عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر64
مصلح الدین آغا کے پہریدار آگے بڑھے ۔ اور یونانی سپاہی کو حراست میں لے لیا۔ قاسم یہ بھی نہ چاہتا تھا کہ مچھیروں کی بستی میں اس کی موجودگی کا راز مسلمان سپاہیوں پر آشکار ہو۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے کچھ سوچ کر مصلح الدین آغا کا نام پکارا ۔ لیکن مسلمان پہریداروں نے اسے بتایا کہ ان کا سردار اس وقت ان کے ساتھ نہیں۔ مسلمان پہریدار قاسم کو دوسری بار دیکھ رہے تھے۔ اور اسے پہچان بھی چکے تھے۔ قاسم نے ایک مسلمان پہریداروں کو حکم دیا کہ وہ اس قیدی کو ابھی اور اسی وقت افشائے راز کے خوف سے ہلاک کردیں ۔کیونکہ وہ ایک اہم راز جان چکا ہے۔ قاسم کی بات مکمل ہوتے ہی گرم دماغ ترک سپاہی آگے بڑھا اور ایک لمحے کی دیر کیے بغیر یونانی فوجی کے پیٹ میں اپنا لمبا نیزہ اتار دیا۔ فضا ایک بزدلانہ چیخ سے گونجی ۔ اور یونانی سپاہی تڑپ کر ڈھیر ہوگیا ۔
اب قاسم ایک بار پھر بستی کی جانب اڑا جارہا تھا ۔ وہ جلد سے جلد اپنے ٹھکانے پر پہنچنا چاہتا تھا ۔ اور پھر اپنی روانگی سے ٹھیک ایک گھنٹے بعد قاسم اپنی جھونپڑی کے عقب میں نمودار ہوا۔ وہ چند لمحے پہلے ہی اپنے گھوڑے سے اتر کر پیدل اپنی رہائش کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اسے اپنی جھونپڑی کے روزنوں سے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی لو نظر آئی۔اس نے جھونپڑی کے عقب میں ہی ایک جھاڑی کے ساتھ گھوڑا باندھا ۔ اور خود سامنے کی طرف سے جھونپڑی کے دروازے پر نمودار ہوا ۔ لیکن دروازے سے باہر اندھیرے میں کسی کو بیٹھا دیکھ کر وہ ٹھٹکا........... دوسرے لمحے وہ روزی کو پہچان چکا تھا ۔ قاسم بے دھڑک روزی کے نزدیک پہنچا تو روزی نے مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کیا ۔ اور کسی قدر شوخی سے کہا:۔
’’جھونپڑی کے اندر مقدس باپ خصوصی عبادت میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مجھے یہاں بیٹھنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ میں کسی کو اندر نہ جانے دوں۔ لہٰذا آپ اندر نہیں جاسکتے۔‘‘
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط 63پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قاسم روزی کی بات سے ہنس دیا ۔ اور اس نے روزی کو اس کی حکمتِ عملی پر داد دی۔ پھر اس نے روزی کو بتایا کہ ’’عقب میں گھوڑا بندھا ہے۔جسے فوراً بستی کے اصطبل میں باندھنا ضروری ہے.........‘‘روزی فوراً حکم کی تعمیل کے لیے چلی گئی ۔ اور قاسم نے روزی کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے فی الفور جھونپڑی میں لباس بدلنا شروع کر دیا ۔ کیونکہ لڑائی کے دوران اس کا لباس پھٹ بھی چکا تھا اور اس پر جگہ جگہ خون کے قطرے بھی نظر آتے تھے۔ کچھ دیر بعد قاسم لباس بدل چکاتھا ۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے چہرے پر لگے سپاہیوں کے خون کے قطرے صاف کرتا۔ روزی ایک دم جھونپڑی میں داخل ہوئی۔ اور قاسم سے کہنے لگی:۔
