پارلیمنٹ جانا نہ جانا پارٹی کا کام ہے ، عدالت اس سے دور رہے: پی ٹی آئی کے وکیل کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دلائل

پارلیمنٹ جانا نہ جانا پارٹی کا کام ہے ، عدالت اس سے دور رہے: پی ٹی آئی کے وکیل ...
پارلیمنٹ جانا نہ جانا پارٹی کا کام ہے ، عدالت اس سے دور رہے: پی ٹی آئی کے وکیل کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دلائل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن ) قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے  11 ارکان کے استعفے منظور ہونے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ  پارلیمنٹ جانا ، نہ جانا  پارٹی کا کام ہے ، عدالت اس سے دور رہے ۔

نجی ٹی وی "ہم نیوز "کے مطابق  اسلام آباد ہائیکورٹ میں  پی ٹی آئی کے  11ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور ہونے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی ۔  دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ہمیں تاریخ سے سیکھنا چاہیے  دہرانا نہیں چاہیے، منتخب نمائندے پارلیمنٹ کا احترام نہیں کر رہے جو انکو کرنا چاہیے،ملکی معیشت سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے خراب ہوئی ہے، ہمارا ماضی بھی کوئی اتنا اچھا نہیں ہے،  اگر پارلیمنٹ میں نہیں جانا تو یہ ارکان بحالی کیوں چاہ رہے ہیں؟ ،آپکی پارٹی کی پالیسی یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتی، یہ ارکان پارٹی پالیسی کو تسلیم کرتے ہوئے دوبارہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر کے بیٹھیں گے، کیا عدالت درخواست گزاروں کو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرانے کیلئے درخواست منظور کرے؟  اسمبلی کا ممبر ہو کر اسمبلی سے باہر رہنا اس مینڈیٹ کی توہین ہے۔

 وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ پارلیمنٹ جانا نہ جانا پارٹی کا کام ہے، عدالت اس سے دور رہے۔ چیف جسٹس  اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ  عدالت آپکو پارلیمنٹ جانے کا نہیں کہہ رہی لیکن آپکے مؤقف میں تضاد ہے،  اگر پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا ہے تو پھر تو مؤقف میں تضاد ہے،یہ عدالت درخواست گزاروں اور انکی پارٹی کے کنڈکٹ کو دیکھ رہی ہے،  کوئی پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتا تو کیا عدالت سیاسی عدم استحکام کا حصہ بن جائے؟ ، ہر ایک کو عوام سے مخلص ہونا چاہیے، سیاسی عدم استحکام عوام کے مفاد میں نہیں ۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ   لیکڈ آڈیو سامنے آ چکی ہے عدالت اسکا ٹرانسکرپٹ دیکھ لے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ  کیا قاسم سوری کا استعفےمنظور کرنے کا فیصلہ انکا اپنا تھا؟ ، پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا انکا اپنا تھا؟ ، ارکان نے جینوئن استعفے دیئے تھے یا اپنے لیڈر کی خوشنودی کیلئے؟ وکیل علی ظفر نے کہاکہ استعفے درست طور پر منظور نہیں ہوئے اس لیے پارٹی اب استعفے نہیں دینا چاہتی، پارٹی کی پالیسی ہے کہ ہم اب ایم این ایز برقرار ہیں، پی ٹی آئی نے استعفے دیئے کہ تمام 124 منظور کیے جائیں مگر   اب 11 کو منتخب کر کے استعفے منظور کیے گئے، عدالت نے استعفے کی منظوری کا طریقہ کار طے کر دیا تھا، اگر 5دن بعد پارٹی پارلیمنٹ جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ ارکان موجود نہیں ہونگے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ  یہ عدالت آپکو 5دن کا وقت دے دیتی ہے، 5دن میں ثابت کریں کہ آپ کلین ہینڈز کے ساتھ آئے ہیں۔

مزید :

اہم خبریں -قومی -