھ میں ابھی انگریز کی حکومت نہیں آئی تھی۔ سندھ کے نواب،وڈیرے، سیدّ، اور سجادہ نشین اپنی اپنی ریاستوں اور جاگیروں میں حکومت کے مزے لُوٹ رہے تھے اور اِن کے مسلمان عوام غربت کی چکّی میں پِس رہے تھے۔ مجہولیت اور قسمت پرستی کے مارے ہوئے سندھی مسلمان اپنے حال میں مست تھے۔ اُن کا یہ مقولہ ابھی تک سندھی مسلمانوں میں مقبول ہے ”مچھی مانی کھا۔ سندھ چَھڈکے نہ جا“یعنی مچھی روٹی کھاؤ لیکن سندھ چھوڑ کر پردیس نہ جاؤ۔ اِسی سرزمین کا ہندو بنیا نہائت چُست و چالاک اور Viberant تھا اور ابھی بھی ہے۔ 1962ء میں جب میری پہلی پوسٹنگ سکھر میں ہوئی تو اُس وقت بھی میَں سندھیوں کا یہ مقولہ سُنتا تھا۔ اس کے برعکس سندھی ہندو ٹھاکر یا بنیئے کو دھندے اور روزگار کے لئے پردیس جانے میں کوئی عار نہ تھی۔
یہی وجہ ہے کہ آج تمام مِڈل ایسٹ میں، مشرقی افریقہ میں، ھانگ کانگ اور یہاں تک کہ لندن کی بڑی تجارتی مارکیٹوں میں ہمیں سندھی ہندو نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایسے ہندو مارواڑی خاندان بھی ہیں جو18ویں اور 19ویں صدی میں ان صحرائی خطّوں میں کاروبار کے لئے نہائت جاں گسل حالات میں آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ تمام UAE میں نہ سڑکیں تھیں،نہ پینے کا وافر پانی، باربرداری گدھوں اور اونٹوں پر ہوتی تھی۔ بجلی کا نام و نشان نہ تھا۔ اس سر زمین پر نہ سبزی اور پھل اُگتے تھے۔ اُن سخت حالات میں سندھی ٹھاکراِن علاقوں میں آباد ہوئے،چونکہ اُس وقت سندھ متحدہ ہندوستان کا حصہ تھا اس لئے اِنڈیا سے آیا ہوا ہر شخص خواہ سندھی تھا یا مالاباری، ہندی کہلاتا تھا۔
برصغیر کے پاکستانی علاقے سے کوئی مسلمان اِن صحرائی ریاستوں میں کام کاج کے لئے نہیں گیا۔ ہندومارواڑی اپنی ترقی کے علاوہ اس علاقے کی ترقی میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ شیخوں کو قرض کی ضرورت ہر وقت رہتی تھی۔ یہ مارواڑی ہی قرض دینے میں کام آتے تھے۔
اُس وقت ہندوستانی روپیہ تمام ریاستوں میں بشمول بحرین، کویت اورقطربطور Legel tender زیرِ گردش تھا۔ تقسیم ِ ہند کے بعد 1959ء تک ہندوستانی روپیہ ہی قانونی کرنسی تھا۔ دبئی میں پہلا بجلی گھر سیٹھ پغن مَل پنچو لیا نے 1957ء میں بنایا تھا۔ اُس سے پہلے شیخ مکتوم کے گھر میں بھی لالٹین جلتی تھی۔ یہ سیٹھ 95 سال کی عمر میں 2019ء میں فوت ہوا۔اس کے کِریا کرم میں دبئی حکومت سرکاری طور پر شریک ہوئی تھی۔ اِسی دوران متحدہ ہندوستان کے صوبہ کیرالہ کے ہندو اور مسلمان کاروبار اور ملازمتوں کے لئے پوری عرب دنیا میں پھیل گئے۔ 1940ء تک تمام UAE کی ریاستوں میں بشمول کویت اوربحرین ویزہ سسٹم نہیں تھا۔ بندر گاہوں پر ہی انگریز پولیٹیکل ایجنٹ پرمٹ جاری کر دیتا تھا۔ کاروبار کرنے کے لئے کسی کفیل کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ 1960ء تک کسی کفیل کی ضرورت نہ تھی۔ ہندو تاجر وں نے سندھ، کیرالا اور تامل ناڈ سے جوق در جوق تمام GCC ممالک میں آکر ہر قسم کی تجارت اور سروس اِنڈسٹری کو شروع کیا۔