’’آپ کے پیچھے ایک بار بابا نے آپ کے بارے میں پوچھا اور ایک وہ بد ذات ’’باقو‘‘ آپ سے ملنے کے لیے آیا ۔ لیکن میں نے دونوں کو مطمئن کر کے ٹال دیا ۔‘‘
’’باقو؟..........کون باقو؟‘‘
لیکن روزی قاسم کی بات کا جواب دینے کی بجائے بھنویں سکیڑے اور ماتھے پر شکنیں ڈالے قاسم کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔
’’یہ ...........یہ کیا ؟...........آپ کے چہرے پر خون لگا ہے..........کیوں؟ کیا ہوا؟..........کہیں آپ زخمی تو نہیں ؟‘‘
قاسم سٹپٹا گیا ۔ اور تیزی کے ساتھ اپنی اپنی آستین سے چہرہ صاف کرنے لگا۔اس نے کہا:۔
’’نہیں! مجھے کوئی زخم نہیں۔ بس ! راستے میں کچھ ڈاکوؤں نے مجھ پر حملہ کردیا تھا ۔ اور ان کے ساتھ تھوڑی سی مڈ بھیڑ ہوگئی۔‘‘
قاسم کوئی اور بہانہ نہیں بنانا چاہتا تھا ۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ صبح ہوتے ہی یونانی سپاہیوں کے قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل جائے گی۔ ’’روزی‘‘ متحیّر نگاہوں کے ساتھ قاسم کو ایک ٹک دیکھے جارہی تھی۔ قاسم ، روزی کے انداز سے گبھرا گیا ۔ اور اس نے عجلت میں روزی کی کمزوری کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے اس سے کہا:۔
’’روزی ! تم اس قدر حسین ہو کہ تمہیں دیکھ کر مجھے اپنے راہبانہ زندگی پر پچھتاوا ہونے لگتا ہے۔ کاش! میں راہب نہ ہوتا ۔ ایک عام انسان ہوتا۔‘‘
قاسم کے لہجے کی حسرت ناکی دیکھ کر روزی کو سب کچھ بھول گیا ۔ اور وہ اس نوجوان عرب کی گہری آنکھوں میں ڈوبتی چلی گئی ۔ قاسم کا تیر نشانے پر بیٹھا تھا ۔ اور روزی مزید کچھ سوال کرنے سے باز آگئی تھی.............اب قاسم نے روزی کو جانے کی اجازت دے دی۔ تاکہ وہ اپنے خون آلود لباس کو دھو سکے۔
روزی چلی گئی۔ اور قاسم لڑائی کے تمام نشانات مٹا کر سو گیا ۔ لیکن اگلی صبح پورے علاقے کے لیے قیامت خیز تھی۔ پانچ یونانی سپاہیوں کے قتل کی پورے آبنائے باسفورس سے لے کر قصرِ قسطنطنیہ تک پھیل چکی تھی۔ آج ’’مقرون‘‘ کسی پاگل کتے کی طرح جگہ جگہ دوڑتا پھر رہا تھا ۔ اس نے پورے آبنائے باسفورس کا چکر لگا یا ۔ بہت سی بستیوں اور دیہاتوں کے باشندو ں کو الٹی سیدھی دھمکیاں دیں۔ شہنشاہ کو اطلاح بھیجنے کے لیے کچھ خاص لوگ روانہ کیے۔ اور خود چار سو افراد کے ایک مسلح دستے کی تیاری میں مصروف ہوگیا ۔ وہ ’’رومیلی حصار ‘‘پر کام کرنے والے مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا تھا ۔ اُدھر انجینئر مصلح الدین آغا کو پل پل کی خبریں مل رہی تھیں۔ چنانچہ اس نے بھی اپنے سارے سپاہیوں اور معماروں کو جمع کر کے کچھ ہدایات دیں۔ مچھیروں کی بستی میں بھی آج سنسنی تھی۔ ہر شخص کے دل میں یونانی سپاہیوں کے قتل کی دہشت بیٹھی ہوئی تھی۔ صرف ایک روزی تھی جو دہشت زدہ نہ تھی۔ بلکہ حیرت زدہ تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس کے خوابوں کا شہزادہ صرف جوان اور خو برو ہی نہیں۔ جنگجو اور بہادر بھی ہے۔اسے حیرت اس بات پر تھی کہ کلیسا کا ایک راہب اس قدر جنگجو کیسے ہوسکتا ہے۔ یہی سوچ کر اس کی نظروں میں قاسم کی ظاہری شخصیت مشکوک ہوگئی۔ اس نوجوان راہب نے رات کے اندھیرے میں پانچ یونانی سپاہیوں کو اکیلے قتل کردیا ۔ وہ سوچنے لگی کہ کہیں اس نوجوان نے راہبانیت کا بھیس ہی نہ بدل رکھا ہو۔ لیکن یہ سوچ کر اسے پریشانی ہونے کی بجائے خوشی ہو رہی تھی۔ وہ تو چاہتی ہی یہی تھی کہ قاسم راہبانیت چھوڑ کر عام انسانوں جیسی زندگی اختیار کرلے۔ تاکہ وہ اس سے شادی کرسکے۔ اب جوں جوں روزی کو قاسم کے.............ایک راہب نہ ہونے کا یقین ہوتا جارہا تھا ۔اس کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی۔ ساری بستی دہشت زدہ تھی۔ لیکن روزی صرف حیرت زدہ تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس نوجوان راہب نے یونانی سپاہیوں کو قتل کیوں کیا ہوگا۔ وہ چاہتی تھی کہ راہب سے جاکر پوچھے ، لیکن وہ ڈرتی تھی کہ کہیں قاسم یہ سب کچھ اس سے چھپا کر اس کا دل نہ توڑ دے۔
کچھ اور وقت اسی طرح گزر گیا ۔ قصرِ قسطنطنیہ سے یہ حکم آیا کہ مسلمان سپاہیوں کو شہر کے قریب نہ آنے دیا جائے۔ اور نہ ہی ان سے چھیڑ چھاڑ کی جائے۔ لیکن مقرون اپنے سپاہیوں کے قتل پر بے حد برافروختہ تھا وہ چاہتا تھا کہ جس طرح بھی ہو ان پانچ یونانیوں کے قتل کا بدلہ لیا جائے وہ تو انتظار کررہا تھا کہ شہنشاہ کے دربار سے حکم آئے اور وہ مٹھی بھر مسلمانوں کا قلع قمع کردے۔ اس کے چار سو سوار ہردم اس کے ہمرکاب تھے۔ ’’مقرون ‘‘ اپنی مرکزی چوکی میں بے چین بیٹھا تھا کہ اس کی نظر ’’باقومچھیرے‘‘ پر پڑی جو لنگڑاتا ہوا اسی سے ملنے کے لیے آرہا تھا ۔ مقرون نہ جانے کیا سوچ کر خوش ہوگیا ۔ اسے باقو سے کوئی اچھی لیکن اچانک خبر ملنے کی توقع تھی ۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے باقو سے ہاتھ ملایا اور اسے اپنے ساتھ بٹھالیا۔
’’کہو! کیسے آنا ہوا؟...........لگتا ہے کوئی اہم بات بتانا چاہتے ہو۔‘‘
مقرون نے بے صبری سے کہا۔ اور باقو کی طرف دیکھنے لگا۔ باقو مچھیرے نے سرہلاتے ہوئے کہا:۔
’’جی ہاں! میں آپ کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ کل شام سورج ڈھلنے کے بعد ہماری بستی کا راہب گھوڑے پر سوار ہوکر ’’رومیلی حصار‘‘ کی جانب گیا ۔ اور پھر ایک گھنٹے بعد واپس لوٹا۔‘‘
مقرون کے بھیجے میں اس اطلاع کی اہمیت نہ آئی۔ اور اس نے کسی قدر برہمی سے کہا:۔
’’تو پھر کیا ہوا؟..........کیا ایک راہب کا کہیں آنا جانا بھی منع ہے۔ وہ ساتھ کی بستی میں گیا ہوگا۔‘‘
’’نہیں ! ہماری بستی کا راہب ساتھ کی بستی میں نہیں گیا ۔ وہ کہیں اور گیا تھا ۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہتاہوں..........میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسی راہب نے یونانی سپاہیوں کو قتل کیا ہے۔‘‘
