آپریشن ضربِ عضب ایک قومی عزم
شمالی وزیرستان پچھلے تقریباً پانچ، چھ سال سے شدت پسند تنظیموں سے منسلک ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کا گڑھ رہا ہے۔ گو کہ قبائلی علاقوں میں ایک منصوبہ بندی کے تحت آپریشن کا آغاز 2008 میں کیا گیا، لیکن نائن الیون کے بعد فوج ان علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر چکی تھی۔ شمالی وزیرستان کا آپریشن اسی منصوبہ بندی کا نقطۂ آغاز ہے، جس میں تمام قبائلی علاقوں میں مرحلہ وار آپریشن کرکے دہشت گرد اور ان کے ٹھکانوں کو منطقی انجام تک پہنچانا تھا۔ شمالی وزیرستان کا آپریشن پاکستان کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم آپریشن سمجھا جارہا ہے، کیونکہ ملکِ عزیز کے طول و عرض میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کے تانے بانے سیدھے شمالی وزیرستان تک جاتے تھے۔ دہشت گردوں نے یہاں مضبوط پناہ گاہیں بنا رکھی تھیں۔
شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن میں اب تک 900 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور لگ بھگ113 ٹھکانے، جو کہ دہشت گردی کا مضبوط مرکز سمجھے جاتے تھے انہیں تباہ کیا جاچکا ہے۔27 بارودوی سرنگیں بنانے والی فیکٹریوں کو قبضے میں لے کر 150 ٹن سے زائد بارودی مواد جو کہ دہشت گردی کے لئے استعمال ہونا تھا اس کو تباہ کیا جاچکا ہے۔ شمالی وزیرستان میں اب تک میران شاہ، میرعلی، دتہ خیل، یوپا، دیگاں، حسو خیل، کھجوری، مارشی خیل، عیدک، عشیاہ، حیدرخیل، ہرمز، موسیٰ کئی، شہباز خیل، کیمژ خیل، بابرخیل‘ نورک، سپلکا، ٹاپی، کتب کھیل، پنگ زئی کے علاقے دہشت گردوں سے پاک کرائے جاچکے ہیں۔
گو کہ پاکستان کی درخواست کے باوجود سرحد پار دہشت گردوں کے کنڑ اور نورستان صوبوں میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، لیکن اس کے باوجود شمالی وزیرستان کا جاری آپریشن کامیابی سے جاری ہے۔ میران شاہ میں کامیابی سے آپریشن مکمل کرنے کے بعد ملکی اور غیر ملکی صحافیوں نے دورہ اور حیران کن مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ میران شاہ حقیقت میں دہشت گردی کو کنٹرول کرنے والا گڑھ بند چکا تھا۔ دو دو میل تک لمی خندقیں کھودی گئی تھی جو کہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں تھیں‘ خود کش حملہ آور تیار کرنے والے ٹریننگ سنٹر تھے‘ گھر کئی مدرسوں اور مساجد کے نیچے 200 تک کمرے تھے، جن کودہشت گرد مختلف مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے۔ میران شاہ بازار میں ایک باقاعدہ مارکیٹ تھی جہاں بم بنانے والا مواد فروخت ہوتا تھا۔ خودکش گاڑیاں تیار کرنے والے متعدد ورکشاپ تھیں۔ شمالی وزیرستان آپریشن شروع کرتے ہوئے یہ خطرہ تھا کہ دہشت گردوں نے جوابی کارروائی کے لئے پاکستان کے بڑے شہروں میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنائیں گے۔ اس خطرے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک جامع حکمتِ عملی کے تحت حکومت نے ایک مربوط فورس جو کہ سیکورٹی ایجنسیز اور انٹیلی جنس ایجنسیز کے افراد پر مشتمل تھی کے ذریعے دہشت گردوں کو پورے ملک میں کہیں پناہ نہیں مل رہی جو کہ کامیابی سے جاری ہے۔ ملک کے طول عرض میں سیکیورٹی ایجنسیوں نے اب تک 2274 کے قریب آپریشن کئے ہیں، جن میں 42اہم دہشت گرد مارے گئے ہیں، جبکہ تقریباً 142 کے قریب گرفتار بھی کئے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کو پورے ملک میں کہیں پناہ نہیں مل رہی اور وہ بھاگتے پھر رہے ہیں۔14 اگست کی رات کوئٹہ میں دہشت گردوں نے پاک فضائیہ اور ایوی ایشن بیس پر حملے کی کوشش کی جس کو سیکیورٹی فورسز نے انتہائی دلیری سے لڑتے ہوئے ناکام بنا دیا۔
جب آپریشن ضربِ عضب کی کارروائی شروع ہوئی ہے تب سے ملک بھر میں84 افیسرز اور جوان جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں ان میں سے 44جوان اور افسر شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی یقیناپاکستان میں امن کے لئے ایک نئے دور کا نقط�ۂ آغاز ہوگا۔
آپریشن ضربِ عضب میں پاک فوج کے سپہ سالار کی طرف سے واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ یہ آپریشن بلاتفریق ان تمام دہشت گردوں کے خلاف ہے، جنہوں نے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔ معصوم قبائلی شہریوں کی جان و مال کا ہر صورت خیال رکھا جائے، مقامی روایت کی ہر طرح سے پاسداری کی جائے اور شمالی وزیرستان سے عارضی طور پر ہجرت کرنے والے تمام افراد کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے۔ شمالی وزیرستان میں جاری سیکیورٹی فورسز کی اب تک کی کامیابیاں قابل ستائش ہیں۔
جہاں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔ وہیں ان علاقوں سے عارضی ہجرت کر کے آنے والے افراد کے لئے بنوں میں بھرپور طریقے سے امدادی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ 10لاکھ سے زائد افراد کو تقریباً 13000 ٹن خوراک مہیا کی جا چکی ہے۔ پاکستان آرمی کے ڈاکٹر، سول انتظامیہ کی مدد سے اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کو علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کر چکے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پالتو جانوروں اور مرغیوں کی دیکھ بھال کے لئے خاطر خواہ انتظامات کئے گئے ہیں۔