بات کرنی مجھے مشکل ……

 بات کرنی مجھے مشکل ……
 بات کرنی مجھے مشکل ……

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کوئی تیرہ سال ہوئے جب میرے سما ٹی وی کے ابتدائی دَور میں ایک نیم آشنا صحافی نے اچانک پوچھا تھا: ”سما۔۔۔ یہ کیا نام ہوا؟“ عرض کیا ”جیسے ارض و سما“۔ ”کیا مطلب؟“ ”یہی کہ گر ارض و سما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو “۔ ”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“ ”ارے بھئی، وہ شمع اجالا والی مشہور نعت“۔ ”نعت۔۔۔ کِس کی نعت؟“ ”مولانا ظفر علی خاں کی“۔ ”وہ کون تھے؟“ یہاں پہنچ کر مَیں بے بس ہو گیا۔ مقبول اُستاد اور گورڈن کالج کے پرنسپل خواجہ مسعود کی طرح یہ کہنے کو دل چاہا کہ پھڑ جُتی تے مار میرے سِر وچ۔ ظفر علی خاں کی منفرد ادبی و صحافتی خدمات کے باوجود میرا شُمار اُن کے جذباتی پرستاروں میں نہیں۔ دھچکا اِس لیے لگا کہ انسان سوچ کے بہاؤ میں جن روزمرہ سچائیوں کا زادِ سفر تھامے تیر رہا ہوتا ہے، کسی نے اُن کی پوٹلی چھین کر میرے منہ پہ دے ماری تھی۔


 ایسی ہی بے بسی اب سے چار روز پہلے اپنے ہی ڈرائنگ روم میں محسوس ہوئی۔ بیوی، بیٹی رابعہ اور اُن کے شوہر سعد سے باتیں ہورہی تھیں کہ نماز کے سلسلے میں مجھے ’ایزو ٹیرک‘ کا لفظ برتنا پڑ گیا۔ بیگم نے معنی پوچھے۔ ”آپ باطنی تجربہ کہہ لیں“۔ اِس پر ولایت کی ’جم پل‘ رابعہ نے بائیں آنکھ سکیڑ کر شمال سے شمال مغرب کی طرف دیکھا: ”باطنی؟؟“ ”ہاں بیٹا، اندرونی یا داخلی، جیسے ہم کہتے ہیں ظاہر اور باطن“۔ یہ سُن کر رابعہ اور سعد دونوں نے تائید میں سر ہلا دیے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اپنے بچوں کے مقابل مَیں خود ٹیسٹ میں پاس ہو گیا ہوں۔ یہ اِس لیے کہ ایک مرتبہ وقت نیوز میں اسکرپٹ دیکھتے ہوئے ’شور و غوغا‘ کا ٹ کر پہلے ’شور و شغب‘ اور پھر ’شور و غل‘ لکھا تو پریزنٹر کے چہرے پہ سوالیہ نشان سے لگا تھا کہ خود ممتحن کی سپلی آگئی ہے۔ آخر جب ’شور شرابا‘ کہا تو آواز آئی: ”اب بات بنی ہے“۔

 ویسے ممتحن کی سپلی تو ہر دوسرے تیسرے دن آ ہی جاتی ہے۔ اردو میں بات کرتے ہوئے قوم کو نیشن، معیشت کو اکانومی، جغرافیہ کو جیوگرافی اور سماج کو سوسائٹی کہنا پبلک کے اصرار پر معمول بن چکا۔ یہ تو ہوئے الگ الگ لفظ جبکہ تراکیب اور ذیلی و مکمل جملے اِن کے علاوہ ہیں۔ جیسے ’پڑھے لکھوں‘ کی محفل میں ایک روز اتنا کہنے کی جسارت کی کہ ”اگر آپ میری تجویز پر غور فرمائیں تو مسئلے کا حل نکالنا آسان ہو جائے گا“۔ سب کو لگا کہ مَیں پاکستان کی نہیں مدغاسکر کی زبان بول رہا ہوں۔ شدید نا پسندیدگی کے لہجے میں اتنے سوالات ہوئے، اتنے سوالات ہوئے کہ مجھے گھبرا کر کہنا پڑا: ”آئی ایم سوری، آئی مِین۔۔۔ اگر آپ میری پروپوزل کو کنسِڈر کریں تو پرابلم کا سولیوشن اِیزی ہو جائے گا“۔ اولین سپلی اردو چینل سما کے چئیرمین کے ہاتھوں آئی تھی جنہوں نے میٹنگ میں ’تشخص‘ سُن کر برا سا منہ بنایا اور مجھے ’آئیڈنٹیٹی‘ کہنا پڑا۔ 
 یہ حرکت تو تنخواہ کے تحفظ کی ذیل میں آ گئی مگر کلاس روم میں پیشہ ورانہ تدریس کے پیشِ نظر کوئی طے شدہ لسانی پالیسی تو ہو گی؟ 