باقو کی بات سے مقرون سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ۔ اور اشتیاق سے بھرپور لہجے میں کہنے لگا:۔
’’تمہارے اس قدر پختہ یقین کی کیا وجہ ہے؟‘‘
’’وجہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ آپ میری بات غور سے سنیں۔ کل صبح آپ ہماری بستی میں آئے اورآپ نے راہب کو متنبع کیا ۔ اس کا ردِعمل دیکھنے کے لیے میری آنکھیں کل سارا دن راہب پر ہی جمی رہیں۔ پھر جب شام ہوئی تو میں نے دیکھا کہ راہب روزی کے ساتھ گہری باتیں کررہا تھا ۔ میرے کان کھڑے ہوگئے ۔ پھر شام کے بعد راہب اپنی کوٹھڑی میں چلا گیا ۔ اور کوٹھڑی کا چراغ جل اٹھا ۔ تھوڑی دیر بعد روزی آئی اور کوٹھڑی کے باہر پیڑھی ڈال کر بیٹھ گئی۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ کیونکہ ان دونوں کی یہ حرکت خلافِ معمول تھی۔ میں جان بوجھ کر ایسے ہی ٹہلتے ہوئے راہب کی کوٹھڑی کی طرف جانکلا۔ اور میں نے روزی سے پوچھا کہ مقدس باپ کہاں ہے۔ تو روزی نے جواب دیا کہ مقدس باپ کو ٹھڑی میں عبادت کررہا ہے۔ اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔ روزی کی بات سے میرے شک میں مزید اضافہ ہوا۔ اب میں سوچنے لگا کہ کس طرح کوٹھڑی کے اندرجھانک کر دیکھوں۔ لیکن کوٹھی .........کا دروازہ اسی جانب تھا ۔ جس طرف روزی بیٹھی تھی۔ تب میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اور میں نے کہا کہ اصطبل میں جاکر راہب کا گھوڑا دیکھتا ہوں۔ اور اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ اصطبل میں راہب کا گھوڑا نہ تھا ۔ میں اصطبل سے نکل کر قریب ہی ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گیا ۔ لگ بھگ ایک گھنٹے کے بعد روزی آئی اور اس کے ہاتھ میں راہب کے گھوڑے کی لگام تھی۔ اس نے اصطبل میں گھوڑے کو باندھ دیا اور چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں اصطبل کی مشعل لے کر گھوڑے کے نزدیک گیا تو یہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا کہ گھوڑا پسینے سے شرابور ہورہا ہے۔ اور اس کی زین اور جسم پر لہو کے نشانات تھے۔ تب مجھے یقین ہوگیا کہ راہب کوئی خونی واردات کرکے لوٹا تھا ۔ آج سارا دن میں یہ بات بتانے کے لیے آپ کو ڈھونڈتا رہا۔ لیکن آپ مجھے کہیں نہ ملے۔ سالار صاحب! وہی راہب آپ کے سپاہیوں کا قاتل ہے، مجھے یقین ہے۔‘‘
باقو کی بات مکمل ہوتے ہی مقرون تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اور اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر کہا:۔
’’اگر وہ قاتل ہے تو میں ابھی اور اسی وقت اس کی گردن کاٹ کر واپس لوٹوں گا۔‘‘
مقرون کا لہجہ اس قدر مضبوط تھا کہ باقو کی مکروہ باچھیں کھِل اٹھیں ۔ مقرون آندھی اور طوفان کی طرح باہر نکلا اور اپنے ساتھ پچاس سواروں کے ایک دستے کو چلنے کا حکم دیا ۔ کچھ ہی دیر بعد یہ لوگ مچھیروں کی بستی کی جانب اڑے چلے جارہے تھے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)