اس اِثنا میں صرف ایک معمولی سامسلمان جس کا نام یوسف علی ہے جو کیرالہ کا تھا دبئی میں 1973 میں آیا۔ 2000ء میں LuLu سُوپر مارکیٹ کے نام سے کام شروع کیا اور آج اُس کی 176 شاخیں UAE، مِڈل ایسٹ، افریقہ اور یورپ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ LuLu کا فوڈ، ٹیکسٹائل اور جنرل مرچنٹ کا سب سے بڑا کاروبار ہے۔ 56000 سے زیادہ مالا باری اور دوسری قومیتوں کے ملازم ہیں۔ LuLu ہائپر مارکیٹ کے حوالے سے اِنڈیا کا ہی نام آتا ہے۔ یوسف علی تمام مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کا امیر ترین ہندوستانی ہے جوUAE کے بڑے بڑے فلاحِ عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے ۔UAE کے ہندو سیٹھ بھی سکول، ہسپتال بنانے میں آگے آگے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کا تو ایسے کاموں میں نام تک نہیں ہے۔
عرب ریاستوں بشمول سعودی عربیہ میں ہندوستانی اثر و رسوخ ایک دوسرے طریقے سے بھی آیا۔ تیل کی دولت سے پہلے تمام بلادالعربیہ غریب اور فاقہ مست تھا۔ جزیرۃ العرب میں واقع سعودی عرب بھی فاقہ مستوں میں شامل تھا۔ حاجیوں کی آمدنی کے علاوہ کھجوروں کی قلیل تجارت سے سعودیوں کا بمشکل گزارہ ہوتا تھا۔ حرمین شریفین کی سالانہ تزین و آرائش اور Maintenace بھی پاکستان کے ذمے1960ء تک تھی۔ سعودیوں کا مرکزی بینک پاکستان نے ہی قائم کیا تھا۔ پاکستانی نژاد میاں انور علی اس بینک کے پہلے گورنر تھے جو اپنی وفات تک رہے،لیکن 1973ء کے بعد سعودیوں کا رُخ بھی ہندوستان کی طرف ہو گیا۔
18ویں صدی کے نظام حیدر آباد نے اپنی Army کی اَفرادی قوت کے لئے حضرموت کے عربوں کو لاکھوں کی تعداد میں حیدر آباد میں آباد کیا۔ ایک لاکھ بیس ہزار افراد کی مکمل آرمی حضرمی عربوں پرمشتمل تھی۔ اِن عربوں کے خاندان حیدر آباد میں آباد ہو گئے اور 2 صدیوں کے بعد قریباً 42 لاکھ حضرمی عرب اُردو بولنے والے حیدر آبادی بن چکے تھے۔ حضرمی فوج کا نام نظام نے ”چاؤش“ رکھا جو ترکی زبان کا لفظ تھا۔ گو حیدر آباد ریاست ختم ہو چکی تھی، لیکن حضرمی عربوں کی اولادیں حیدر آباد کے عربی محلوں میں اَب بھی آباد ہیں۔ 1938ء کے بعد جب سعودی عربیہ، کویت اور بحرین میں تیل دریافت ہوا تو اَفرادی قوت کے لئے سب سے پہلے حیدر آبادی عربوں اور اُن کی اُردو سپیکنگ اولادوں کو تر جیح دی گئی۔ اِن حضرمی ہندوستانیوں کو بغیر تردّد کے سعودی عربیہ اور دِگر عرب ممالک کی شہریت مل گئی۔ حضرمی ہندوستانی پڑھے لکھے تھے، ڈاکٹر، انجینئر، اکاؤٹنٹ اور صحافی تھے۔ عرب ملکوں کی معاشرتی اور معاشی ترقی میں اِن حضرمی عرب ہندوستانیوں کا بہت کردار تھا۔ جب تک میَں سعودی عربیہ میں تھا (1987ء تک) حضرمی سعودی کنسٹرکشن اِنڈسٹری، بینکنگ، نشر و اعشاعت (روزنامہ عرب نیوز اور االعکاز کی اِدارت اُردو سپیکنگ حضرمیوں کے پاس تھی)۔
بینک الاھلی لتجارہ، الراجہی، بن لادن، العمودی اور باروم وغیرہ خاندان حضرمی تھے۔ سعودی عربیہ کی ہندوستان سے تجارت 29 ارب ڈالر کی ہے۔ سعودی عرب میں ہندو تاکینِ وطن 27 لاکھ ہیں جن میں TATA اور امبانی کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ سعودی عربیہ کی آرامکو کمپنی نے امبانی کی Reliance انڈسٹری کے 20فیصد حصص خرید ے ہیں۔ 75 ارب ڈالر مزید کیمیکل انڈسٹری میں Invest کئے ہیں۔ GCC ممالک میں بھی حضرمی اور مالا باری مسلمان اکثریت میں ہیں۔ تجارت اور بڑی صنعتیں ہندو مارواڑیوں کی شراکت سے قائم ہیں۔ اس تمام رُو داد کو سُنانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جذباتی پاکستانی عربوں کو بہت مقدس مقام دیتے ہیں اور اُن سے Reciprocity کی توقع رکھتے ہیں اور جب عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے کم علم عوام رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ عرب ممالک ہندوستان کو پاکستانیوں پر کیوں فوقیت دیتے ہیں۔ پاکستانیوں کو حقیقت پسند ہونا چاہئے۔ عرب ممالک کی ہمارے لئے وہ ہی حیثیت ہونی چاہئے جو دوسرے دوست لیکن غیر مسلم ممالک کی ہے۔
محض مسلمان ہونے کی وجہ سے عربوں کو ہم سے کوئی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ سچ پوچھو تو تاریخی طور پر ہمارا رول عرب ممالک کی اقتصادی اور صنعتی ترقی میں کہیں نظر نہیں آتا سوائے کچھ رہائشی ٹاور اور پلازے بنانے کے۔ ہندوستان کا عربوں سے تعلق ظہورِ اسلام سے پہلے کا ہے۔ عرب تاجر ہندوستان کے سمنددری راستوں کے ماہر تھے۔ اِنڈیا کے ساحلی علاقوں میں جو اسلام ہمیں نظر آتا ہے وہ عرب تاجروں ہی کی وجہ سے ہے۔ ہندوستان میں پیدا ہونے والا بریلوی مسلک ہندوستان کے جنوب میں بالکل نہیں ہے۔ وہاں کا مسلمان اپنے آپ کو عربوں سے زیا دہ قریب پاتا ہے۔
ہندوستان کا عرب ریاستوں پر اثر و رسوخ
