امریکہ نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کا مطالبہ دہرایا
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو پاکستان کے مختصر دورے کے بعد نئی دہلی چلے گئے ہیں۔ دورۂ پاکستان میں انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے ساتھ مذاکرات میں بھی دونوں شخصیات موجود تھیں۔ امریکی وزیر خارجہ کی آمد سے پہلے وزیراعظم کو مختلف اطراف سے جو مشورے دئیے جا رہے تھے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ وہ وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات نہ کریں جبکہ دوسرا مشورہ یہ دیا گیا کہ ضرور ملاقات کریں۔ پیپلز پارٹی کے حقیقی چیئرمین آصف علی زرداری ملاقات کے حق میں تھے جبکہ سینیٹ کے سابق چیئرمین جن کا تعلق بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے، اس ملاقات کے خلاف تھے۔ ایک ہی پارٹی کے دو رہنماؤں میں مختلف امور پر رائے مختلف بلکہ متضاد بھی ہوسکتی ہے۔ یہ اس کا شاہکار تھا۔ بہرحال ملاقات ہوئی، مذاکرات بھی ہوئے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس ملاقات کے حوالے سے ایک پریس ریلیز جاری کی جبکہ امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے بھی پریس ریلیز جاری کی گئی۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں میڈیا سے بات چیت نہیں کی۔ تاہم ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مذاکرات کے بعد جو پریس کانفرنس کی، اس میں انہوں نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات میں جو تعطل آگیا تھا، وہ ٹوٹ چکا ہے اور ہم نے تعلقات ’’ری سیٹ‘‘ کر دئیے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے یہ تاثر بھی دیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا نقطہ نظر یکساں ہے اور وہ ایک ہی صفحے پرہیں، ان کے خیال میں ماضی میں ایسا نہیں تھا جبکہ ماضی قریب میں وزیر خارجہ رہنے والے خواجہ آصف نے بھی پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ یہی کہا کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت قومی امور میں ہم رائے ہیں۔ خیر ماضی کو چھوڑ کر حال کی بات کرتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا اپنی پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ امریکہ نے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ نہیں کیا، جبکہ امریکی دفتر خارجہ کے پریس ریلیز میں دوسری باتوں کے علاوہ جو یہ کہا گیا ہے کہ ’’امریکہ کو امید ہے کہ پاکستان ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف مستقل، دیرپا اور فیصلہ کن اقدامات کرے گا، جو علاقائی امن اور استحکام کے لئے خطرہ ہیں‘‘۔ اس کا مفہوم تو ’’ڈومور‘‘ ہی بنتا ہے۔ تاہم اگر کوئی اس لفظ سے الرجک ہے تو وہ اپنے اطمینان کی خاطر امریکی پریس ریلیز میں ظاہر کی گئی توقع کا مفہوم اپنے انداز میں وضع کرسکتا ہے جو بہرحال یہی ہے کہ پاکستان کو علاقائی امن و سلامتی کے دشمن دہشت گردوں کے خلاف مستقل اور فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں۔
غالباً ایسی کوئی بات اس گفتگو میں بھی کی گئی ہوگی جو چند دن پہلے وزیر خارجہ پومپیو اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان ہوئی۔ اس بات پر بھی اختلاف رائے ہوگیا تھا اور پاکستان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے موضوع پر بات نہیں ہوئی، لیکن جب امریکہ نے گفتگو کا متن جاری کر دیا تو اس میں یہ بات موجود تھی، اس کے بعد دفتر خارجہ نے ڈپلومیسی کا سہارا لے کر یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ پاکستان اس معاملے کو آگے نہیں بڑھانا چاہتا۔ اب اگر شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ ’’ڈومور‘‘ کا کوئی تاثر درست نہیں اور امریکی پریس ریلیز کہتی ہے کہ ’’مستقل اور فیصلہ کن‘‘ اقدامات کئے جائیں تو ان الفاظ پر غور کرکے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا یہ ڈومور کے مفہوم کو احاطہ کرتے ہیں یا نہیں؟
پاکستانی اور امریکی دفاتر خارجہ کے پریس ریلیزوں کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو ’’فیصلہ کن اقدامات‘‘ کا مفہوم یہی نکلتا ہے جو ’’ڈومور‘‘ کا ہے اب اگر یہ لفظ امریکی پریس ریلیز میں استعمال نہیں کیا گیا تو بھی تاثر بہرحال یہی بنتا ہے کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان ایسے اقدامات کرے جن سے وہ مطمین ہوسکے، اگر پاکستان اپنے طور پر ایسے کئی اقدامات کر بھی دے جس سے امریکہ کو اطمینان نہ ہو تو پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ایسی صورت میں تعلقات آگے بڑھ سکتے ہیں؟ کیونکہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ مذاکرات میں آگے بڑھنے کا ماحول تھا۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مائیک پومپیو نے انہیں دورۂ واشنگٹن کی دعوت دی ہے، معلوم نہیں یہ دورہ کب ہوتا ہے کیونکہ خود انہوں نے کہا ہے کہ وہ پہلے افغانستان کا دورہ کریں گے۔ تاہم یہ سوال اہم ہے کہ دورۂ واشنگٹن کے دوران کیا۔ امریکی وزیر خارجہ ان باتوں سے مختلف کوئی بات کریں گے، جو انہوں نے اپنے اس دورے کے دوران کی؟ پاکستان کی کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں جو سرد مہری اس وقت موجود ہے، اس کا خاتمہ ہو لیکن امریکہ اب تمام تر تعلقات کو افغانستان کے تناظر میں دیکھتا ہے، وہ وہاں سے واپس جانا چاہتا ہے، لیکن شکست کا داغ لے کر نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ حالات کب پیدا ہوں گے، جو امریکہ کی باوقار واپسی کے لئے سازگار ہوں۔ طالبان کو مذاکرات کی جو دعوت دی جا رہی ہے، وہ اسی پس منظر میں ہے، لیکن کیا پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے اور ایسے کامیاب مذاکرات کا انعقاد بھی کراسکتا ہے، جس سے امریکہ مطمئن ہو، آنے والے دنوں میں یہ بات سامنے آجائے گی۔