اینٹی کرپشن میں ریو نیو کے ماہر افسروں کی عدم دستیابی ،مقدمات سرد خانے کی نذر

اینٹی کرپشن میں ریو نیو کے ماہر افسروں کی عدم دستیابی ،مقدمات سرد خانے کی نذر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (عامر بٹ سے )محکمہ اینٹی کرپشن لاہور ریجن میں ریونیو کے ماہر انکوائری افسروں کی عدم دستیابی یا ملزمان کیساتھ ڈیل کا نتیجہ، پنجاب کے اہم ڈیپارٹمنٹ محکمہ ریونیو کے متعلق کی جانیوالی شکایات، انکوائریاں اور مقدمات سرد خانے کی نذر ہو گئے ، مختلف محکموں سے آنے والے ڈیپوٹیشن افسران محکمہ پولیس، انجینئر اور لوکل گورنمنٹ سے منسلک انویسٹی گیشن آفیسر ریونیو کے قوانین اور باریکیوں سے لاعلم،محکمہ اینٹی کرپشن میں زیر سماعت اعلیٰ سطح کے کیسیز التواء کا شکار ہو گئے ، رہی سہی کسر اینٹی کرپشن لیگل ونگ میں تعینا ت لاء افسران نے ملزمان کو''تحفظ فراہم کرو پالیسی "سے نکال دی، معلومات کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن لاہور ریجن عرصہ دو سال سے ریونیو ایکسپرٹ انویسٹی گیشن آفیسر سے محروم ہے جس کے باعث محکمہ مال کے پٹواریوں، قانونگو اور ریونیو آفیسروں کے خلاف آنیوالی شکایات انکوائریاں اور مقدمات جہاں تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں وہاں عرصہ دراز سے ریونیو کے کسی بھی اہلکار کے خلاف اینٹی کرپشن انوسٹی گیشن آفیسرز حتمی کارروائی بھی نہیں کر پائے ہیں اس وقت بھی محکمہ اینٹی کرپشن لاہور ریجن میں ڈیپوٹیشن پر تعینات محکمہ پولیس اور شعبہ انجینئرزسے منسلک آفیسر جہاں انکوائریاں کر رہے ہیں وہاں اینٹی کرپشن میں بھرتی کئے گئے محکمے کے اپنے آفیسرز کو بھی تحقیقات کی ذمہ داریاں سونپ رکھی ہیں قابل ذکر بات یہ ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن میں سب سے زیادہ شکایات بھی محکمہ ریونیو کے ملازمین کے خلاف موصول ہوتی ہیں اور ہر سال محکمہ انٹی کرپشن پنجاب حکومت کو بھجوائے جانے والی رپورٹس میں بھی سب سے نمایاں شکایات اور کرپشن میں اول نمبر کا درجہ بھی محکمہ ریونیو کو دے کر تفصیلی آگاہی دیتا ہے مگر اس کے باوجود محکمہ ریونیو سے منسلک کسی بھی آفیسر کو محکمہ انٹی کرپشن میں تعینات نہیں کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ محکمہ انٹی کرپشن میں رنگ روڈ اراضی سے حاصل ہونے والے معاوضے کی انکوائری اور اس میں شامل ریونیو سٹاف اور مقامی لینڈ مافیا کے خلاف مقدمات درج ہونے کے باوجود ریونیو کی باریک بینیوں سے ناواقف ہونے کے باعث وقفے وقفے سے اس کیس کو ڈیل کرنے والے انوسٹی گیشن افسران اپنے ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں اور اس کیس کو زیر التواء کر دیا گیا ہے، اسی طرح تحصیلدار کینٹ سجاد احمد قریشی کے خلاف مقدمہ اینٹی کرپشن کے انکوائری آفیسر کے مقدمہ کے اندراج کی سفارش کے باوجود محکمہ اینٹی کرپشن کے لیگل ونگ نے مبینہ طور پر 5لاکھ روپے رشوت لے کر رکاوٹ کھڑی کی ہے۔