یہ سوال جتنا دلچسپ ہے اتنا ہی گمراہ کُن بھی ہے؟ نو سال قبل ایک طویل وقفہ سے وطنِ عزیز کی قدیم ترین یونیورسٹی میں جُز وقتی استاد کے طور پہ جانا ہوا تو میرا پہلا سوال تھا کہ ابلاغیات کے مضامین کے لیے ذریعہء تعلیم اردو ہے یا انگریزی۔ مرحوم ڈائرکٹر احسن اختر ناز مسکراتے ہوئے کہنے لگے: ”کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ کو دونوں زبانیں آتی ہیں۔“ ”ڈاکٹر صاحب، مسئلہ میرا نہیں، مسئلہ اُن کا ہے جنہیں پڑھانا مقصود ہے“۔ ایک خاتون ٹیچر نے البتہ دھیمی آواز میں کہا: ”ذریعہء تعلیم تو انگلش ہے، اردو اِنہوں نے خود ہی میڈیم بنا لی ہے“۔”تو پھر ساٹھ چالیس کر لیں؟ تھیوری بزبانِ انگریزی، مثالیں اور سوال جواب دونوں میں، ہاسا مخول کے لیے اردو۔ سب نے کہا درست۔

 اب قارئینِ کرام میری سوچ پر یہ کہہ کر اعتراض کر سکتے ہیں کہ بھائی اتنا تکلف کیوں، اردو تو ہے ہی لشکری زبان، جس میں شامل ہونے کے لیے رنگ و نسل اور علاقہ کی کوئی قید نہیں۔ اسی لیے کوئی لغت اٹھا لیں، ہر لفظ کے آگے بریکٹ میں ع، ف، ت اور ہ جیسا کوئی نہ کوئی حرف درج ہو گا۔ یہ اُس مآخذ کا اشارہ ہوتا ہے جہاں سے وہ لفظ آپ کے یہاں در آیا۔ رہے انگریزی کے الفاظ اور تراکیب تو لشکری زبان میں اِن کی بھرتی اُتنے بڑے پیمانے پہ ہے جیسے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوج میں پنجابی مسلمانوں کی نفری۔ کاپی، پنسل، اسکول، کالج سے لے کر فائل، ڈرافٹ، اپروول، پے منٹ اور نہ جانے کون کون سی دیگر اصطلاحات آپ کے پڑھے لکھوں کی روز مرہ کا حصہ بنیں۔ اور یہ سب ایسے نا محسوس عمل کے ذریعے ہوا کہ اب تو بیگانگی کا شائبہ نہیں گزرتا۔


 یہی نہیں، اپنے موقف کو جھٹلانے کی غرض سے میرے پاس کچھ زوردار دلائل اِن کے علاوہ بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہردم تبدیلی سے دوچار رہنا ہی کسی زبان کی بقا اور ترقی کی شرط ہوا کرتا ہے۔ زبان کسی بھی مقام پر پہنچ کر ہمیشہ کے لیے بالکل منجمد ہو جائے تو سمجھیں کہ اُس کا وجود خطرے میں ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال جو زبانیں اور بولیاں معدوم ہوتی جا رہی ہیں اُن کے دستیاب اعداد و شمار بہتوں کے لیے حیران کُن ہوں گے۔ اِسی سے جڑا ہوا ایک نکتہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ ہے۔ پچھلی صدی کے شروع میں کاریں آئیں تو اسپیڈو میٹر، کلچ، بریک سے لے کر کا ربوریٹر، گئیر بکس اور سسپنشن تک کی اصطلاحات ہمارے نیم خواندہ مستری کی زبان پہ بھی چڑھ گئیں۔ پھر کیمرہ اور کیمرے کے ساتھ لائٹ، آئرس، اپرچر اور ڈسٹینس کے الفاظ۔ اب کمپیوٹر اور موبائل کی زبان زدِ عام اصطلاحات۔


