ینگ ڈاکٹر ز کی ہڑتال کیا کمان تحریک انصاف کے ہاتھ میں ہے؟
حکومت پنجاب اور ینگ ڈاکٹروں میں تقریباً دو ماہ بعد ایک مرتبہ پھر میچ شروع ہوگیا ہے مگراب کے میچ میں ایک نئی ٹیم کی آمد کا بھی شور ہے اور نئی ٹیم کا نام تحریک انصاف لیا جارہا ہے پہلے پیپلز پارٹی پر الزام لگایا جارہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی ہائی کمان براہ راست اس کی کمان کررہی ہے مگر اس بار تحریک انصاف کا نام بھی سامنے کچھ اس طرح سے آیا ہے کہ کہا جارہا ہے کہ اس مرتبہ تحریک انصاف پنجاب کے سیکرٹری صحت کی صورت میں اس میچ کا حصہ نہیں ہے سیکرٹری صحت کیپٹن عارف ندیم ہوسکتا ہے اس کا حصہ ہو یا کم نہ ہوں مگر وہ پاکستان تحریک انصاف پنجاب کی جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد کے بھائی اس حوالے سے تحریک انصاف کو سیکرٹری صحت کے ذریعے سے اس تحریک میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے گمان ہے کہ سیکرٹری صحت ٹریپ کرلئے گئے ہیں۔ تاہم اس بات کو ماننا پڑے گا کہ ینگ ڈاکٹرز کی تحریک نے دو ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سر اٹھا لیا ہے، ڈاکٹروں کی طرف سے پیش کئے جانے والے 23 نکاتی ایجنڈے اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے علاوہ عدالت عالیہ کے کئی احکامات بھی ڈاکٹرز کا تنازع حل کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے گزشتہ دو سال کے دوران ڈاکٹروں کے احتجاج کے دوران پنجاب میں صحت کے 3 سیکرٹری صاحبان 5 میڈیکل کالجز کے پرنسپلز اور 6 پروفیسروں سمیت کئی ڈاکٹروں کے تبادلے بھی اس احتجاج کی پیاس نہیں بجھا سکے، ڈاکٹروں کی ہڑتال کے دوران 7 سو قریب بے گناہ مریض اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے کئی مقدمات بھی درج ہوئے، ایک درجن سے زائد مذاکراتی اور تحقیقاتی کمیٹیاں بنیں، ٹوٹیں اور ختم ہوگئی۔ ینگ ڈاکٹرز نے تحریک کے پس منظر پرغور کیا جائے تو اب کے بار جب وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف سمیت پوری پنجاب حکومت ڈاکٹروں کو ان کے مطالبات حل کرانے کی یقین دہانیاں کرواتی رہی ہے مگر عین موقع پر محکمہ صحت کی ٹاپ کلاس افسر شاہی نے ایسی چھڑی گھمائی کے ایک دفعہ پھر ڈاکٹروں اور حکومت میں جاری مذاکرات میں ڈیڈ لاک آگیا اور پھر ڈاکٹروں نے حکومت سے میچ کھیلنا شروع کردیا۔ محکمہ صحت اور ینگ ڈاکٹرز کیا سینئر ڈاکٹرز بھی چہ مگوئیاں ہی نہیں آپس میں شرطیں لگاتے نہیں تھکتے۔ ان کے خیال میں اس دفعہ ینگ ڈاکٹرز اور حکومت میں سروس سٹرکچر پر دوریاں ڈالنے کا سہرا سیکرٹری صحت کیپٹن عارف ندیم اور سپیشل سیکرٹری صحت داﺅد خان کے سر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پنجاب کی جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد سیکرٹری صحت کیپٹن عارف ندیم کہیں ڈیڈ لاک کے پیچھے تحریک انصاف اپنی محبوب رہنما کے ذریعے کام تو نہیں دکھا رہی دوسرا معاملہ یہ ہے کہ نیشنل سیکرٹری داﺅد خان کا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس جونیئر افسر کو بلوچستان سے خصوصی طور پر لائے اورانہیں ڈاکٹر تحریک کو اپنے انداز میں حل کرنے کا ٹاسک دیا، موصوف کے بارے معلوم ہوا ہے کہ وہ بلوچستان پیپلز پارٹی کے صدر لشکری رئیسانی کے قریب عزیز ہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک ہی وقت میں محکمہ صحت کے دو بڑے ایک تحریک انصاف اور دوسرا پیپلز پارٹی سے عزیز داری نبھار رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کا ڈاکٹروں سے میچ کرا رہے ہوں اگر ایسا ہے تو پھر وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس ایک نہیں کئی تحقیقاتی ادارے موجود ہیں انہیں معاملہ کی چھان بین کرکے طے تک جانا ہوگا اور خرابی کے ذمہ دار اپنے ہوں یا اپنوں کے عزیز ان کا سراغ لگانا چاہئے۔ جہاں تک اس پوری تحریک کی تاریخ کا تعلق ہے تو یہ تحریک شروع دن سے ہی نہیں ہینڈل ہوئی اور افسر شاہی کے ہاتھوں میں رہی ہے شروع میں اسے حل کرلیا جانا تو پنجاب حکومت کی اتنی بے عزتی ہوئی نہ ہسپتال بند ہوئے نہ 7 سو سے زائدمریض مرتے نہ ڈاکٹرز جیل جاتے نہ ایمرجنسی بند ہوتی نہ آﺅٹ ڈوروں کو تالے لگائے جاتے اور نہ ہی دھرنا کے روز پولیس کا فیصلہ کرنے کے لئے ڈاکٹرز ڈنڈے لہرا کر براہ راست وزیر اعلیٰ ہی نہیں پوری حکومت اور نظام کو للکارتے۔ اس ہڑتال کے دوران ملک میں امراض دل کے شعبہ میں پاکستان کا ایک اثاثے کہلانے والے پی آئی سی لاہور کے سابق اور میو ہسپتال کے موجودہ پروفیسر آف کارڈیالوجی ڈاکٹرمحمد اظہر سے غریب مریضوں کو محروم ہونا پڑتا۔ آج بھی وقت ہے کہ اس میچ کو افسر شاہی کی ایمپائرنگ سے نکال کر اگر وزیر اعلیٰ خود تھرڈ ایمپائر نہیں بن سکا تو شاید آنے والے وقت میں جو تباہی لانے کا پلان ینگ ڈاکٹروں کی آنکھوں سے جھلک رہا ہے اس سے مریض بچ جائیں چونکہ نقصان ہمیشہ غریب مریض کا ہوا ہے دونوں پہلوﺅں میں سے کوئی جیت جائے ہارے گئے وہ غریب مریض جن کی زندگی ان سرکاری ہسپتالوں کے مسیحا کے روپ میں چھپے لیڈروں کے رحم وکرم پر ہوتی ہے۔