فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 203

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 203
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 203

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انکل نور الدین کا تفصیلی ذکر بھی کیا جائے گا۔ بہت دلچسپ‘ زندہ دل اور مجلسی انسان تھے۔ کون تھا جس سے وہ بے تکلّف نہ تھے۔ کاروباری معاملات میں ہر کوئی ان سے مشورہ لیتا تھا اور وہ بڑے خلوص سے کسی معاوضے کے بغیر مشورے پیش کرتے رہتے تھے۔ دوستوں کے دوست تھے‘ دشمن ان کا کوئی نہیں تھا‘ کم از کم ہمارے علم میں نہیں ہے ،وہ ایک بے ضرر انسان تھے۔ لوگوں کو فائدہ پہنچانے میں ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ حالانکہ بہت کفایت شعار آدمی تھے کاروباری جو ٹھہرے۔
ہم بتا چکے ہیں کہ انکل نور الدین سے حسن طارق صاحب کی اور ہماری فلم ’’بنجارن‘‘ کے زمانے سے دوستی تھی جب وہ اس فلم کے پروڈکشن انچارج تھے۔ اس زمانے کے دلچسپ واقعات بھی وقت آنے پر سنائے جائیں گے۔
کراچی جائیں اور انکل ملاقات کے لئے نہ آئیں یہ کیسے ممکن تھا ۔کراچی میں روایت کے مطابق انکل نور الدین نے ہمیں ٹیلی فون کیا ،پھر ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ وہ کراچی کی فلمی دنیا کے بارے میں تازہ ترین خبریں اور افواہیں سناتے رہے۔ تازہ ترین لطیفوں سے آگاہ کیا۔ کراچی کی فلمی کاروباری رپورٹ سے مطلع کیا۔ اس کے بعد انہوں نے لاہور کا حال احوال پوچھا۔ انکل کا ایک لطیفہ مستقل تھا، وہ جب بھی ہم سے کراچی میں ملتے تھے فرمائش کیا کرتے تھے کہ ایک پاس عنایت کر دیجئے۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 202  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’کیسا پاس؟‘‘ ہم دریافت کرتے۔
’’کسی ہیروئن سے ملاقات کرنے کا، سنا ہے کہ آپ کی چٹ کے بغیر لاہور کی کوئی ہیروئن کراچی والوں سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی‘‘
یہ ایک مستقل مذاق تھا جو وہ ساری زندگی کرتے رہے اور ہم ہر بار بے خیالی میں پوچھ بیٹھتے تھے ۔۔۔ ’’کس چیز کا پاس؟‘‘
کہنے لگے ’’اب تو زیبا بھی لاہور کی ہو گئی ہے اب تو اس کے لئے بھی آپ سے پاس لینا پڑے گا۔ ہم کراچی والوں کی بڑی مشکل ہے‘‘
ہماری فلم کی بات چل نکلی تو انہوں نے کاسٹ کے بارے میں دریافت کیا۔ انکل کے نثار مراد صاحب کی فیملی سے بہت اچھے روابط تھے، پہلے تو انہوں نے مطلّع کیا کہ نثار صاحب کراچی کے لئے ’’کنیز‘‘ کے حقوق تقسیم خریدنے کے خواہش مند ہیں، اس کے بعد دریافت کیا ’’ محمد علی کے علاوہ آپ نے اور کون سا ہیرو سائن کیا ہے سنا ہے کہ آپ کی فلم میں دو ہیرو ہیں۔‘‘
ہم نے بتایا ’’دو نہیں تین‘‘
بولے ’’ٹھیک ہے ایک تو سنتوش صاحب ہیں دوسرے محمد علی اور تیسرا ہیرو کون ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’ابھی زیر غور ہے‘‘
بولے ’’وحید مراد کو کیوں نہیں سائن کر لیتے؟‘‘
ہم سمجھ گئے کہ وہ نثار مراد صاحب اور وحید مراد کی جانب سے یہ تجویز لے کر آئے ہیں۔
طارق صاحب نے کہا ’’انکل ابھی ہم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا‘‘
کہنے لگے ’’اولاد‘‘ آپ نے دیکھی ہو گی ’’دامن‘‘ میں بھی وحید مراد کا بہت اچھّا کام ہے۔ آپ کہیں تو ’’ہیرا اور پتھّر‘‘ کا شو بھی آپ کے لئے ارینج کر دیں؟‘‘
