محاذ آرائی کے باوجود امریکہ ایران مذاکرات کا غالب امکان
واشنگٹن (خصوصی تجزیہ، اظہر زمان)امریکہ اور ایران کے درمیان تصادم کی فضاء کا نیا مرحلہ گزشتہ برس کے آغاز میں اس وقت شروع ہوا تھا جب صدر ٹرمپ نے اس جوہری معاہدے سے باہر نکلنے کا اعلان کیا تھا جو سابق صدر اوبامہ نے طویل ریاضت کے بعد دیگر سٹیک ہولڈرز کے ہمراہ 2015ء میں طے کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے معاہدے کیلئے ضروری توثیق نہیں کی اور مشترکہ جامع لائحہ عمل کہلانے والے جوہری سمجھوتے سے الگ ہو گئے، تاہم دیگر قوتوں نے امریکہ کی تقلید نہیں کی اور تکنیکی اعتبار سے معاہدہ برقرار رہا۔ اس دوران صدر ٹرمپ نے ایران پر مزید پابندیاں لگانی شروع کر دیں۔ ان کے خیال میں ایران اس معاہدے کا فائدہ اٹھا کر خفیہ طور پر اپنی ایٹمی صلاحیت میں اضافہ کرے گا اور ان کی رائے میں وہ اس قوت کو مشرق وسطیٰ میں اپنی دہشت گرد کارروائیوں کو آگے بڑھانے میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس پس منظر کے بعد گزشتہ ماہ ایک نئی تبدیلی آئی جب فرانس میں ہونیوالی جی سیون سربراہ کانفرنس کے میزبان صدر عمینوئل میکرون نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کو بھی وہاں مدعو کرلیا۔ صدر ٹرمپ کو اس کا پہلے سے علم تھا یا نہیں لیکن ان کے بقول صدر میکرون نے کانفرنس سے پہلے انہیں ایرانی وزیر خارجہ کی آمد کا بتا دیا تھا۔ اگرچہ ایرانی وزیر خارجہ نے صدر ٹرمپ یا امریکی وفد سے ملاقات نہیں کی لیکن صدر ٹرمپ کا ان کی شرکت کے بارے میں بہت مثبت ردعمل تھا۔ انہوں نے کانفرنس کے اختتام پر فرانسیسی صدر میکرون کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں ایران کے بارے میں بہت خوشگوار باتیں کیں اور یہاں تک کہہ دیا وہ ایران کے صدر حسن روحا نی کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے تیار ہیں۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ صدر ٹرمپ کے بارے میں مبصرین کا کہنا ہے ان کے بیانات یقیناً بہت سخت ہوتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ مسلسل امریکہ کو دوسرے ممالک کیساتھ جنگوں اور تنازعات سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک بزنس مین ہیں، اسلئے ان کا تمام تر زور اس بات پر ہے کہ کس طرح ان جنگوں اور تنازعات پر خرچ ہونیوالے بجٹ کو بچا کر ترقیاتی کاموں کیلئے استعمال کیا جائے۔گزشتہ ماہ اگست میں ہونیوالی جی سیون سربراہ کانفرنس سے قبل ایران کے آس پاس سمندر میں ایران کیساتھ امریکہ اور یورپی ممالک کے تنازعات پیدا ہوئے اور تمام ترسخت بیانات کے باوجود امریکہ نے عملی لحاظ سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ سربراہ کانفرنس کے موقع پر صدر ٹرمپ نے جہاں ایرانی صدر کیساتھ ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا وہاں یہ بھی پیشکش کر دی کہ ایران کی تیل کی تمام برآمد کے بدلے امریکہ ایران کیلئے لائن آف کریڈٹ بھی کھول سکتا ہے اس کا مطلب ایران پر پابندیوں سے جزوی ریلیف ہو گا اور دونوں ملکوں کے درمیان فضاء بہتر ہو جائیگی۔ صدر روحانی کا اس کے جواب میں ردعمل بہت مثبت تھا لیکن میڈیا نے ہمیشہ کی طرح ان کے بیان کی تفصیل میں سے صرف ان نکات کو نمایاں کیا جن سے اختلافات کا اظہار مقصود تھا۔ صدر روحانی کے ردعمل کے اصل الفاظ ایسے نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا طاقت اور ڈپلومیسی کو ساتھ ساتھ چلانا چاہئے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ سے ملاقات پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ضروری ہے کہ اس سے پہلے پابندیاں اٹھائی جائیں۔ واشنگٹن کے سکیورٹی ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ یوں دکھائی دیتا ہے دونوں ممالک صبر و تحمل کا مظاہرہ کر کے اپنے رویے میں لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایران کیلئے حوصلہ افزاء امر یہ تھا کہ صدر ٹرمپ نے سابقہ حکومتوں کے موقف کے برعکس پہلی مرتبہ یہ واضح کیا کہ امریکہ کیلئے ایران کی موجودہ قیادت قابل قبول ہے اور وہ کسی طریقے سے انہیں اقتدار سے محروم کرنے کی کوشش کرنے میں مصروف نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے قریبی سمندر میں امریکی ڈرون کو مار گرانے کے واقعے کے بعد جوابی طور پر ویسی ہی کارروائی کرنے سے احتراز کیا تھا۔
تجزیہ اظہر زمان