تھینک یو سر...!!!
کل" یوم تکریم اساتذہ "تھا...شام کو گھر پر تھا کہ فون بجا...دیکھا تو استاد گرامی جناب ابن آدم پسروری کی کال تھی...بولے کہاں ہو..۔؟عرض کی گھر پر چائے پی رہا ہوں...کہنے لگے شملہ پہاڑی کے پاس سے گذر رہا تھا.... سوچا آپ لاہور پریس کلب ہونگے تو کچھ دیر مل بیٹھتے ہیں...میں نے کہا زہے نصیب...آپ تشریف رکھیے میں دس منٹ میں آتا ہوں...اچھا ہوا کہ وہ پہلے وہاں بیٹھے تھے اور میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا کہ استاد کی یہی تکریم ہے کہ آپ چل کر ان کے ہاں حاضری دیں..۔
"ابن آدم پسروری" کے نام سے جانے والے پرویز باجوہ میرے ساتویں کلاس کے استاد ہیں....پسرور کے گورنمنٹ مڈل سکول گڈگور میں یہ ان کی پہلی تقرری تھی...وہ آئے اور "چھا "گئے..۔وہ ہمیں اردو اور مطالعہ پاکستان پڑھاتے تھے...وہ ننھی سی کلاس کے لیے بھی خوب تیاری کرکے آتے اور "مروجہ پیریڈ "کے بجائے "لیکچر" دیتے...کتاب پڑھاتے مگر نوٹس خود لکھواتے...سر سید احمد خاں پر ان کا مضمون آج بھی میرے حاشیہ خیال پر نقش ہے...
باجوہ صاحب اس زمانے میں بھی رسائل و جرائد میں لکھتے تھے...انہی دنوں انہوں نے ریڈیو تاشقند کے زیر اہتمام اردو مضمون نگاری کا مقابلہ بھی جیتا اور وہاں باقاعدہ "مہمان" بن کر گئے...خیر وہ کچھ مہینے پڑھانے کے بعد خود تو بن باجوہ چلے گئے مگر ہمیں اپنا گرویدہ کر گئے...ادب اور صحافت میں ہماری وہ پہلی" انسپائریشن" ہیں...تب ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ بڑے ہوکر صحافی بننا ہے...
گورنمنٹ ہائی سکول شکرگڑھ میرے میٹرک کے مشفق استاد جناب عبداللطیف ابرار مجھ میں چھپا ڈاکٹر دیکھتے جبکہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج شکرگڑھ میں بی اے فارسی کے" مرشد "جناب سید جعفر حسین جعفر نقوی مجھے لا کر کے وکیل بننے کا مشورہ دیتے تھے...
صحافت کی خاطر ہم شاہ جی سے بھی ہاتھ کر گئے کہ کالج میں ریگولر طالب کے طور پر باقاعدہ دو سال فارسی کی کلاس لی...تھرڈ ائیر میں اچھے نمبر لیے... فورتھ ائیر کے تمام ٹیسٹ کلئیر کیے لیکن جب بی اے امتحان کے لیے داخلے کا وقت آیا تو ہم کالج سے "غائب "ہو گئے...پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس گئے...لائن میں لگ کر جرنلزم سبجیکٹ کے ساتھ پرائیویٹ داخلہ بھجوادیا...امر واقعہ یہ تھا ہم کالج میں فارسی مگر پس پردہ گھر میں صحافت کی تیاری فرما رہے تھے...جناب عبدالسلام خورشید سے عابد تہامی صاحب تک ،تمام بڑے اساتذہ کرام کی ساری کتابیں حفظ کر چکے تھے...شکرگڑھ کالج میں صحافت کا مضمون نہیں تھا تو ہمارے پاس یہی آپشن تھا کہ" پرائیویٹ" ہو جائیں سو ہم ہوگئے...
جعفر شاہ صاحب ہماری اس "نا زیبا حرکت "پر ہم سے کئی سال کئی سال خفا رہے ... آخر 2008ءمیں ہماری دعوت پر ہمارے پاس روزنامہ آج کل تشریف لائے...میں نےانہیں جناب تنویرعباس نقوی سمیت اپنےکئی دوستوں سےملوایا...جاتے وقت مجھے گلے لگایا اور کہنے لگے آج مجھے خوشی ہوئی ہے...میں نے بھی عقیدت میں ان کے ہاتھ چوم لیے...ساری کہانی کا خلاصہ یہ ہے صحافت کی اس" قلبی واردات "کے" محرک "جناب ابن آدم پسروری ہیں.... 2014ء میں ہم لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی کے ممبر تھے تو جناب پرویز باجوہ صاحب اسی لائبریری میں ایک یاد گار نشست ہوئی ،کل پھر وہ تشریف لائے تو ان سے ادھر ہی گپ شپ ہوئی...دلچسپ امر یہ ہے ان سات سال میں استاد گرامی کے بال پہلے زیادہ" سیاہ" اور ہمارے" سفید "ہو گئے...
بہر کیف تھینک یو سر آپ" یوم اساتذہ" پر تشریف لائے... آپ کی خدمت میں بیٹھنے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا...تھینک یو سر !!!
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