طارق صاحب نے کہا ’’وہ کریکٹر وحید کے لئے موزوں تو ہے مگر انکل کراچی لاہور کا قصہ ہے‘‘
’’کراچی میں رہنے والے آرٹسٹ کو خاص طور پر لاہور بلانا پڑتا ہے۔ انہیں ہوائی جہاز کا ٹکٹ دینا پڑتا ہے۔ ہوٹل میں ٹھہرانا پڑتا ہے اور پھر اگرشوٹنگ میں گڑبڑ ہو جائے اور مزید ڈیٹ کی ضرورت پڑ جائے تو ان سے وقت لینا مشکل ہو جاتا ہے‘‘
’’اس کی آپ فکر نہ کیجئے‘‘ انکل نے کہا ’’وحید خود اپنے خرچے پر لاہور آئیں گے رہنا سہنا ان ہی کے ذمّے ہو گا‘‘
’’انکل چکّر بازی مت کرو‘‘ ہم نے کہا ’’ظاہر ہے کہ یہ خرچہ وہ معاوضے میں شام کر لیں گے ہمیں کیا فائدہ ہو گا‘‘
انکل مسکرانے لگے ’’آپ تو بڑے کاروباری ہو گئے ہیں۔ آپ معاوضے کی بات تو کریں جو آپ کو سوٹ کرے وہی کر لیں‘‘
طارق صاحب نے کہا ’’فی الحال تو آپ چائے پئیں اور ہمیں سوچنے کا موقع دیں‘‘
انکل نے نثار مراد صاحب کی طرف سے ہمیں رات کے ڈنر کا دعوت نامہ بھی پہنچا دیا ۔نثار صاحب کے گھر پر ڈنر کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ وہ بڑے متواضع انسان تھے اور لاہور سے جانے والے فلم والوں کی خاطر داری ضرور کرتے تھے۔
رات کونثار صاحب کی وسیع و عریض کوٹھی کے کشادہ خوبصورت لان میں محفل سجی اس محفل میں پہلی بار وحید مراد بھی شریک تھے۔ اس سے پہلے وہ نثار صاحب کی دعوتوں میں نظر نہیں آتے تھے۔
وحید مراد‘ نثار مراد کے اکلوتے اور انتہائی لاڈلے بیٹے تھے۔ ماں باپ دونوں ان کے عاشق تھے۔ ان کی والدہ تو جیسے وحید کا نام لے کر ہی جیتی تھیں۔ ان کی گفتگو میں نوّے فیصد وحید مراد کا تذکرہ ہوتا تھا۔ ’’ویدو نے یہ کہا ویدو نے وہ کہا ویدو اب ایسا کرنے والا ہے۔ ویدو کا آئندہ پروگرام یہ ہے ویدو کے لئے لڑکیوں کے اتنے فون آتے ہیں کہ میں تو تنگ آ جاتی ہوں‘‘
وحید مراد کو گھر والے قریبی دوست احباب ’’ویدو‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ ایسے ہونہار اور لائق فرزندتھے کہ واقعی والدین کے لئے ایسی اولاد مایۂ ناز ہوتی ہے۔ تعلیم میں ہمیشہ بہت اچھّے رہے۔ عادت و اطوار انتہائی شائستہ ،بے حد مقبول اور پسندیدہ‘ ذہین‘ باصلاحیت صورت شکل میں ایسے کہ گندمی رنگت کے باوجود لڑکیاں انہیں ’’کرشن مرادی‘‘ اور اس قسم کے رومانٹک القاب سے توازتی تھیں۔ والدین کو تو جیسے ان سے عشق تھا ،ان جیسے لاڈلے بیٹے ہم نے پاکستان کی فلمی صنعت میں صرف دو ہی دیکھے ہیں ایک وحید مراد اور دوسرے انور کمال پاشا۔
انور کمال پاشا حکیم احمد شجاع کے صاحبزادے تھے۔ اکلوتے تو نہ تھے لیکن بیٹے ایک ہی تھے۔ ان کے والد بھی ان کا ہی دم بھرتے تھے۔ ان کی ہر بات بھی ’’پاشا میاں‘‘ سے شروع ہو کر ’’پاشا میاں‘‘ پرہی ختم ہوتی تھی۔ حکیم احمد شجاع بہ ذات خود بڑے عالم فاضل اور نامی گرامی آدمی تھے۔ قلم کے دھنی تھے۔ ان کی تحریریں آج بھی ادب میں ایک اعلی مقام کی حامل ہیں۔ انور کمال پاشا کو بھی اللہ نے سب ہی چیزوں سے نوازا تھا۔ بہت نامور خاندان‘ معروف اور خوش حال باپ ۔۔۔وہ بہ ذات خود بڑے ذہین اور باصلاحیت تھے۔ انہوں نے بھی ایم اے تک تعلیم حاصل کی تھی۔ ادب ان کا مرغوب موضوع تھا۔ لکھنے کا ہنر انہوں نے والد گرامی سے ورثے میں پایا تھا۔ صورت شکل کے معاملے میں بھی لاکھوں‘ ہزاروں میں ایک تھے۔ گورا رنگ‘ دراز قد‘ دل کش نقش و نگار‘ تحریر اور تقریر دونوں پر عبور رکھتے تھے۔ قسمت ان پر بھی ابتدا ہی سے مہربان تھی۔ ایم اے کرنے کے بعد کسٹم میں ملازمت کر لی۔ اگر اسی محکمے سے وابستہ رہتے تو اعلی ترین عہدے یعنی کمشنر کا درجہ تو ضرور حاصل کر لیتے مگر ان کا رجحان فلم کی طرف تھا۔ باپ نے بھی رکاوٹ نہ ڈالی۔ انہوں نے مصنّف‘ ہدایتکار کی حیثیت سے فلمی زندگی کا آغاز کیا اور کامیابیوں نے قدم چومے۔ بعد میں فلم ساز اور تقسیم کار بھی بن گئے تھے۔ پاکستان کی فلمی صنعت کے لئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ طویل عرصے تک وہ پاکستان کی فلمی صنعت پر بے تاج بادشاہ کی حیثیت سے راج کرتے رہے۔ ان کا نام فلمی صنعت میں ضرب المثل بن گیا تھا۔
انور کمال پاشا تحریر کے بادشاہ تھے۔ ان کے لکھے ہوئے مکالموں پر فلم بین سینما گھر میں باقاعدہ بلند آواز سے داد دیا کرتے تھے‘ ان کی کہانیاں بے حد پسند کی جاتی تھیں۔ ہدایتکار اور فلمساز کے طور پر انہیں فلمی صنعت کے ’’مردِ اوّل‘‘ کی حیثیت حاصل ہے۔
پاشا صاحب کے والد کو بھی ان سے بے پناہ عشق تھا۔ ’’پاشا میاں پاشا میاں‘‘ کہتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی تھی۔ انور کمال پاشا نے بھی پاکستان کی فلمی صنعت میں ایسا عروج پایا کہ نہ ان سے پہلے کسی کو ملا اور نہ ہی بعد میں کوئی حاصل کرپائے گا۔ والدین کے بے پناہ لاڈ اور پیار نے انہیں کسی حد تک خودسر اور خودپسند ضرور بنا دیا تھا مگر ان کی بے پناہ خداداد صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں ہے۔ المناک بات یہ ہے کہ وحید مراد اور انور کمال پاشا دونوں کا انجام ایسا شاندار نہ تھا جیسا آغاز تھا۔ دونوں کو ناکامیوں‘ مایوسیوں اور محرومیوں کا منہ دیکھنا پڑا جس کے وہ عادی نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’بُرے دنوں‘‘ کو نہ سنبھال سکے‘ یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔
وحید مراد کے اچھا اداکار ہونے میں کوئی کلام نہ تھا۔ ہماری فلم کے کردار کیلئے بھی وہ بہت موزوں تھے۔ دو چار دن ہم اس بارے میں مختلف پہلوؤں پر غور کرتے رہے۔ وحید مراد بھی اس دوران میں چند بار ہوٹل آئے۔ وحید مراد میں احساس کمتری نہ تھا۔ جب وہ پورے عروج پر تھے‘ اس وقت بھی فلمسازوں اور ہدایتکاروں سے کسی اچھے کردار کیلئے بات کرنے میں نہیں ہچکچاتے تھے۔ ’’کنیز‘‘ کے سلسلے میں بھی انہوں نے یہ بات نہیں چھپائی کہ وہ اس کردار کو اپنانے کے خواہشمند ہیں‘ حالانکہ اس زمانے میں وہ خود ’’ارمان‘‘ بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور ویسے بھی انہیں اپنی زبان سے اداکاری کی خواہش کا اظہار کرنے کی حاجت نہ تھی مگر وہ ایک بے تکلّف آدمی تھے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ سنا ہے کہ آپ کی فلم میں یہ بہت اچھّا کردار ہے‘ میں یہ کردار ضرور کرنا چاہتا ہوں۔ یہ وحید مراد کی عادت تھی مگر جب زوال پذیر ہونے کے بعد وہ کسی فلمساز یا ہدایتکار سے کہتے تھے کہ مجھے بھی کوئی اچھا کردار دیجئے تو لوگ سمجھتے تھے کہ ناکامیوں نے وحید مراد کو اس نوبت تک پہنچا دیا ہے‘ حالانکہ عروج و زوال سے اس بات کا کوئی تعلق نہ تھا۔
