پاک بھارت جنگ1965ء، ایک جذبۂ لازوال

پاک بھارت جنگ1965ء، ایک جذبۂ لازوال
 پاک بھارت جنگ1965ء، ایک جذبۂ لازوال
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


5،6ستمبر1965ء کی درمیانی شب ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جو کہ نوزائیدہ مملکتِ خداداد پاکستان کی تخلیق سے مضطرب تھا، نے اپنی کثرت تعداد کے بل بوتے پر پاکستان کو روندنے کی کوشش کی۔ رات کی تاریکی کا سہارا لیتے ہوئے اس نے ہماری ارض مقدس میں گھس آنے کی ویسے ہی جسارت کی کہ جیسے کوئی زہریلا سانپ بہشتِ بریں میں جا گھسے۔
لاہور کا تاریخی شہر جو کہ اس وقت مغربی پاکستان کا صوبائی دارالحکومت تھا، سرحد سے صرف15میل (28کلو میٹر) دور تھا۔ بھارت نے اپنی یلغار کی شروعات جس مقام سے کیں، وہ پاکستان کے ریل روڈ جنکشن سے محض40 منٹ کی مسافت پر تھا، جہاں تک دونوں ملکوں کی افواج کے عددی تناسب کا تعلق تھا، تو پاکستانی فورسز، انڈین فورسز سے ایک تہائی سے بھی کم تھیں۔ بھارتی فوج کو زمان و مکان کی برتری بھی حاصل تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی یلغار کے وقت اور مقام کا تعین اپنی مرضی سے کیا تھا۔ اگر بھارت اس حملے میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لیتا تو یہ پاکستان کے مواصلاتی نظام کے لئے نہایت تباہ کن ثابت ہو سکتا تھا اور ایسی صورت میں پاکستان کا دفاع مکمل طور پر بکھر کے رہ جاتا۔
بھارت نے لاہور کے محاذ پر13اور سیالکوٹ محاذ پر15 بڑے حملے کئے،لیکن اپنی عددی کمتری کے باوجود پاک افواج نے ان حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور لازوال جرأت و جوانمردی کا مظاہرہ کیا، جس میں ان کو پاکستانی عوام کی بھرپور تائید اور حمایت حاصل تھی۔ بھارت اپنے حملے کی ابتدائی چند ساعتوں میں تین میل تک ہماری سرحدوں کے اندر گھس آیا تھا، لیکن اگلے17دنوں میں وہ تین انچ بھی آگے نہ بڑھ سکے۔ میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں ہڈیارہ نالہ کے مقام پر پاک فوج کے مٹھی بھر جوانوں نے9گھنٹے تک مسلسل جم کر دشمن کی ایک بریگیڈ کو جس طرح روکے ر کھا، وہ اس جنگ کے معرکوں میں سب سے اہم معرکہ تھا، جسے پاکستان کی قومی تاریخ میں آج تک اس لڑائی کے درخشاں ترین باب کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔6ستمبر1965ء کے اس ابتدائی معرکے نے ساری قوم میں ایسا دفاعی جذبہ پیدا کیا کہ وہ دشمن کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ سیالکوٹ کے محاذ پر چونڈہ کے مقام پر ٹینکوں کی لڑائی کو آج بھی مورخین مثال کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اس لڑائی میں ہمارے جوانوں نے اپنے ایک ٹینک کے بدلے دشمن کے چار ٹینک تباہ کئے۔ یہ ایک ایسی مثال ہے جسے غیر جانبدار مبصروں کی تائید حاصل ہے اور جو پاک فوج کی مسلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارت اور ہمت کا مُنہ بولتا ثبوت بھی ہے، اسی طرح پاکستانی توپ خانے نے سیالکوٹ کے محاذ اور دیگر محاذوں پر بھی بھارتی یلغار کی جو کمر توڑی وہ جنگی تاریخ کی ایک دل آویز داستان ہے۔ لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر پر تو پاکستان دفاعی حکمت عملی اپنائے ہوئے تھا، جبکہ قصور سیکٹر پر نہ صرف یہ کہ پاکستان نے بھارت کی طرف سے لاہور پر ایک بڑے حملے کو روکا، بلکہ ایک محدود یلغار کی مدد سے دشمن کو مزید اکٹھا ہونے کی مہلت بھی نہ دی اور ساتھ ہی نہایت تیزی سے کارروائی کرتے ہوئے کھیم کرن پر قبضہ کر کے دشمن کے ان تمام ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا، جو اس کے سینے میں پل رہے تھے۔
پاکستان آرمی نے سلیمانکی میں بھی ایک محدود، لیکن عسکری اعتبار سے نہایت اہم علاقے پر قبضہ کر لیا۔ سلیمانکی ہیڈ ورکس، پاکستان کا ایک بڑا اور سٹرٹیجک اہمیت کا حامل ہیڈ ورکس ہے۔ دشمن اس پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، لیکن پاک فوج نے یہاں بھی دشمن کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور اس کے40مربع میل کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور اسی طرح مغرب کی جانب سے راجستھان کے محاذ پر بھارت کا1200 مربع میل کا علاقہ زیر تصرف لا کر جنگ کے اختتام تک متواتر جوابی حملوں میں اسے ناکامی سے دوچار کئے رکھا، جہاں تک کشمیر کے محاذ کا تعلق ہے وہاں چھمب میں پاکستان آرمی نے بھارتی فوج کو ناکام کیا۔ اس حملے میں بھارتی فوج یوں لڑکھڑا کر بھاگی کہ اپنا اسلحہ اور سامان اپنے مورچوں میں ہی چھوڑ گئی۔ بھارتی سینا جتنی تعداد میں اپنی توپیں چھوڑ کر بھاگی اور اس نے اپنے توپخانے کی دو فیلڈ رجمنٹیں کھڑی کیں۔ اس طرح پاکستان کے نڈر اور جانباز جوانوں نے اکھنور سیکٹر پر 350 مربع میل اور کوٹلی سیکٹر میں16مربع میل بھارتی علاقے پر قبضہ کیا۔
اس جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کی پشت پر پاکستان کے غیور اور بہادر عوام سینہ تان کر بالکل متحد اور بے خوف و خطر کھڑے رہے۔ ان یاد گار ایام میں جس شخص نے بھی لاہور کا دورہ کیا اس نے یہ قطعاً محسوس نہ کیا کہ زندہ دلانِ لاہور کے اس شہرِ بے مثال کے گردو نواح میں ایک نہایت خونریز جنگ لڑی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں ہماری مسلح افواج نے دشمن کو سرحدوں پر روکا اور ان سے نبرد آزما ہوئیں، وہاں پاکستان کے شیر دل عوام نے اجتماعی اور انفرادی طور پراپنے انوکھے انداز میں میدانِ ہائے کار زار میں شرکت کا مظاہرہ کیا۔ تمام راستے اور تمام سڑکیں جو محاذِ جنگ کی طرف جاتی تھیں ان کے دونوں اطراف، ہر لمحہ جانثاروں کا ایک ہجوم نظر آتا تھا جو اپنے ہاتھوں اور اپنی جھولیوں میں کھانے پینے کی اشیاء اور سگریٹ پکڑے محاذ کی جانب رواں دواں اپنے دلیر اور شیر جوانوں پر نچھاور کرنے کے لئے بے تاب رہتے تھے۔