پاکستان کے پڑھے لکھے لوگ عموماً یہ شکایت کرتے ہیں کہ ”برادر“ عرب ممالک پاکستان کے ساتھ وہ التفا ت نہیں برتتے جو وہ ہندوستان سے کرتے ہیں۔ پہلے تو یہ بتا دوں کہ ”مسلم اُمہ“ کا طوطا پاکستان نے ہی پالا ہوا ہے۔ اِقتصادیات، سیاست اور ڈپلومیسی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں مذہبی فیکٹر کہیں نہیں آتا۔موجودہ عرب ریاستوں کا اور ہندو کاروباریوں کا تعلق 250 سال پُرانا ہے۔ پاکستان کی تو عمر ہی 72سال ہے۔ 1947ء سے قبل پاکستانی خطے سے کوئی بھی قابل ِ ذکر مسلمان عرب ریاستوں میں اتنی تعداد میں کبھی نہیں گئے تھے۔ سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے اہلِ ہُنر البتہ بحرین اورکویت ضرور گئے تھے لیکن ہندو مارواڑیوں یا انگریزوں کے ملازم بن کر۔ یہ 1820ء سے بھی پہلے کی بات ہے جب خلیج فارس پر واقع تمام ساحلی پٹی پر چھوٹے بڑے عرب بدّو سرداروں یا شیخوں کی عملداری ہوا کرتی تھی۔
انگریزی سامراج کا اثر و رسوخ اس علاقے میں ہو چکا تھا۔ یہ بدّوشیخ نہائت غریب اور عموماً بے روزگار ہوتے تھے۔ اونٹ اور بھیڑ بکریاں چراتے تھے لیکن کہلاتے شیخ تھے۔اِن شیخوں کی ریاستوں سے ملحقہ سمندروں سے موتی نکالنے کا کاروبار ہندوستانیوں اور ایرانیوں کے پاس تھا۔ سمندر سے موتی نکالنے کے عوض کاروباری ہندوستانی اور ایرانی ساحلی علاقے کے شیخوں کو کچھ رقم گذارے کے لئے دیا کرتے تھے، لیکن اُس رقم سے تمام قبیلے جو اِن شیخوں کے زیر اثر ہوتے تھے مطمین نہیں ہو سکتے تھے۔ لہٰذا بحری قزاق خلیج فارس میں عام ہوگئے۔ یہ Sea pirates اکثر لوٹ مار کرتے اور اِن کا نشانہ موتیوں کے تاجر ہی ہوتے کیونکہ اُن کی مالی حالت کا ساحلی بدّوں کو معلوم ہوتا تھا۔
یہ ہی بدّو Season میں غوطہ خوری کر کے سمندر سے موتی نکالتے تھے۔ اِن ریاستوں کے شیخوں کا سمندری ڈاکوں پر کوئی کنٹرول نہ تھا لہٰذا اِن شیخوں نے اجتماعی طور پر انگریزوں سے ایک قسم کا صلح نامہ کر کے Protection طلب کی۔ یہ سب کام ایک تحریری معاہدہ کے ذریعے سے1820 میں ہوا۔ اِن تمام Sheikdoms کو انگریز نے Trucial states کا نام دے دیا اور یہ ریاستیں 1971ء تک ٹروشیل اسٹیٹس ہی کہلاتی رہیں۔ اِن میں UAE کی سات ریاستوں کے علاوہ بحرین اور کویت بھی شامل ہوگئے۔ ظہور اسلام سے پہلے یہ تمام خطہ ایرانیوں کے قبضے میں تھا۔ بنی اُمیّہ کے زمانے میں یہ تمام علاقہ مسلمان ہو چکا تھا، لیکن 18ویں صدی تک اقتصادی اور ثقافتی طور پر یہ بے خانماں بدّو ہی رہے۔
گذشتہ 250 سال میں برصغیر سے موتی نکالنے کا کاروبار ایرانیوں کے علاوہ سندھی مارواڑیوں نے بھی شروع کر دیا۔ 1833ء میں المکتوم خاندان کے پاس دبئی کی اِمارت آ گئی۔ دبئی ایک بے آب و گیاہ بنجر سر زمین کا خطہ تھا جس پر ایرانی اثر و رسوخ زیادہ تھا۔ ایران کے بعد ہندوستان سے تجارتی تعلق ایسٹ اِنڈیا کمپنی کے زمانے سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ مچھلیاں اور سمندری موتی کی Seasonal تجارت ہوتی تھی۔ دبئی کے نزدیک ترین دو بندر گاہیں تھیں۔ ایران کی بندر عباس تھی جو خلیج فارس یا خلیج عرب کے سمندر کے ساتھ لگتی ہے اور دوسری کراچی کی بندر گاہ تھی،جو ہندوستان (آج کا پاکستان) کے صوبہ سندھ کے ساتھ بحرہ عرب کے ساحل پر واقع ہے۔ ڈیرھ دو سو سال قبل لکڑی کی بنی ہوئی کشتی (Dhow) میں 10 روز کے سفر کے بعد کراچی سے دبئی پہنچا جا سکتا تھا۔ ایران کی بندرعباس دبئی سے صرف 3گھنٹے کی سمندری مسافت پر واقع ہے۔