کراچی سے جب طارق صاحب اور ہم واپس آئے تو وحید مراد ہماری فلم کی کاسٹ میں شامل ہوچکے تھے۔ انہوں نے ہماری ہر شرط تسلیم کرلی تھی۔ معاہدے کے مطابق وہ تین بار خود اپنے خرچ پر لاہور آئے اور اپنے قیام و طعام کا خرچ اٹھانے کے پابند تھے۔ اگر اس کے بعد ہم انہیں بلاتے تو اس کا خرچ فلمساز کے ذمّے تھا۔ معاوضے کی کل رقم سات ہزار روپے تھی۔ مانا کہ وہ سستا زمانہ تھا‘ اداکاروں کے معاوضے بھی زیادہ نہ تھے مگر اس کے باوجود آمدورفت اور ہوٹل کے اخراجات سمیت یہ بہت کم رقم تھی۔ وجہ یہ تھی کہ وحید مراد ہر قیمت پر یہ کردار کرنے کے خواہش مند تھے اس لئے انہوں نے اس بات کو اپنی اَنا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ اس سے وحید مراد کی بصیرت اور دور اندیشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آج کے اداکار جو ایک فلم کی کامیابی کے بعد ہی زمین پر قدم نہیں رکھتے اور اچھے یا بُرے کردار سے قطع نظر محض معاوضوں کو پیش نظر رکھتے ہیں انہیں وحید مراد جیسی سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہئے۔ زیادہ معاوضے کے لالچ میں وہ نہ تو کہانی اور کردار پر دھیان دیتے ہیں نہ ہی فلم ساز اور ہدایتکار کے تجربے اور پس منظر کو اہمیت دیتے ہیں۔ اداکاری کی طرف توّجہ دینے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ جو اداکار لگاتار ہر مہینے ایک فلم مکمل کرائے گا وہ اداکاری کی طرف بھلا کیسے توّجہ دے سکتا ہے؟ ان کے نزدیک سب ہی فلم ساز اور ہدایتکار ایک جیسے ہیں۔ انہیں تو صرف معاوضے سے سروکار ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ وحید مراد کی مثال سے سبق حاصل کریں۔
’’کنیز‘‘ کی تمام ابتدائی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ اداکاروں سے تاریخیں حاصل کرنے کے بعد شوٹنگ کے انتظامات شروع کر دئیے گئے۔ لاہور میں زیبا سے سٹوڈیو میں ملاقات ہوئی تو وہ بہت گرمجوشی سے ملیں۔ کہنے لگیں ’’آفاقی تم نے بہت عقلمندی کی ہے کہ وحید کو اپنی فلم میں کاسٹ کر لیا‘‘۔
ہم نے کہا ’’عقلمندی کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا شکریہ‘‘۔
بولیں ’’اب مجھ سے بھی ڈیٹس لے لو۔ میں بہت مصروف ہو گئی ہوں۔ بعد میں شکایت نہ کرنا‘‘۔
ہم نے کہا ’’جو ہیروئن فلم کے مہورت میں آنے کے لئے وقت نہیں نکال سکتی وہ پوری فلم کے لئے وقت کیسے نکالے گی‘‘۔
’’اچھّا۔ زیادہ فالتو بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم تو اونٹ کی طرح کینہ پرور ہو۔ اس بات کو ختم کر دو۔ میں اور وحید کئی فلموں میں ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہم دونوں سے ڈیٹس لیتے وقت یہ خیال رکھنا‘ ایسا نہ ہو کہ ایک سے ڈیٹ لے لو اور دوسرا مصروف ہو۔ تمہیں تو ویسے بھی جھگڑنے کے لئے بہانہ ہی چاہئے‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے زیبا ایک مقبول ہیروئن بن گئی تھیں۔ انہیں کئی فلموں میں بہت اچھّے فلم سازوں نے سائن کر لیا تھا۔ انہوں نے گلبرگ کالونی میں ایک کوٹھی بھی کرائے پر حاصل کر لی تھی کیوں کہ فلمی مصروفیات کی وجہ سے انہیں زیادہ وقت لاہور میں رہنا پڑتا تھا لیکن کراچی کی کچھ فلموں میں بھی وہ کام کر رہی تھیں۔ اس لئے کراچی کا پھیرا بھی لگتا رہتا تھا۔ آؤٹ ڈور شوٹنگ کے سلسلے میں انہیں مری‘ سوات اور ایبٹ آباد بھی جانا پڑتا تھا۔ اس سے پہلے وہ شوٹنگ کے لئے لاہور آتی تھیں تو انڈس ہوٹل میں قیام کرتی تھیں۔(جاری ہے)

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 204 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)