"اپنی اہلیہ کی تصویر وائرل ہونے پر وزیراعظم کی جانب سے دہشتگردی کا مقدمہ درج کرنے کی خواہش" سابق ڈی جی ایف آئی اے نے تہلکہ خیز انکشاف کردیا
اسلام آباد (ویب ڈیسک) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ان کو اپنی اہلیہ کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ بنانے کیلئے کہا تھا لیکن انہیں قانون اجازت نہیں دیتا تھا، انہوں نے اپنا موقف بتا دیا لیکن بعد میں نیب کی وجہ سے ان پر سارا پریشر ختم ہوگیا۔
مطیع اللہ جان کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بشیر میمن نے کہا کہ کوئی ایک تصویر آئی تھی ، اس کے حوالے سے بھی ہورہا تھاکہ یہ دہشتگردی کا کیس ہونا چاہیے ، سوشل میڈیا پر فرسٹ لیڈی کی تصویر تھی ، یہ دہشتگردی کیسے ہوگئی ؟ دہشتگردی کی قانون میں تشریح ہے ، وہ ایک نارمل تصویر تھی ، ہم آزاد پنچھی نہیں کہ جس ڈال پر چاہیں بیٹھ جائیں۔ مطیع اللہ جان نے سوال کیا کہ رابطہ کس نے کیا؟ جس پر بشیر میمن کا کہنا تھاکہ میں خود پاکستان کے ہائیسٹ آفس میں گیا، کہا گیا کہ ایکشن لیں، فلاں نے کیا، نام لیا گیا کہ مریم کے سوشل میڈیا سیل نے کیا ۔
یادرہے کہ بشیر میمن ڈی جی ایف آئی اے کے عہدے پر لمبے عرصے تک رہنے والے ڈی جیز میں سے ایک ہیں اور ان کی حکومت نے پنشن بھی روک لی تھی جس کیخلاف انہوں نے عدالت نے رجوع کیا تو گزشتہ دنوں عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا۔دسمبر2019ء میں عہد ے سے الگ ہونیوالے بشیر میمن نے بتایا کہ میں کسی کا ذاتی یا حکومت کا نہیں بلکہ ریاست اور ملک کا ملازم ہوں، اس ملک کے عوام کا ملازم ہوں، بعد میںچیئرمین نیب ہمارے درمیان میں آگئے تو میرے اوپر سے پریشر ختم ہوگئے، چیئرمین نیب تو میرے محسن ہوگئے۔
ایک سوال کہ عمران خان کیا چاہتے تھے جو آپ ان کی مراد پوری نہیں کررہے تھے؟ کے جواب میں بشیر میمن نے کہا کہ جو نیب نے کیا ہے ، وہی سب کچھ ، جتنے بھی کیسز نیب نے بنائے ہیں، سردست سارے یاد نہیں، جتنے بھی کیسز میں نیب کی عزت افزائی ہورہی ہے ، اس میں ہماری عزت افزائی ہونی تھی ، وزیراعظم کیساتھ ڈی جی ایف آئی اے گپ لگانے نہیں جاتا۔ انکارکے سوال پر ان کاکہناتھاکہ کافی سارے نام ہیں، آج کل جو چیزیں چل رہی ہیں، شہبازشریف کی فیملی کیخلاف 56کمپنیوں کے کیس میں ہاتھ نہ ڈالنے کی دو وجوہات تھیں کہ ایک تو انکوائری نہیں تھی ،دوسرا یہ صوبائی اینٹی کرپشن کا مینڈیٹ تھا، مجھے لاہور بھجوایا گیا، اکبردرانی چیف سیکریٹری پنجاب تھے ، ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں سیکریٹریز موجود تھے، سب ریکارڈ ملا اور جانچ پڑتال کے بعد بتایا کہ صوبائی اینٹی کرپشن کرسکتی ہے ، ہم نہیں ، ہمارے پاس مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔
ایف آئی اے کے انکار اور نیب کیسز کے بارے میں سوال کے جواب میں بشیر میمن نے بتایا کہ ضروری نہیں، نیب کو لگا ہوگا کہ اچھا کیس ہے ، بنتا ہے ، میں کہتا تھا کہ ہمیں قانون یہ کہتا ہے اور یہ نہیں کہتا، اپنی اور اپنے ادارے کی عزت بچائی۔خواجہ آصف کے کیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے بشیر میمن نے بتایا کہ خواجہ آصف کا کیس بہت عجیب تھا کہ وہ دبئی میں کسی کمپنی کے پاس نوکری کرتے ہیں اور پاکستان میں وزیردفاع ہیں، غداری کا مقدمہ ہونا چاہیے ، اس کیلئے شواہد چاہیے ہوتے ہیں، ثبوت کچھ نہیں تھا، یہ کابینہ نے اجازت دی تھی اور میں کابینہ کی میٹنگ میں گیا تھا، اس کے منٹس موجود ہیں، خواجہ آصف کیخلاف انکوائری بھی کی لیکن شواہد نہیں ملے ۔ اقامہ کے بارے میں سوال پر بشیر میمن نے بتایا کہ اقامہ نہیں، وہاں سے شاید تنخواہ آرہی تھی یا آئی تھی، دوسال کا عرصہ ہوگیا ہے ، اب پوری کہانی یاد نہیں ۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کے الیکٹرک کی مالک کمپنی ابراج گروپ کیخلاف انکوائری پر وزیراعظم نے برا منایا۔