آرٹ اور لٹریچر کی دنیا میں تو یہ17روزہ جنگ ایک عجیب طرح کا انقلاب لے کر آئی۔ اس جنگ نے لکھاریوں، موسیقاروں، گلوکاروں، شاعروں، براڈ کاسٹروں اور صحافیوں کو مثالی جنگجوؤں کی صف میں تبدیل کر دیا۔ فنونِ لطیفہ کے محاذ اگرچہ غیر مرئی تھے، لیکن بہت اہم اور بہت دقیع تھے۔ اہل سپاہ کے جنگی کارناموں کو لوگ گیتوں، تراتوں اور سینوں کو گرمانے والی موسیقی کی شکل دی گئی۔ یہ شواہد بلاشبہ پاکستان کی جنگجو قوم کو ایک نئی بیداری اور ایک نئے جذبے سے سرشار کرنے کے شواہد تھے۔ قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ دشمن کی طرف سے آنے والے ہر چیلنج کا مُنہ توڑ جواب دینے کے لئے ہمہ تن تیار تھی۔
پاک فضائیہ کا حجم بھی بھارت کے مقابلے میں اگرچہ کم تھا، لیکن اس کے تمام وابستگان دامن نے بھارتی فضائیہ کو متواتر دباؤ میں رکھا اور اس کو دفاعی جنگ لڑنے پر مجبور کئے رکھا۔ اس17روزہ جنگ میں پاک فضائیہ کو مکمل فضائی برتری حاصل رہی۔ ہماری فضائیہ نے اُن بھارتی فضائی اڈوں پر جا کر بمباری کی جو پاک بھارت سرحد سے دور گہرائی میں واقع تھے۔ اس نے شمال میں چھمب سے لے کر جنوب میں راجستھان تک پاک آرمی کو موثر مدد فراہم کئے رکھی۔ جب جنگ بندی ہوئی تو معلوم ہوا کہ بھارت کے110طیارے تباہ کئے گئے اور19طیاروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے مقابلے میں پاک فضائیہ کے صرف16طیارے ضائع ہوئے۔ یہ اعداد و شمار ہماری چھوٹی سی پاک فضائیہ کی بے مثال کارکردگی کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔
پاک بحریہ نے دورانِ جنگ سمندروں پر اپنا غلبہ برقرار رکھا۔ ان کا یہ امتیاز قابلِ فخر ہے کہ جنگ کے17دنوں میں انڈین نیوی، اُن کے طیارہ بردار اور اُن کے کروزر سب کے سب اپنے محفوظ اڈوں سے باہر نکل کر کھلے آسمان میں آنے کی جرأت نہ کر سکے۔7ستمبر1965ء کو پاک بحریہ نے دوارکا کے خلاف جو فوری دلیرانہ اور موثر ایکشن کیا وہ بحریہ کا ایک نہایت شاندار جنگی مظاہرہ تھا۔
مشہور و معروف ہفتہ وار امریکی جریدے’’ٹائم‘‘ کے نامہ نگار لوئس کردار نے اس17روزہ پاک بھارت جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:’’ اس قوم کو بھلا کون شکست دے سکتا ہے جو موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا جانتی ہو اور جس کی فوجی بٹالین کے سپاہی سے لے کر کمانڈنگ آفیسر تک ہتھیاروں سے یوں کھیلتے ہوں، جس طرح بچے گلیوں میں کانچ کی گولیوں سے کھیلتے ہیں۔ مَیں نے دوران جنگ پاک فوج کے ایک جنرل آفیسر کمانڈنگ سے پوچھا کہ آپ کی سپاہ کی تعداد تو بھارتی سپاہ سے بہت کم ہے تو یہ بتایئے کہ اس کے باوجود آپ لوگ بھارتیوں پر کس طرح غالب آ جاتے ہیں؟ جنرل نے میرے چہرے کی طرف غور سے دیکھا اور مسکراتے ہوئے جواب دیا:’’ اگر جرأت و جانبازی اور حب الوطنی کو بازاروں سے خریدا جا سکتا تو بھارت غیر ملکی امداد میں اسے بھی خرید لیتا‘‘۔ *

مزید :

کالم -