پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرنے کی ضرورت

پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرنے کی ضرورت
پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرنے کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پولیس میں اصلاحات ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے، ہر حکومت نے پولیس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر سول سروس اور فوج سے پولیس میں جانے والے آفیسر بھی تھانہ کلچر اور پولیس میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سول سروس اور فوج سے پولیس میں جانے والے بھی پولیس کے رنگ میں رنگتے گئے۔ آج محکمہ پولیس پر ایک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ ہر آنے والی حکومت پولیس اصلاحات کی بات کرتی ہے مگر پولیس کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے اور اپنے سیاسی مخالفین کو ڈرانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ عورت تو دور کی بات ہے شریف مرد بھی تھانے جاتے ہوئے ڈرتا ہے۔ سرحد پر کوئی فوجی شہید ہو سارا ملک اسے شہید کہتا ہے پولیس والا مارا جائے تو لوگ اس کی شہادت پر بھی شک کرتے ہیں۔ سماج میں پولیس کا اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔پولیس اصلاحات اور پولیس کلچر میں تبدیلی کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ لیکن کوئی بھی پولیس اصلاحات اور تھانہ کلچر کی کوئی و اضح حکمت عملی نہیں بتا رہا۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں 6 آئی جی پولیس تبدیل ہوئے سبھی نے اپنی حد تک ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ وہ پولیس میں اصلاحات اور تھانہ کلچر میں تبدیلی لاسکیں مگر حکمرانوں نے کسی ایک کمانڈر کو بھی اپنی پالیسی کے مطابق کام کرنے کا بھرپور موقع نہیں دیا،تبادلوں کی سپیڈ بڑھ گئی ہے تعیناتی کے دوران سینئر جو نیئر کا خیال نہیں رکھا جاتاجس سے ادارے کا مورال ڈاؤن سے ڈاؤن تر ہو تا جارہا ہے آفیسرز کو معلوم تک نہیں ہوتا کہ وہ نہ جانے کب اور کس وقت حکمرانوں کے دل سے اتر جائیں،نتیجہ کیا نکلا آفیسرز نے بھی ”ڈھنگ ٹپاؤ“پالیسی اختیار کرلی ہے بہتر پر فارمنس اور پروفائل کے حامل افسران نے تو کبھی اس جانب توجہ ہی نہیں دی کہ انھیں ضرور تعینات کیا جائے اگر تعینات ہیں تو انھیں ہٹایا نہ جائے جبکہ تبادلے کانام سنتے ہی پاؤں پکڑ نے والے آفیسرز نے پولیس کا مورال ڈاؤن کیا ہے،یہ وہ ہی ہیں جنہوں نے سفارش کے بل بوتے پر تعیناتی حاصل کی ہے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا موجودہ آئی جی پولیس راؤ سردار علی خان سے قبل تعینات رہنے والے انسپکٹر جنرل سنیارٹی میں جونیئر،محب الوطن یا پیشہ ورانہ امور کے حامل نہیں تھے، سبھی کمال کے آفیسرز تھے۔ آفیسر ہی یہ سوچ لیں کہ وہ سرکار کہ نہیں ریاست کے ملازم ہیں تو بھی ادارے ٹھیک ہو سکتے ہیں ۔ موجودہ آئی جی پولیس کے پاس کونسا الہ دین کا چراغ ہے جو فارغ ہونے والوں کے پاس نہیں تھا، جو بھی آتاہے فری رجسٹریشن، کرپشن کو ختم اور احتساب کی بات ضرور کرتا ہے مگر ان عوامل پر فورس کو کارآمد بنانے کے لیے کبھی بھی کسی آئی جی کو وقت نہیں دیا گیا اصل وجہ سسٹم کی خرابی اور حکمران ہیں جب کسی آئی جی پولیس کو یہ ہی علم نہیں ہو گا کہ اس کے ماتحت تعینات ہونے والے آر پی اوز،ڈی پی اوز کون ہیں اور کیسے تعینات ہو گئے ہیں تو وہ ان سے اپنی مرضی کے مطابق کام بھی نہیں لے سکتا،آج کے کمانڈرڈی پی او بہاولنگر سے لے کر دیگر ان افسران کو تبدیل نہیں کرسکتے جو سفارش کے بل بوتے پر تعینات ہوئے ہیں ہمیشہ ایس ایچ او، ڈی ایس پی پر رشوت لینے کا الزام لگایا جاتا ہے،ایس پی اور ڈی پی او صاحبان نے جو ات مچا رکھی ہے اس کی جانب کوئی توجہ کرے کسی کی ہمت نہیں ہے۔بہت سارے”ایس ایچ اوز“بھی ایسے ہیں جنہیں کمانڈر تبدیل نہیں کرسکتا،ایک کمانڈر نے اپنے ایس ایچ اوز کو ہدایت کے باوجود موقع پر نہ پہنچنے کی وضاحت طلب کی تو اس نے فرمایا وہ ایک حساس ادارے کے آفیسر کی بیگم کو شاپنگ کروانے میں مصروف تھا اگر وہ کمانڈر اس ایس ایچ او  کے خلاف ایکشن لیتاتو ہو سکتا ہے ایس ایچ او کی بجائے کمانڈر تبدیل کر دیا جاتا جب تک ان روایات کا خاتمہ نہیں ہو گا پولیس میں اصلاحات نہیں لائی جاسکتیں ،فری رجسٹریشن کے ساتھ پولیس کلچر میں تبدیلی کے لیے سب سے پہلے گرفتاری کے اختیار کو محدودکرنے کی ضرورت ہے۔ آج پولیس میں کلچر ہے کہ ایف آئی آر کے بعد گرفتاری پولیس کا حق ہے۔ ادھر ایف آئی آر درج ہوئی ساتھ ہی گرفتاری کی کوششیں شروع ہو گئیں جونہی ایف آئی آر تفتیشی افسر کے ہاتھ میں آتی ہے وہ ملزم کی گرفتاری کے لیے نکل پڑتا ہے۔ تفتیشی افسر کے لیے یہ جاننا اہم نہیں ہوتا کہ ملزم گناہ گار ہے کہ نہیں۔ مدعی کا الزام سچا ہے یا جھوٹا۔ بس فوری ملزم کی گرفتاری ہی تفتیش کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ پولیس کا نظام تفتیش اور ہمارے نظام انصاف میں بھی واضح اختلاف ہے۔ پولیس کی تفتیش کا نقطہ آغاز ملزم سے ہوتا ہے جب کہ نظام انصاف میں ملزم کی کوئی اہمیت نہیں۔عدالت میں مدعی نے اپنا الزام اپنی گواہیوں کے سر پر سچ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ملزم کی مرضی ہے کہ وہ کوئی بات کرے یا نہ کرے۔ جبکہ پولیس مدعی سے کچھ پوچھتی ہی نہیں ہے۔ سارا زور ملزم پر لگایا جاتا ہے۔ ملزم نے ہی اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہے۔ اپنی بے گناہی میں ثبوت لانا بھی ملزم کی ذمے داری ہے۔ جبکہ دوسری طرف عدالت میں الزام کو ثابت کرنا مدعی کا کام ہے۔ الزام کو سچ ثابت کرنا مدعی کا فرض ہے۔ ملزم کی کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ پولیس اور نظام انصاف کے کام میں یہ اختلاف ہی وہ تضاد ہے جس کی وجہ سے پولیس میں اصلاحات لانا آسان نہیں ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -