یہ عدالت سپیکر کو ڈائریکشن نہیں دے سکتی ، پی ٹی آئی کے ارکان کی استعفوں کی منظوری کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس

یہ عدالت سپیکر کو ڈائریکشن نہیں دے سکتی ، پی ٹی آئی کے ارکان کی استعفوں کی ...
یہ عدالت سپیکر کو ڈائریکشن نہیں دے سکتی ، پی ٹی آئی کے ارکان کی استعفوں کی منظوری کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں کی منظوری کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی ،  دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے  کہ یہ عدالت سپیکر کو ڈائریکشن تو نہیں دے سکتی۔عدالتیں گزشتہ 70 سال سے بہت سے سیاسی کیسز میں ملوث رہیں ، مداخلت سے اس ادارے کو بھی نقصان پہنچا ۔

پی ٹی آئی کے 10 ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور کئے جانے کے خلاف درخواست پر سماعت  اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی ۔ درخواست گزار کی جانب سے وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 64 کے تحت کارروائی کو مکمل نہیں کیا گیا ،  عدالت نے استفسار کیا کہ  یہ عمل  پارٹی کی پالیسی کے خلاف ہے ، کیا پارٹی نے ان ارکان کے خلاف ایکشن لیا، اس پٹیشن کا کیا مقصد ہے ؟ کیا یہ پارٹی پالیسی ہے ؟ پہلے درخواست گزار  اپنی نیک نیتی ثابت کریں۔

 دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ  یہ عدالت پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے،درخواست گزاروں کو پہلے اپنی نیک نیتی ثابت کرنی ہو گی،  کیا یہ درخواست گزار پارٹی پالیسی کے خلاف جائیں گے؟ ، اس عدالت کو معلوم تو ہو کہ کیا یہ پارٹی کی پالیسی ہے؟، درخواست گزاروں کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ پارلیمنٹ کا سیشن اٹینڈ کرتے رہے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپیکر نے یہ تعین کرنا تھا کہ یہ استعفے دینے کا مقصد کیا تھا،  چیف جسٹس  نے ریمارکس دیے کہ  ہم نے دیکھنا ہے کہ پٹیشنرز نیک نیتی کے ساتھ عدالت آئے یا نہیں؟ ، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پٹیشنرز اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف عدالت نہیں آئے،   اس شرط پر استعفے دیئے گئے تھے کہ 123 ارکان مستعفی ہوں گے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ  جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے انکو پارلیمنٹ میں بیٹھنا چاہیے، جب تک استعفے منظور نہیں ہوتے انکو پارلیمنٹ میں موجود ہونا چاہیے،  ارکان  کی ذمہ داری ہے کہ اپنے حلقے کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کریں،  یہی پارٹی کے موقف میں تضاد ہے، اسی لیے نیک نیتی ثابت کرنے کا کہا ہے ۔ اگر دیگر ارکان پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوتے تو شاید یہ عدالت درخواست منظور کر سکتی،  ایک طرف پارلیمنٹ میں بیٹھ نہیں رہے دوسری طرف نشستیں واپس چاہتے ہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اسمبلی میں واپس جانا دوسرا آپشن ہے، چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ  کرتے ہوئے کہا کہ  اسمبلی جانا دوسرا آپشن نہیں ہے،  یہ عدالت پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح نہیں ہونے دے گی،  آپ کی پارٹی نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر رکھا ہے،عدالتیں گزشتہ 70 سال سے بہت سے سیاسی کیسز میں ملوث رہیں،  سیاسی کیسز میں مداخلت سے اس ادارے کو بھی نقصان پہنچا،  حلقے کے عوام نے اعتماد کر کے ان لوگوں کو پارلیمنٹ میں بھیجا،  بتا دیں کہ کیا یہ ارکان پارٹی پالیسی کے خلاف ہیں؟ ، اگر وہ پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں آئے تو درخواست منظور نہیں ہو گی، اس عدالت نے آج تک کبھی پارلیمنٹ یا سپیکر کو ڈائریکشن نہیں دی،  یہ پارلیمنٹ کیلئے وہ احترام ہے جو 70 سال سے کسی نے نہیں دیا ۔

 چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ حلقے کے عوام نے اعتماد کر کے ان لوگوں کو پارلیمنٹ میں بھیجا،یہ سیاسی تنازعے ہیں اور انکے حل کیلئے پارلیمنٹ موجود ہے، کیا یہ تمام ارکان اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف جائیں گے؟ ۔ وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ  یہ لوگ پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر تو درخواست قابل سماعت نہیں ، پارٹی تو کہتی ہے کہ ہم نے استعفے دیئے،  اگر یہ پارٹی پالیسی کے ساتھ ہیں پھر تو تضاد آ جاتا ہے،  یہ عدالت اسپیکر کو ڈائریکشن تو نہیں دے سکتی۔اپنے سارے سیاسی تنازعے پارلیمنٹ میں حل کریں،  ارکان خود تسلیم کرتے  ہیں کہ استعفے اصلی  تھے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ارکان اسمبلی کے استعفے اصلی تھے  مگر مشروط تھے،  ہم کہتے ہیں کہ تمام استعفے اصلی  تھے اور انہیں منظور کیا جائے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت یہ تصور کیوں نہ کرے کہ سپیکر پی ٹی آئی کو دوبارہ اسمبلی واپس جانے کا موقع دے رہے ہیں؟ ، سیاسی تنازعات عدالتوں میں لانے کی بجائے پارلیمنٹ میں حل کریں، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ  اگر استعفے واپس لے لیے جائیں تو پھر پی ٹی آئی اسمبلی واپسی کا سوچ سکتی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب استعفے دیدیئے تو سپیکر نے اپنی مرضی سے منظور کرنے ہیں،  ملک میں غیریقینی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے،  معیشت کا یہ حال اسی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے ہے،باتوں سے نہیں ہو گا اپنے عمل سے کر کے دکھائیں،  اس عدالت نے پارلیمنٹ کا مسلسل احترام کیا ہے، اپنے عمل سے ثابت کریں کہ آپ پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں،  پہلے اسمبلی جائیں اور پھر یہ درخواست لے آئیں ،عدالت منظور کر لے گی۔ 

وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم اسمبلی واپس نہیں جا سکتے انہوں نے ہمیں نکال دیا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت سیاسی پوائنٹ ا سکورنگ کیلئے استعمال نہیں ہو گی،  جائیں اور اپنی سیاسی لڑائی اس عدالت سے باہر لڑیں۔علی ظفر نے کہا کہ پارٹی نے ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ پارلیمنٹ میں واپس جانا ہے یا نہیں،  چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ  اس طرح نہیں ہوتا کہ آپ پارلیمنٹ میں بھی نہ جائیں اور نشست بھی باقی رہے،  کیا عدالت یہ درخواست منظور کر کے حلقوں کے عوام کو نمائندگی کے بغیر چھوڑ دے؟۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ  پارلیمنٹ کے ساتھ 70 سال سے بہت ہو چکا، اب ختم ہونا چاہیے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ  درخواست گزار اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف نہیں جا سکتے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ پھر یہ عدالت یہ درخواست بھی منظور نہیں کر سکتی، درخواست گزار سپیکر کے پاس جا کر کہہ سکتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ میں واپس آنا چاہتے ہیں،  علی ظفر نے کہا کہ  ہم سپیکر کے پاس تو نہیں جا سکتے، یہ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرے پھر جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت آپکی سیاسی ڈائیلاگ کیلئے سہولت کاری تو نہیں کرے گی ۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ  ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں ہم پارلیمنٹ کو نہیں مانتے،  بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ  ہم پارلیمنٹ کو مانتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی کہے کہ عدالت کو مانتا ہوں اور عدالت کو جو مرضے آئے کہتا رہے،  سیاسی غیریقینی ملکی مفاد میں نہیں،  یہ عدالت درخواست منظور کیوں کرے؟ ، جب تک پارلیمنٹ کے احترام کا اظہار نہیں کرینگے درخواست منظور نہیں ہو سکتی،  پارلیمنٹ مانتے بھی نہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بھیج دیں، عدالت درخواست کو کل تک ملتوی کر سکتی ہے،  آپ پارلیمنٹ جا کر اپنی نیک نیتی ثابت کریں۔

مزید :

اہم خبریں -قومی -