اوربھینس مل گئی۔۔
سکھو کے بعد بھینسوں اور زمین کی دیکھ بھال کی تمام ذمہ داری ریاض کے ذمہ لگ گئی اور ریاض چونکہ چاچا امانت کا بیٹاہے اس لیے اسے سکھو سے ذرا زیادہ ذمہ دار سمجھا جارہاہے اور کسی حد تک وہ ہے بھی مگر اتنا بھی نہیں کہ سارا مال ڈنگر اسی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاجائے اور اسے جدید سکیورٹی سسٹم کے مترادف بھی سمجھاجائے،جہاں حکام کے ہزاروں دعووں کے باوجود رسہ گیروں کے خطرات منڈلا رہے ہوں وہاں اپنی بھینسوں کی حفاظت بھی پوری حکمت عملی کیساتھ کی جائے تو کسی حد تک مال ڈنگر محفوظ رہے گاورنہ قدیم راستے پر بنے ڈیرے سے گزرنے والے کسی بھی چور یا غیر چورکی نیت خراب ہوسکتی ہے،ایسے ہی جیسے منگل اور بدھ کی درمیانی شب ہوا اور یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔
ریاض نے چارہ ڈالااور جانوروں کا کمرہ حبس زدہ ہونے کی وجہ سے کھلی ہوا میں بھینسوں کو باندھ کر کھاناکھایا،دودھ کا گلاس پیا اور وہ گیا،پھرحسب معمول سب کچھ اللہ کے حوالے اور جب سورج طلوع ہوا تو ایک بھینس کھرلی سے غائب تھی،ذہن تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا کہ بھینس چوری ہوچکی ہے کیوں کہ سالوں سے کبھی ایسا ہوا ہی نہیں وہ بھی بزرگوں کی اولاد کیساتھ؟۔۔علاقے میں بھی یہی مشہورہے کہ داد شیخ موسیٰ کی اولاد کی چوری نہیں ہوتی اور ہوجائے تو چور اندھا ہوجاتاہے،یہی ایک ڈر ہے جو کئی چوروں کو ادھر کا رخ کرنے سے روک لیتاہے۔۔بحرحال واقعات ہوجاتے ہیں اور یہی کچھ اب بھی ہوا۔۔خیرکھوجی بلا کر اور معززین علاقہ کی موجودگی میں کھرا چل پڑا۔۔چور کبھی بھینس کو کچے راستے پر اتارتاہے تو کبھی پکے پرچڑھا لیتاہے،یہی اس کی حکمت عملی تھی کہ ساری رات مختلف راستوں سے ہوتاہوا اپنے پیچھے والے ممکنہ خطرات سے بچنے کی کوشش کرتارہا،،کھوجی تقریبا بیس سے پچیس کلو میٹر دور دریائے چناب کے قریب ایک گنے کے کھیت تک پہنچا تو کھرا غائب ہوگیا،ایک طرح سے مایوسی بھی ہوئی مگر کھوجیوں کے قافلے میں چلنے والے دیگر لوگ بھی ایک طرح سے کھوجی ہی ہوتے ہیں کیوں کہ دیہات میں بھینسیں چوری کرنے کے واقعات اکثر ہوتے ہیں اور انہیں تلاش کرنے کے لیے کھوجیوں کا سہارا لیاجاتا ہے اور کھوجی کے پاس پاوں کے نشان پرچلتے رہنے کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہوتا۔۔خیر۔۔۔۔مایوسی کے عالم میں واپس مڑنے ہی والے تھے کہ چند افراد نے گنے کے کھیت میں جا کر چیک کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔اورپھر وہی ہواجس کی امید تھی،ضیغم اور ریاض احمد نے گنے کے کھیت سے بھینس تلاش کرلی،اس کا منہ باندھا ہواتھا اور وہ مشکل سے سانس لے رہی تھی،یقینا چوروں نے دن کی روشنی اور بھینس کی تھکاوٹ کے باعث یہ عارضی فیصلہ کیا ہوگا کہ رات کے وقت یہاں سے بھینس کو منڈی لیجایاجائے گا یا کسی دوسری جگہ منتقل کیاجائے گا۔۔
مویشی پال حضرات کی بروقت اپنی مدد اپ کے تحت کوشش سے بھینس تو مل گئی مگر ان دعووں کی قلعی ضرور کھل گئی جو پولیس افسران رسہ گیروں کے خاتمے کے بارے میں کرتے ہیں۔یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں بلکہ سو فیصد حقیقی واقعہ تھانہ جلالپوربھٹیاں کے نواحی گاوں ڈیرہ شیخاں میں ہوا جو کہ ضلع حافظ اباد کی حدود ہے۔۔چناب کے بیلے سالوں سے جرائم پیشہ عناصر کے گڑھ رہے ہیں اور چناب کے کنارے کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو یا تو چوری میں ملوث ہوتے ہیں یا پھر چوروں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ائی جی پنجاب اور ڈی پی او حافظ اباد کو ایسے عناصر کی فوری سرکوبی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے،یہ ذہن میں رہے کہ ایک کسان،مویشی پال فرد کیلئے اس کی بھینس اپنے بچوں کی طرح قیمتی ہوتی ہے اور اس کی موت یا چوری اسے گہرے صدمے سے دوچار کردیتی ہے،یہ اہمیت وہی جان سکتاہے جس کاتعلق گاوں سے ہوگا یا پھر وہ کسی طرح سے مویشیوں سے نسبت رکھتاہوگا ورنہ ایک عام بندے کیلئے بھینس کی چوری شاید بڑی چوری نہ ہو۔۔اعلیٰ حکام کو اس پر خاص طورتوجہ دینے کی ضرورت ہے بصورت دیگر لوگ مویشی پالنے سے گریز کریں گے اور نتیجتا لائیوسٹاک،ڈیری کی پروڈکشن متاثر ہونے کاخدشہ ہے۔۔
تعارف:
بلاگر مناظرعلی مختلف اخبارات اور ٹی وی چنلز کے نودزروم سے وابستہ رہ چکے ہںچ ، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چنل پر کام کررہے ہیں۔ ۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