 ٹیکنالوجی، بین الاقوامی نقل و حرکت، ذرائع ابلاغ اور دیگر شعبوں کے زیرِ اثر اردو میں نئی لفظیات داخل ہونے کا رجحان اتنا طاقتور ہے کہ اِس کے آگے بند باندھنا تو قریب قریب ناممکن سمجھیں۔ زیادہ اہم سوال ہے ہمارے تقسیم در تقسیم ہوتے ہوئے معاشرہ پر اِس کے اثرات۔ تو کیا اِن اثرات کی بدولت سماجی ٹیلوں اور ٹِبوں کو ہموار کرنے میں مدد ملے گی یا یہ اونچ نیچ اور ناہموار ہوتی چلی جائے گی؟ یہ اِس پہلو سے کہ ترقی پذیر ممالک میں زبان اظہار کا شعوری وسیلہ ہی نہیں، اختیار کا نامحسوس آلہ بھی ہوا کرتی ہے۔ کئی برس پہلے ہمارے ایک دوست کا دس سالہ بیٹا، جو والدین کے ساتھ نیا نیا اسلام آباد منتقل ہوا تھا، روتا روتا گھر میں داخل ہو ا تو باپ کے پوچھنے پر کہنے لگا کہ گلی میں ایک لڑکے نے مارا ہے۔ ”تم بھی اُسے مارتے“۔ ”مَیں کیِہہ کردا؟ نالے ماردا سی تے نالے اردو بولدا سی“۔


 بات ساٹھ چالیس کے فارمولے سے شروع ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ مستند ماہرِ لسانیات ڈاکٹر طارق رحمان نے بھی اپنے تدریسی تجربے کی روشنی میں اِس ’کوڈ سوئچنگ‘ کی تکنیک سے اتفاق کیا۔ میرا بنیادی مضمون نشریاتی صحافت ہے۔ اس لیے میرے نزدیک اِس کا مطلب یہ تھا کہ کسی موضوع پر متعلقہ متن انگریزی میں سمجھا دوں۔ پھر سوال جواب کسی بھی زبان میں ہو جائیں تاکہ طالب علم کو کچھ بھی پوچھنے میں تامل نہ ہو۔ اسی طرح پانچ پانچ، چھ چھ لڑکے لڑکیوں کے گروپ بنا کر ہر ایک کے ذمہ ایک نیوز بلیٹن کی تیاری۔ اِس کے لیے خبریں چھانٹنا یا اخباری تراشوں اور نیوز ایجنسی کے مواد کو ریڈیو ٹیلی ویژن کے نقطہء نظر سے قدرے مکالماتی لہجہ میں دوبارہ لکھنا، ہر خبر کی سُرخی اور موضوعاتی، جغرافیائی یا اہمیت کی جہت کے حساب سے خبر نامہ کی مجموعی ترتیب، یہ سب شامل ہوتا ہے۔ تو پھر دِقت کیا ہے؟


 میری دِقت وکھری ٹائپ کی ہے۔ اور وہ ہے میرے اور میرے طلبہ کے درمیان ذخیرہء الفاظ کا فرق۔ مَیں عربی اور فارسی کے زیرِ اثر لاؤڈ اسپیکر کو آلہء مکبر الصوت نہیں کہتا، نہ میرا زور سماجی علوم کی اُن اصطلاحات پہ ہے کہ جن کا سلسلہ 1903 ء میں علامہ اقبال نے اکنامکس پر اولین نصابی کتاب ’علم الاقتصاد‘ کی تالیف سے کیا تھا۔ میری مشکل کا دائرہ تو روزمرہ الفاظ تک ہے۔ جیسے اردو میں سمجھاتے ہوئے اگر اوپر کے دو جملے (’مندرجہ بالا‘ نہیں کہوں گا) مجھے کلاس روم میں (کمرہء جماعت متروک ہو چکا) کہنے پڑیں تو طلبہ کی خاطر منہ سے ذخیرہء الفاظ، فرق، فارسی، سماجی علوم اور اصطلاحات کے لیے ’ووکیبلری‘، ’ڈِفرینس‘، ’پرشئین‘، ’سوشل سائنسز‘ اور ’ٹرمینولوجی‘ ہی نکلے گا۔ اِس لیے نشریاتی زبان رُک رُک کر بولتا ہوں اور بولتے بولتے رُک جاتا ہوں۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو بھی بدلے ہوئے حالات میں عجزِ بیاں کا ایسا ہی مرحلہ درپیش تھا:
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی 


 

 
 

مزید :

رائے -کالم -