مہنگائی اور عام آدمی
حکومت میں آنے سے قبل عمران خان نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے کہ وہ مہنگائی کم کریں گے، ڈالر کا ریٹ کنٹرول کریں گے، پیٹرول کی قیمت عوام کی جیب کے مطابق کریں گے مدینہ کی ریاست کا نظام اپنائیں گے لیکن تین سال سے زائد ہو گئے ہیں موجودہ حکومت اپنے کئے گئے ایک بھی وعدے کو پورا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے. اب لوگ مہنگائی سے اس قدر تنگ آئے ہوئے ہیں کہ وہ حکومت کو پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ یاد نہیں دلاتے اور نہ ہی ایک کروڑ نوکریوں کی بات کرتے ہیں عوام کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ کسی طرح اشیا ضرورت کو کنٹرول کر لیا جائے گھر ہم خود بنا لیں گے. اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ جس چیز کا نوٹس خان صاحب لے لیں وہ عوام کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہے.
کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں شکست تحریک انصاف کے لیے نوشتہ دیوار ہے جسے پی ٹی آئی کو ابھی سے پڑھ لینا چاہیے وگرنہ اگلے پانچ سال مزید حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا. لوگ اب حکومت کے ماضی میں کئے گئے وعدوں کو دہرا کر حکومت کو شرمندہ کرنے کی پر زور سعی کر رہے ہیں، اس معاملے میں اپوزیشن کا کردار بھی بڑا قابل افسوس ہے جو مہنگائی کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جانے کے باوجود ابھی تک حکومت اور مہنگائی کے خلاف کوئی ٹھوس لائحہ عمل دینے میں ناکام رہی ہے. کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر گزشتہ دور حکومت میں پیٹرول، آٹا چینی و دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا یا کنٹرول میں تھیں تو اس میں بھی عمران خان کا ہی اہم کردار تھا کہ عمران خان کی جاندار اپوزیشن کے باعث ماضی کی حکومت دباؤ میں تھی اور اب اگر چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو اس میں بھی اہم کردار عمران خان کا ہی ہے کیونکہ عمران خان کو اتنی کمزور اپوزیشن ملی ہے جو مہنگائی جیسے اہم. معاملے پر بھی چپ سادھے ہوئے ہے جس وجہ سے موجودہ حکومت کو چیزوں کی قیمتیں بڑھانے سے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔
عمران خان صاحب ایوب خان کے دور حکومت کو سنہرا دور قرار دیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں چینی صرف پچاس پیسے مہنگی ہوئی تو ایوب خان کی مضبوط حکومت کو گھر جانا پڑا. عمران خان اوران کے وزراء بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ وہ اگلے پانچ سال پھر حکومت کریں گے لیکن مہنگائی کے جو اعدادوشمار ہیں وہ عمران خان کیلئے سب سے بڑی اپوزیشن بن چکے ہیں اگر یہ اعدادوشمار نیچے نہ لائے گئے تو پھر یہی خان کی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی بن کر انہیں شکست دینے کیلئے کافی ہوں گے. کیونکہ عام آدمی کو اب اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ووٹنگ مشین پر ہونی چاہیے یا پرانا طریقہ ہی استعمال ہو گا، عام آدمی کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ اپوزیشن جیلوں میں ہے یا آزاد پھر رہی ہے، عام آدمی کو اس سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ پنڈورا لیکس میں خان کا نام آیا ہے یا نہیں، عام آدمی کو اس سے بھی سروکار نہیں کہ خان ایماندار ہے اور اس کی کابینہ کرپٹ ہے. عام پاکستانی کو اگر کسی بات سے غرض ہے تو وہ.
چاہتا ہے کہ آٹے کی قیمت اتنی ہو کہ وہ دووقت کیلئے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے، عام آدمی کو غرض ہے کہ پیٹرول کی قیمتیں اتنی ہو جائیں کہ اس کی سواری اس کیلئے وبال جان نہ بنے، عام آدمی کو غرض ہے تو اتنی ہے کہ چینی، تیل کی قیمت اتنی ہو جائے کہ وہ گھر کا دال دلیہ چلا سکے اگر یہ سب کچھ اسے میسر نہیں ہوتا تو پھر اس کے پاس غصے کے اظہار کیلئے ووٹ کی صورت میں ایک اختیار حاصل ہے جسے وہ خان کیخلاف ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کر سکتا ہے اگر حکومت آئندہ پانچ سال حکومت کرنا چاہتی ہے تو اسے عام آدمی کی فکر کرنا ہو گی اس کی زندگی آسان بنانا ہو گی وگرنہ کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن نتائج عام انتخابات پر اثر انداز ہوتے ہوئے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