سندھ میں ابھی انگریز کی حکومت نہیں آئی تھی۔ سندھ کے نواب،وڈیرے، سیدّ، اور سجادہ نشین اپنی اپنی ریاستوں اور جاگیروں میں حکومت کے مزے لُوٹ رہے تھے اور اِن کے مسلمان عوام غربت کی چکّی میں پِس رہے تھے۔ مجہولیت اور قسمت پرستی کے مارے ہوئے سندھی مسلمان اپنے حال میں مست تھے۔ اُن کا یہ مقولہ ابھی تک سندھی مسلمانوں میں مقبول ہے ”مچھی مانی کھا۔ سندھ چَھڈکے نہ جا“یعنی مچھی روٹی کھاؤ لیکن سندھ چھوڑ کر پردیس نہ جاؤ۔ اِسی سرزمین کا ہندو بنیا نہائت چُست و چالاک اور Viberant تھا اور ابھی بھی ہے۔ 1962ء میں جب میری پہلی پوسٹنگ سکھر میں ہوئی تو اُس وقت بھی میَں سندھیوں کا یہ مقولہ سُنتا تھا۔ اس کے برعکس سندھی ہندو ٹھاکر یا بنیئے کو دھندے اور روزگار کے لئے پردیس جانے میں کوئی عار نہ تھی۔
یہی وجہ ہے کہ آج تمام مِڈل ایسٹ میں، مشرقی افریقہ میں، ھانگ کانگ اور یہاں تک کہ لندن کی بڑی تجارتی مارکیٹوں میں ہمیں سندھی ہندو نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایسے ہندو مارواڑی خاندان بھی ہیں جو18ویں اور 19ویں صدی میں ان صحرائی خطّوں میں کاروبار کے لئے نہائت جاں گسل حالات میں آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ تمام UAE میں نہ سڑکیں تھیں،نہ پینے کا وافر پانی، باربرداری گدھوں اور اونٹوں پر ہوتی تھی۔ بجلی کا نام و نشان نہ تھا۔ اس سر زمین پر نہ سبزی اور پھل اُگتے تھے۔ اُن سخت حالات میں سندھی ٹھاکراِن علاقوں میں آباد ہوئے،چونکہ اُس وقت سندھ متحدہ ہندوستان کا حصہ تھا اس لئے اِنڈیا سے آیا ہوا ہر شخص خواہ سندھی تھا یا مالاباری، ہندی کہلاتا تھا۔
برصغیر کے پاکستانی علاقے سے کوئی مسلمان اِن صحرائی ریاستوں میں کام کاج کے لئے نہیں گیا۔ ہندومارواڑی اپنی ترقی کے علاوہ اس علاقے کی ترقی میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ شیخوں کو قرض کی ضرورت ہر وقت رہتی تھی۔ یہ مارواڑی ہی قرض دینے میں کام آتے تھے۔ اُس وقت ہندوستانی روپیہ تمام ریاستوں میں بشمول بحرین، کویت اورقطربطور Legel tender زیرِ گردش تھا۔ تقسیم ِ ہند کے بعد 1959ء تک ہندوستانی روپیہ ہی قانونی کرنسی تھا۔ دبئی میں پہلا بجلی گھر سیٹھ پغن مَل پنچو لیا نے 1957ء میں بنایا تھا۔ اُس سے پہلے شیخ مکتوم کے گھر میں بھی لالٹین جلتی تھی۔
