ویمن یونیورسٹی ملتان میں ”سمارٹ لرننگ“ کانفرنس شروع
ملتان ( سٹی رپورٹرر) ویمن یونیورسٹی ملتان میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے شعبہ ایجوکیشن کے زیر اہتمام انٹرنیشنل کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کا عنوان”سمارٹ لرننگ“ ہے کانفرنس تین روز جاری رہے گی افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ریاض الحق طارق نے کہا کہ کورونا وائرس کے خطرے نے ہمارے نظامِ تعلیم کو خاصا متاثر کردیا ہے۔ ہم دنیا کے ایک ایسے حصے میں رہتے ہیں جہاں ہنگامی حالات کوئی نئی بات نہیں، بلکہ اب تو ہم ان (بقیہ نمبر39صفحہ6پر)
حالات کے اتنے عادی ضرور بن گئے ہیں کہ ان حالات میں بھی کسی نہ کسی طرح اپنے مسائل کا حل نکال ہی لیتے ہیں۔ تاہم اس بار صورتحال کچھ مختلف ہے، کیونکہ یہ حالات ہمارے نظامِ تعلیم کے لیے آزمائش بن کر آئے ہیں اور دیکھنا یہ کہ ہمارا نظامِ تعلیم اس کا کیسے مقابلہ کرتا ہے۔بچوں تک تعلیم پہنچانے کے لیے متبادل طریقے ڈھونڈنے ہوں گے تاکہ تعلیمی عمل اور علمی معیار متاثر نہ ہو۔موجودہ صورتحال نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اب ہمیں ٹیکنالوجی کے تقاضوں کے مطابق اپنے معیار کو بلند کرنا ہوگا۔ڈاکٹر ناصر محمود (ڈین فیکلٹی آف آرٹ سوشل سائنسز علامہ اقبال وپن یونیورسٹی اسلام آباد) نے کوڈ میں ہائر ایجوکیشن کو درپیش چیلنجز اور امکانات پر روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طالبات کو مشغول کرنے کے لیے تدریس کے معنی خیز طریقے اپنائیں۔ڈیجیٹل آن لائن لرننگ دوران حاضر کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے وہ ادارے جو ڈیجیٹل کشتی میں سوار نہیں ہوسکے تھے وہ آج پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ انہیں بچوں کے تعلیمی تسلسل کو جاری رکھنے کے متبادل طریقوں کو مرتب دینے میں خاصی مشکل پیش آرہی ہے۔کورونا وائرس نے جہاں پوری دنیا کو خطرات سے دوچار کردیا ہے وہیں اس نے ہماری صلاحیتوں کو چیلنج بھی کیا ہے کہ ہم کس طرح اس مشکل وقت میں بچوں کو اس قدر بہتر تعلیم فراہم کرسکیں جن سے ان کے والدین کی توقعات بھی پوری ہوسکیں۔ اگرچہ ہم ترقی یافتہ معیشتوں جیسی اعلیٰ معیار کی ٹیکنالوجی، قوت، صلاحیت اور اثرانگیزی بھلے ہی نہ رکھتے ہوں لیکن ہمارے پاس پڑھنے اور سیکھنے کے آلات کے ساتھ ساتھ بھرپور عزم ضرور موجود ہے۔اگرچہ ہمیں ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے ہونے پر افسوس ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں امید ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس چیلنج پر سبقت پالیں گی۔سمارٹ لرننگ کی بین الاقوامی کانفرنس کا مقصد معروف تعلیمی سائنسدانوں، محققین اور ریسرچ اسکالرز کو سمارٹ لرننگ ماحول کے تمام پہلوؤں پر اپنے تجربات اور تحقیقی نتائج کا تبادلہ اور اشتراک کرنا ہے۔ یہ محققین، پریکٹیشنرز اور اساتذہ کے لیے ایک اہم بین الضابطہ پلیٹ فارم بھی فراہم کرتا ہے تاکہ وہ حالیہ اختراعات، رجحانات اور خدشات کے ساتھ ساتھ پیش آنے والے چیلنجز اور سمارٹ لرننگ ماحول کے شعبوں میں اختیار کیے گئے حل کو پیش کر سکیں۔انہوں نے ایران اور چین جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی اور تحقیقی جدت کی مثالیں پیش کی۔ اس سے قبل میزبان وائس چانسلر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے کہا کہ اس وقت ہم بے یقینی کے ماحول میں رہ رہے ہیں کسی کو معلوم نہیں کہ مستقبل میں کسی بھی طبقے کا کیا ہوگا تعلیم میں جدید آلات کااستعمال اس قدر تیزی سے آئے گا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا سمارٹ کلاس رومز اب سکول سے لیکر یونیورسٹی تک میں قائم ہوگئے ہیں اس وقت گوگل کلاس روم سے لے کر واٹس ایپ اور فیس بک گروپس تک مختلف طریقہ کار استعمال میں لا ئے جا رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ طریقے مفید اور جدید ثابت ہو رہے ہیں۔زیادہ تر تعلیم ادارے وقت اور پیسے کی بڑی سرمایہ کاری اور زیادہ محنت لگنے کے باعث اپنے تعلیمی عمل میں ڈیجیٹل علمی آلات کو شامل کرنے سے گریز کرتے رہے، لیکن آج وہ تمام ٹیکنالوجی کی کشتی میں سوار ہونے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔سخت حالات سخت اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ موجودہ وقت میں تیزی سے ہوتی نئی تبدیلیاں اصل میں ہمیں نیا سبق سیکھنے اور شاید یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور کرسکتی ہیں کہ پڑھائی کے لیے اساتذہ کی موجودگی والے کمرہ جماعت تک محدود ماڈل ہی واحد اور لازم ذریعہ نہیں ہے۔اس ڈیجیٹل دور میں فاصلہ اب ماضی کی طرح ایک بڑا مسئلہ نہیں رہا، اب تو زیادہ تر موقعوں پر آمنے سامنے اور ڈیجیٹل ذرائع کے ملے جلے انداز میں ایک دوسرے سے رابطہ رکھا جاتا ہے، اور یہی بات پڑھائی اور سیکھنے کے عمل پر بھی صآدق آتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وباء سے پیدا شدہ تعلیمی بحران و خلاء نے جہاں دنیابھر کے طلبہ کو ناقابل تلافی تعلیمی نقصان سے دوچار کردیاہے وہیں تعلیمی اداروں اور اس سے منسلک افراد بھی غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن کی وجہ سے متعدد مسائل کا شکار ہوچکے ہیں۔۔مرض کی شدت اور خوف سے نہ صرف تعلیمی اداروں کو بندکردیا گیا بلکہ طلبہ کو اپنے گھروں تک محدود رہنے پر پر مجبور ہونا پڑا۔موجودہ صورت حال میں والدین اور بچوں کا جذباتی و نفسیاتی ہیجان میں مبتلاء ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔ملک میں اسکولوں اور تعلیمی ادارجات کی طویل امکانی مسدودی کے پیش نظر تعلیمی نظام میں تیز رفتار تبدیلیوں کو رواج دینا بے حد ضروری ہوچکا ہے تاکہ طلبہ کو درس و اکتساب میں مشغول رکھا جاسکے اور ان کے قیمتی اوقات کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ وائس چانسلر نواز شریف زرعی یونیورسٹی ڈاکٹر آصف علی نے کہا کہ جدت اور دریافتوں کے اس دور میں ہنگامہ خیز حالات مایوسی کو بڑھا دیتے ہیں۔ والدین کو یہ شکایت ہے کہ وہ بچے کی پڑھائی کا اضافی بوجھ برداشت کررہے ہیں جبکہ اساتذہ کی غیر موجودگی میں ان کے حصے کا بھی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ اس پورے مرحلے میں تعلیمی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر نصابی مواد تیار کرنا پڑرہا ہے اور نصاب کی تیاری میں جس غور و فکر اور آزمائشی مرحلے کی ضرورت ہوتی ہے، چاہتے ہوئے بھی اس پر عمل نہیں ہو پارہا ہے۔کورونا وائرس کے باعث ہمارے پاس متبادل طریقے کی آزمائش یا تجربے کا وقت ہی نہیں ہے جس کے نتیجے میں آج ڈیجیٹل ذرائع پر والدین اور عملے کے درمیان لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ بحران کے ان وقتوں میں ہم نے ثابت کیا کہ ہم بے صبرے ہیں اور لچک نام کی کوئی چیز ہم میں موجود نہیں۔جب ہمارا سامنا خرابیوں سے ہوتا ہے یا پھر جب کوئی راہ نکالنے کا موقع آتا ہے تو ہم سکون سے بیٹھ جانے اور نئی حقیقت کو تسلیم کرنے سے پہلے ہم اپنی اپنی نااہلی پر دوبدو ہوتے ہیں تب پہلے پہل ایک دوسرے پر انگلی اٹھاتے ہیں، لڑتے جھگڑتے اور چیختے چلاتے ہیں۔ ہمیں اپنی سوچ، دستیاب وسائل کے بہتر استعمال، جدید طرزِ عمل اپنانے اور سخت حالات میں زندگی بسر کرنے کی صلاحیتوں کے بارے میں بھی جاننا ہے۔ ڈاکٹر نسرین اختر نیکہا کہ کورونا،وبائی مرض کے باعث زندگی کے تمام شعبے حددرجہ متاثر ہوئے ہیں اور سب سے زیاد ہ متاثر ہونے والا تعلیم کاشعبہ ہے۔وبائی مرض کی وجہ سے پیدا شدہ اندیشوں اور خدشات کے اطمینان بخش جواب آج بھی سائنسی علوم کے ماہرین کے پاس موجود نہیں ہیں۔ شعبہ تعلیم گزرتے وقت کے ساتھ کسی بھی دوسرے پیشے کی طرح صلاحیتوں کے معیار کو زیرِ غور لانے اور ان کی بہتری کا تقاضا کرتا ہے۔ اسکولوں کی موجودہ بندش اچھا موقع ہے کہ اساتذہ سوچیں کہ وہ کس طرح طلبہ کو متبادل طریقوں کو اپناتے ہوئے بہتر تعلیم فراہم کرسکتے ہیں۔ پھر یہ اچھا وقت ہے کہ تعلیم کے حصول کا اختیار طلبہ کو دے دیا جائے اور اساتذہ بس اس کی نگرانی کریں اور اس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ڈیجیٹل ذرائع پر پڑھائی اور اپنا کام کرنے کے نت نئے طریقے سیکھ کر طلبہ خود کو زیادہ سبقت کا حامل سمجھ سکتے ہیں۔ چونکہ طلبہ آن لائن ہدایات کے ساتھ ساتھ اپنی کتابوں کے ساتھ بیٹھے ہوں گے اور انہیں روایتی انداز میں کمرہ جماعت کے اندر علمی عمل میں ہر ایک مرحلے پر ہدایات نہیں دی جا رہی ہوگی اس لیے چند طلبہ کے اندر فطری طور پر پڑھنے کا حوصلہ بڑھے گا۔کانفرنس کے پہلے روز تین سیشن ہوئے دوٹیکنکل سیشن میں 15نیشنل اورانٹرنشنل سکالرزنے اپنے ریسرچ مقالے پیش کئے۔اس کانفرنس کی فوکل پرسن چیئرپرسن شعبہ ایجوکیشن ڈاکٹر حنا منیر اور ڈاکٹر فریحہ سہیل ہیں میزبانی کے فرائض منزہ ربّانی نے انجام دیے کانفرنس میں تمام شعبوں کی چیئرپرسن اور طالبات نے شرکت کی۔
عظمیٰ قریشی