دوستیوں کے رنگ بدلتے ہیں۔۔۔

دوستیوں کے رنگ بدلتے ہیں۔۔۔
 دوستیوں کے رنگ بدلتے ہیں۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر :رانا بلال یوسف
دنیا تیزی سے نئے اتحادوں کی گرفت میں جا رہی ہے۔ کہیں معاہدوں کے تانے بانے بنتے ہیں، کہیں پرانی دوستیوں کے رنگ بدلتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ  دفاعی شراکت، امریکہ کے ساتھ معدنیات اور توانائی کے معاہدے  اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل فلسطین تنازعہ پر احتیاط مگر اصول پسندی ،یہ سب فیصلے محض سفارت کاری نہیں، بلکہ ایک نئی سمت کا اعلان ہیں۔ عالمی طاقتوں کی صف بندی تیزی سے بدل رہی ہےاور ہر ملک اپنے مفاد کے مطابق نئی جگہ تلاش کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اس بدلتی دنیا میں اپنا وزن کہاں رکھے، ردِعمل کے پلڑے میں یا تدبیر کے ترازو میں؟ کیا یہ فیصلے ہمیں استحکام کی طرف لے جا رہے ہیں، یا کسی نئے امتحان کی دہلیز پر لا کھڑا کریں گے؟
اقتدار کے ایوانوں اور فیصلہ ساز اداروں کے درمیان اس وقت جو ہم آہنگی دیکھی جا رہی ہے، وہ ایک طرف استحکام کی علامت سمجھی جا سکتی ہے، مگر دوسری طرف یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا یہ ہم آہنگی پالیسی میں تسلسل لانے کے لیے ہے یا فیصلہ سازی کے دائرے کو محدود کرنے کے لیے؟ حکومتی قیادت سفارتی محاذوں پر سرگرم ہے، اور عسکری قیادت علاقائی سلامتی کے بیانیے کو نئے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دونوں طبقات کا مقصد ظاہر ہے، عالمی فورمز پر پاکستان کا اعتماد بحال کرنا اور سرمایہ کاری کے دروازے کھولنا۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی طاقت کے دونوں ستون ایک ہی سمت میں چلنے لگتے ہیں، قوم کو سمت تو ملتی ہے، مگر سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ سمت کس نے طے کی؟ 
گزشتہ ماہ  سعودی عرب کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں نے یہ تاثر دیا کہ پاکستان اپنی معاشی پالیسی کو محض امداد نہیں بلکہ شراکت داری کی بنیاد پر استوار کرنا چاہتا ہے۔ توانائی، دفاع  اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں نئے سمجھوتے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسلام آباد اپنے دیرینہ تعلقات کو ایک نئی جہت دینے کا خواہاں ہے۔ لیکن سفارت کاری ہمیشہ یک طرفہ عمل نہیں ہوتی ، سعودی عرب کا جھکاؤ اب خطے کی معاشی سیاست اور اسرائیل سے بتدریج نرم ہوتے روابط کی سمت جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو اپنے اصولی مؤقف اور معاشی ضرورتوں کے درمیان باریک توازن قائم رکھنا ہوگا، کیونکہ ایک طرف وعدوں کا دباؤ ہے اور دوسری طرف خودمختاری کا سوال۔
امریکہ کے حالیہ بیانات اور وفود کی آمد نے یہ اشارہ دیا ہے کہ واشنگٹن اسلام آباد کو دوبارہ اپنے پرانے کردار میں دیکھنا چاہتا ہے، ایک ایسا شراکت دار جو خطے میں طاقت کے توازن کو قابو میں رکھ سکے۔ لیکن آج کا پاکستان اُس دور کا پاکستان نہیں جس کے پاس صرف ایک دروازہ تھا۔ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری، خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری اور روس سے بڑھتے روابط نے خارجہ پالیسی کے محور کو وسیع تر کر دیا ہے۔ تاہم، یہ وسعت خود ایک نیا امتحان بھی ہے۔ بھارت اب امریکی اعتماد کا مرکزی حاصل کنندہ ہے اور واشنگٹن کے دفاعی و ٹیکنالوجی معاہدے نئی صف بندی کی گواہی دے رہے ہیں۔ 
مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطین کی تازہ کشیدگی نے ایک بار پھر دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے، مگر عملی طور پر خاموشی ہی غالب ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس مسئلے پر اصولی مؤقف رکھا مگر اب عالمی منظر بدل چکا ہے۔ خلیجی ممالک کے سفارتی رویوں میں جو تبدیلی آئی ہے، وہ محض سیاسی نہیں، معاشی مصلحتوں کی آئینہ دار ہے۔ 

تاریخ گواہ ہے، جب اصول کمزور پڑ جائیں تو مفاد بھی زیادہ دیر محفوظ نہیں رہتا۔ اور سفارت کاری میں سب سے بڑی طاقت ہمیشہ اخلاقی برتری ہی رہی ہے نہ کہ خاموش تماشائی بنے رہنے کی سہولت۔ 
پاکستان اس وقت ایک نازک توازن پر کھڑا ہے،  عالمی طاقتوں کی نظریں اب صرف ہماری جغرافیائی پوزیشن پر نہیں بلکہ ہمارے وسائل، دفاعی پالیسی اور سفارتی وزن پر بھی ہیں۔ ایسے میں ہر فیصلہ وقتی فائدے اور طویل المیعاد اثرات کے بیچ ایک نازک لکیر پر چلتا دکھائی دیتا ہے۔
دنیا ایک نئے طاقت کے نقشے کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں جنگیں اب بندوق سے نہیں بلکہ معاہدوں، معدنیات اور ڈیجیٹل اثرات سے لڑی جا رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خارجہ پالیسی کے ہر قدم میں شراکت سے پہلے’’توازن‘‘اور’’وقار‘‘کو مقدم رکھا جائے۔ ماضی نے یہی سکھایا ہے کہ جو قومیں عالمی طاقتوں کے کھیل میں اپنی سمت گم کر بیٹھتی ہیں، وہ مدتوں اپنے فیصلوں کی مالک نہیں رہتیں۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ خارجہ محاذ پر طاقت کا استحکام اندرونی اتفاق سے پیدا ہوتا ہے۔دنیا کے بدلتے نقشے میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو وقتی مفاد نہیں بلکہ قومی بصیرت کے تابع کرے۔ جو قومیں بیرونی سرمایہ اور طاقت پر تکیہ کرتی ہیں، وہ وقتی طور پر آسودہ ضرور دکھائی دیتی ہیں مگر فکری طور پر قرض دار ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کو اب ایک نئے فکری عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے، جس میں خارجہ پالیسی صرف طاقت کے توازن سے نہیں بلکہ عوامی ترجیح، جمہوری اصول  اور ادارہ جاتی وقار سے جنم لے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں ریاست اور قوم کے راستے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں بشرطیکہ فیصلہ سازی کا محور اقتدار نہیں، تدبر ہو۔
دنیا کے اس ہنگامہ خیز دور میں شاید سب سے مشکل کام ’’خود ہونا‘‘ہے بطور ریاست، بطور قیادت، بطور قوم۔ 

نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

بلاگ -