یہ سیٹھ 95 سال کی عمر میں 2019ء میں فوت ہوا۔اس کے کِریا کرم میں دبئی حکومت سرکاری طور پر شریک ہوئی تھی۔ اِسی دوران متحدہ ہندوستان کے صوبہ کیرالہ کے ہندو اور مسلمان کاروبار اور ملازمتوں کے لئے پوری عرب دنیا میں پھیل گئے۔ 1940ء تک تمام UAE کی ریاستوں میں بشمول کویت اوربحرین ویزہ سسٹم نہیں تھا۔ بندر گاہوں پر ہی انگریز پولیٹیکل ایجنٹ پرمٹ جاری کر دیتا تھا۔ کاروبار کرنے کے لئے کسی کفیل کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ 1960ء تک کسی کفیل کی ضرورت نہ تھی۔ ہندو تاجر وں نے سندھ، کیرالا اور تامل ناڈ سے جوق در جوق تمام GCC ممالک میں آکر ہر قسم کی تجارت اور سروس اِنڈسٹری کو شروع کیا۔ اس اِثنا میں صرف ایک معمولی سامسلمان جس کا نام یوسف علی ہے جو کیرالہ کا تھا دبئی میں 1973 میں آیا۔ 2000ء میں LuLu سُوپر مارکیٹ کے نام سے کام شروع کیا اور آج اُس کی 176 شاخیں UAE، مِڈل ایسٹ، افریقہ اور یورپ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ LuLu کا فوڈ، ٹیکسٹائل اور جنرل مرچنٹ کا سب سے بڑا کاروبار ہے۔ 56000 سے زیادہ مالا باری اور دوسری قومیتوں کے ملازم ہیں۔ LuLu ہائپر مارکیٹ کے حوالے سے اِنڈیا کا ہی نام آتا ہے۔ یوسف علی تمام مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کا امیر ترین ہندوستانی ہے جوUAE کے بڑے بڑے فلاحِ عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے ۔UAE کے ہندو سیٹھ بھی سکول، ہسپتال بنانے میں آگے آگے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کا تو ایسے کاموں میں نام تک نہیں ہے۔
عرب ریاستوں بشمول سعودی عربیہ میں ہندوستانی اثر و رسوخ ایک دوسرے طریقے سے بھی آیا۔ تیل کی دولت سے پہلے تمام بلادالعربیہ غریب اور فاقہ مست تھا۔ جزیرۃ العرب میں واقع سعودی عرب بھی فاقہ مستوں میں شامل تھا۔ حاجیوں کی آمدنی کے علاوہ کھجوروں کی قلیل تجارت سے سعودیوں کا بمشکل گزارہ ہوتا تھا۔ حرمین شریفین کی سالانہ تزین و آرائش اور Maintenace بھی پاکستان کے ذمے1960ء تک تھی۔ سعودیوں کا مرکزی بینک پاکستان نے ہی قائم کیا تھا۔ پاکستانی نژاد میاں انور علی اس بینک کے پہلے گورنر تھے جو اپنی وفات تک رہے،لیکن 1973ء کے بعد سعودیوں کا رُخ بھی ہندوستان کی طرف ہو گیا۔
18ویں صدی کے نظام حیدر آباد نے اپنی Army کی اَفرادی قوت کے لئے حضرموت کے عربوں کو لاکھوں کی تعداد میں حیدر آباد میں آباد کیا۔ ایک لاکھ بیس ہزار افراد کی مکمل آرمی حضرمی عربوں پرمشتمل تھی۔ اِن عربوں کے خاندان حیدر آباد میں آباد ہو گئے اور 2 صدیوں کے بعد قریباً 42 لاکھ حضرمی عرب اُردو بولنے والے حیدر آبادی بن چکے تھے۔ حضرمی فوج کا نام نظام نے ”چاؤش“ رکھا جو ترکی زبان کا لفظ تھا۔ گو حیدر آباد ریاست ختم ہو چکی تھی، لیکن حضرمی عربوں کی اولادیں حیدر آباد کے عربی محلوں میں اَب بھی آباد ہیں۔ 1938ء کے بعد جب سعودی عربیہ، کویت اور بحرین میں تیل دریافت ہوا تو اَفرادی قوت کے لئے سب سے پہلے حیدر آبادی عربوں اور اُن کی اُردو سپیکنگ اولادوں کو تر جیح دی گئی۔ اِن حضرمی ہندوستانیوں کو بغیر تردّد کے سعودی عربیہ اور دِگر عرب ممالک کی شہریت مل گئی۔ حضرمی ہندوستانی پڑھے لکھے تھے، ڈاکٹر، انجینئر، اکاؤٹنٹ اور صحافی تھے۔ عرب ملکوں کی معاشرتی اور معاشی ترقی میں اِن حضرمی عرب ہندوستانیوں کا بہت کردار تھا۔
جب تک میَں سعودی عربیہ میں تھا (1987ء تک) حضرمی سعودی کنسٹرکشن اِنڈسٹری، بینکنگ، نشر و اعشاعت (روزنامہ عرب نیوز اور االعکاز کی اِدارت اُردو سپیکنگ حضرمیوں کے پاس تھی)۔ بینک الاھلی لتجارہ، الراجہی، بن لادن، العمودی اور باروم وغیرہ خاندان حضرمی تھے۔ سعودی عربیہ کی ہندوستان سے تجارت 29 ارب ڈالر کی ہے۔ سعودی عرب میں ہندو تاکینِ وطن 27 لاکھ ہیں جن میں TATA اور امبانی کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ سعودی عربیہ کی آرامکو کمپنی نے امبانی کی Reliance انڈسٹری کے 20فیصد حصص خرید ے ہیں۔ 75 ارب ڈالر مزید کیمیکل انڈسٹری میں Invest کئے ہیں۔ GCC ممالک میں بھی حضرمی اور مالا باری مسلمان اکثریت میں ہیں۔ تجارت اور بڑی صنعتیں ہندو مارواڑیوں کی شراکت سے قائم ہیں۔ اس تمام رُو داد کو سُنانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جذباتی پاکستانی عربوں کو بہت مقدس مقام دیتے ہیں اور اُن سے Reciprocity کی توقع رکھتے ہیں اور جب عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے کم علم عوام رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ عرب ممالک ہندوستان کو پاکستانیوں پر کیوں فوقیت دیتے ہیں۔ پاکستانیوں کو حقیقت پسند ہونا چاہئے۔ عرب ممالک کی ہمارے لئے وہ ہی حیثیت ہونی چاہئے جو دوسرے دوست لیکن غیر مسلم ممالک کی ہے۔
محض مسلمان ہونے کی وجہ سے عربوں کو ہم سے کوئی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ سچ پوچھو تو تاریخی طور پر ہمارا رول عرب ممالک کی اقتصادی اور صنعتی ترقی میں کہیں نظر نہیں آتا سوائے کچھ رہائشی ٹاور اور پلازے بنانے کے۔ ہندوستان کا عربوں سے تعلق ظہورِ اسلام سے پہلے کا ہے۔ عرب تاجر ہندوستان کے سمنددری راستوں کے ماہر تھے۔ اِنڈیا کے ساحلی علاقوں میں جو اسلام ہمیں نظر آتا ہے وہ عرب تاجروں ہی کی وجہ سے ہے۔ ہندوستان میں پیدا ہونے والا بریلوی مسلک ہندوستان کے جنوب میں بالکل نہیں ہے۔ وہاں کا مسلمان اپنے آپ کو عربوں سے زیا دہ قریب پاتا ہے۔