”یار! غلطی ہو گئی،مجھے ایسے جواب نہیں دینا چاہیے تھا“صاحب کہنے لگے ”اسکی دلچسپی میرے الفاظ ہوتے ہیں، یہی اسکا انٹرسٹ ہے ذھن نشین کر لیں“
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:311
راؤ کو گھاؤ؛
ایسے ہی ایک واقعہ میری صاحب کے ساتھ تقرر کے ابتدائی دنوں میں بھی پیش آ یا تھا۔ ایڈیشنل سیکرٹری(ایڈمن) راؤ فہیم ہاشم بڑے اچھے اور خاندانی افسر تھے۔ پاک پٹن کی ہاشم فیملی کے چشم و چراغ اور نفیس اور خوش لباس شخصیت۔دوران سروس ہی انتقال کر گئے تھے۔ اللہ مغفرت کرے۔ آمین۔ صاحب کے حلقے کی ٹرانسفر تھی اور صاحب کہنے لگے؛”جائیں اور جا کر خود ہی یہ آر ڈرز کروا لائیں۔“ میں راؤ صاحب کے پاس آ یا اور انہیں آرڈرز کا کہا۔ وہ بولے؛”تمھارا اس تبادلے میں کیا انٹرسٹ(interest) ہے۔(وہ سمجھے شاید میں نے ابھی جو آر ڈرز مانگے تھے شاید میری کوئی اس میں دلچسپی تھی یامیں نے کوئی پیسے ویسے لئے تھے۔“ میں ان کی بات سن کر حیران ہوا اور کہا؛’سر! میرا انٹرسٹ صاحب کا حکم ہے۔“ کہنے لگے؛”تم جاؤ صاحب سے میرے بھی خاندانی تعلق ہیں۔ میں خود ہی آ رڈرز انہوں دے دوں گا۔“ خیر واپس آ یا اور صاحب کو ساری بات بتائی؛”انہوں نے پی اے کو کہا؛”ابھی راؤ صاحب کو بلا لو۔“ وہ پانچ منٹ میں پہنچ گئے۔صاحب کہنے لگے؛”راؤصاحب! آپ نے شہزاد سے کیا پو چھا تھا؟ اس کی کیا دلچسپی ہے؟ یاد رکھیں اس کی دلچسپی میرے الفاظ ہوتے ہیں۔ یہی اس کا انٹرسٹ ہے۔ یہ بات ذھن نشین کر لیں۔ اب جائیں اور خود آر ڈرز لے کر میرے پاس آ ئیں۔“ ایسا ہی ہوا۔یہ محکمے کو واضح پیغام تھا۔اس بات کے باوجود راؤ صاحب سے میرے بہترین تعلقات رہے۔
سعید واہلہ مرحوم؛
سعید واہلہ کھاریاں میں میرے اے سی رہے اور بعد میں سیکرٹری(ایڈمن) بلدیات بھی۔ کھاریاں سے ہی میرے اور ان کے درمیان اچھے تعلقات تھے گو ان کے ساتھ کام کر نا آ سان نہ تھا۔ اچھی شہرت نہ رکھنے والے افسر کو تو یہ برداشت ہی نہیں کرتے تھے۔ اچھے انسان تھے۔ یہ بھی دوران سروس ہی انتقال کر گئے تھے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔آمین۔ایک میٹنگ میں صاحب نے انہیں کو ئی کام کہا۔ ان کے انکار میں تلخی تھی۔ صاحب کو ان کا رویہ بالکل نہ بھایا انہوں نے اُسی لہجے میں جواب دیتے کہا؛”آپ اپنا تبادلہ خود ہی کرا لیں نہ کہ مجھے کرانا پڑے۔“ سیکرٹری بلدیات اخلاق تارڑ نے بھی سعید واہلہ کی بات کا برا منایا اور ان سے کہا:”wahla behave.۔“ میٹنگ ختم ہو ئی تو یہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے؛”یار! غلطی ہو گئی۔ مجھے ایسے جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔ بس شاید بلڈ پریشر بڑھ گیا تھا۔ میں صاحب سے سوری کر نا چاہتا ہوں۔“ میں نے صاحب سے بات کی ”سر! واہلہ صاحب معذرت کر نے آنا چاہتے ہیں۔ پر یشان بھی ہیں۔“ صاحب بڑے دل کے تھے کبھی بھی بات دل میں نہ رکھتے۔ کہا؛”بلا لیں۔“ وہ آئے انہوں نے معذرت کی۔ صاحب نے انہیں کا فی پلائی اور بات ختم ہو گئی۔ وہ اس کے بعد کئی ماہ ایڈیشنل سیکرٹری رہے۔ بعد میں ڈی سی او فیصل آ باد چلے گئے۔ مرتے دم تک میرا اوراُن کا احترام کا تعلق رہا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