،لینڈ ریکارڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف سے اراضی ریکارڈ کے ڈیٹا کو کمپیوٹرائزیشن کرنے والی کمپنی اے او ایس کے خلاف انکوائری نمبر ی 358/16کے علاوہ ریونیو کے متعدد اہلکاروں کے خلاف کی جانے والی انکوائری 426/16اور جعلی تعلیمی اسناد اور ڈومیسائل پر بھرتی ہونے والے پٹواریوں کے تعلیمی کوائف کے متعلق چلنے والی انکوائری نمبر ی 456/16کو بھی نامعلوم وجوہات کی بناء پر بریک لگے ہوئے ہیں ۔ موضع چرڑ میں صوبائی حکومت کی ملکیتی اراضی کو ڈی ایچ اے کو فروخت کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے میں اہم کردار ادا کرنے والے ریونیو ملازمین آج بھی پرکشش سرکلوں میں تعینات ہو کر لوٹ مار کر رہے ہیں۔ امرسدھو میں سنٹرل گورنمنٹ کی زمین فروخت کرنے والے مافیا کے خلاف سابق چیف سیکرٹری پنجاب سلمان صدیق کے حکم پر مقدمہ نمبر 33/07 درج تو کیا گیا تھا جس کی فائل آج اینٹی کرپشن کے کسی کمرے میں مٹی کے ڈھیر کے نیچے پڑی پڑی ردی بن چکی ہے ،موضع رام کشن کے پٹواری عبدالرزاق کے خلاف ڈھائی مرلہ کی فرد کے بدلہ 50ہزار رشوت وصولی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد بھی انکوائری نمبر 1350/16انتہائی سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے ،اٹاری سرو بہ انکوائری نمبر 18/60جس میں 2کروڑ روپے کی سی وی ٹی کی خرد برد کے ثبوت مہیا کئے گئے تھے لیکن تما م تر ثبوتوں ے باوجود اس انکوائری میں کوئی پیش رفت نہ ہو رہی ہے، اسی طرح ہربنس پورہ میں سرکاری زمینوں کو فروخت کرنے والے لینڈ مافیا کی نشاندہی کرتے ہوئے واضح ثبوت اور ریکارڈ بھی مہیا کیا گیا مگر اس کے باوجود تاحال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی جبکہ کھادر ایریا جات سے منسلک کئے جانے والے موضع جات میں ہونیوالی بے ضابطگیوں کے حوالے سے بھی کوئی تفصیلی رپورٹ مرتب نہیں کی جا سکی ہے رجسٹریشن برانچوں سے پنجاب حکومت کی کروڑوں روپے کی فیسیں ہڑپ کرنے والے رجسٹری محرروں کے خلاف کاغذی کارروائی سے آگے انکوائری نہیں کی جا سکی ہے ایک اندازے کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن لاہور ریجن کی حدود میں آنیوالے سرکل شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور قصور سمیت ضلع لاہور میں اس وقت بھی پنجاب کے اہم ڈیپارٹمنٹ محکمہ ریونیو سے منسلک ملازمین کے خلاف دس ہزار سے زائد درخواستوں، انکوائریاں، مقدمات اور نئی آنیوالی شکایات ریونیو ماہرین کی عدم دستیابی کے باعث سرخ فیتے کا شکار ہو چکی ہیں مزید پی آئی آئے کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی میں جعلی بلوں پر لاکھوں کی ادائیگی کا سکینڈل منظر آنے کے بعد انکوائری نمبر 53/16یکطرفہ اور ملی بھگت سے داخل دفتر کر نے کی سفارش کی گئی ،انکوائری کے مدعی نے انکوائری کو دوبارہ سسنے کی درخواست دائر کر دی جس پرسابق ڈائریکٹر اینٹی کرپشن لاہورطارق محمود کے احکامات کے باوجود ابھی تک اس انکوائری کا پتہ نہیں چلا سکا ہے کہ وہ کس کھاتے میں ہے ،شہریوں کی بڑی تعداد نے ڈی جی انٹی کرپشن پنجاب سے اپیل کی ہے کہ وہ محکمہ اینٹی کرپشن میں محکمہ ریونیو سے منسلک انوسٹی گیشن آفیسروں کو تعینات کریں ۔اینٹی کرپشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے روزنامہ پاکستان کی نشاندہی پر کارروائی کی جائے گی ۔