الزامات کی برسات. مجیب الرحمن شامی کا تازہ کالم

الزامات کی برسات. مجیب الرحمن شامی کا تازہ کالم
الزامات کی برسات. مجیب الرحمن شامی کا تازہ کالم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ نے اپنے خلاف سوشل میڈیا کا ایک بڑا حملہ(تادم تحریر) ناکام  بنا دیا ہے۔ انہوں نے معاون خصوصی کے طور پر کام کرنے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کی خدمت میں پیش کر دیا تھا۔ارادہ ظاہر کیاگیا تھا کہ صرف سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کے طور پر خدمات جاری رکھی جائیں گی، اور سیاسی معاملات سے دوری اختیار کر لی جائے گی۔ہر چند کہ اُنہیں کسی سیاسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے نہ پایا گیا، نہ دیکھا گیا۔ انہوں نے اپنا دامن سمیٹ رکھا تھا، اور وزارتِ اطلاعات کے تکنیکی امور ہی پر توجہ مرکوز کرنے میں مصروف دکھائی دیتے تھے، لیکن پھر بھی وہ نشانے پر تھے۔ انہوں نے اپنے خلاف لگائے جانے والے ”نورانی الزامات“ کا نکتہ وار جواب دینے کے بعد وزیراعظم کی معاونت سے دستبرداری کا اعلان کیا، تو عزیزم بلاول بھٹو زرداری نے ڈنکے کی چوٹ دال میں کالا تلاش کر لیا۔ان کا کہنا تھا کہ جواب دینے کے بعد بھی اگر استعفیٰ دیا جا رہا ہے تو پھر کچھ نہ کچھ کالا تو ہو گا ہی۔جنرل باجوہ نے یہ فیصلہ شاید جلد بازی میں کر لیا تھا یا پھر ان کے حلقہ ئ مشاورت میں جلد باز موجود تھے،وجہ جو بھی ہو، وزیراعظم نے(شاید پہلی بار) جلد بازی کے مظاہرے میں شریک ہونے سے انکار کر دیا، جواب پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے،استعفیٰ واپس جنرل صاحب کی جیب میں ڈال(یا ٹھونس) دیا۔باجوہ صاحب پر حملہ اتنا شدید تھا، اور گولہ باری اس شدت  اور تسلسل سے کی جا رہی تھی کہ صحافیوں کا جینا دوبھر ہو گیا تھا۔جگہ جگہ لوگ گھیر لیتے تھے، یا یہ کہیے کہ گریبان پکڑنے پر تیار نظر آتے تھے کہ آپ نے منہ میں گھنگھنیاں کیوں ڈال رکھی ہیں؟سچ سچ بتایے،زبان پر تالہ کس نے لگایا ہے؟ طعنے دینے والے اس ”خاموشی“ کی پاداش میں ہمارا سارا ماضی چھین لینے کے در پے تھے۔ زبان یہ جواب دے دے کر تنگ آ گئی تھی کہ بھائی، اگر کوئی ایک شخص کسی ایک شخص پر الزام لگاتا ہے یا اس کی مبینہ تحقیق اسے کسی نتیجے تک پہنچاتی ہے، تو تمام صحافیوں پر  لازم نہیں ہو جاتا کہ وہ قومی فریضہ سمجھ کر اُس کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیں۔ان کو اپنی جستجو کے نتیجے میں کوئی رائے قائم کر نے کا حق حاصل رہتا ہے،لیکن اس توجیہہ کو بزدلی قرار دے کر حقارت کی نگاہ سے دیکھنے والے ”جوق در جوق“ موجود تھے، ان سے اپنی عزت بچانا ہمالہ سر کرنے کے مترادف تھا۔ 


گذشتہ کچھ عرصے سے ہمارا معاشرہ الزامات کی تجارت میں مصروف ہے۔ ہر سیاست دان اپنے مخالف پر ہر حملہ کرنا روا سمجھتا ہے، اسے چور اچکا نہیں، ڈاکو، لٹیرا، دہشت گرد اور جانے کیا کیا قرار دینے پر مصر رہتا ہے۔کئی اہل ِ صحافت بھی کبھی دائیں اور کبھی بائیں آنکھ کے اشارے پر ٹوٹ کر حملہ آور ہونے کو جہاد قرار دیتے چلے آ رہے ہیں۔اس کارِ خیر میں بہت سوں کو کئی بار آسمانی آشیر باد بھی حاصل رہی ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ جب شہباز شریف آصف علی زرداری سے ملنے جاتے ہیں تو دیکھنے والے دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں۔ڈاکٹر صفدر محمود جیسے ثقہ لکھاری بھی ردعمل روک نہیں پاتے، اور زرداری کے گلے میں صافہ ڈال کر انہیں گھسیٹنے کے شہبازی اعلانات یاد دِلا گذرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی انیس، بیس سالہ جدوجہد کے دوران ہر موضوع پر، ہر حلیف اور ہر حریف کے بارے میں ہر طرح کا تبصرہ کیا ہوا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی الماریاں ان کی ٹیپوں (TAPES) سے بھری پڑی ہیں۔وہ جب بھی زبان کھولتے ہیں، ان کے پرانے اور نئے فدائی ان کا کوئی نہ کوئی ارشاد ڈھونڈ لاتے،اور سننے والوں کی تفنن طبع کا سامان کر ڈالتے ہیں۔

پاکستانی صحافت اور سیاست کاروباری اداروں کے کپڑے اتارنے میں بھی پیچھے نہیں ہے،ہر کاروبار یہاں ”مافیا“ ہے۔ شوگر ہو یا سیمنٹ، یا گندم، ہر طرح کے کاروباریوں کو ”مافیا“ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔بڑے بڑے جغادری میڈیا پرسنز بھی صنعتی اور کاروباری حلقوں کو ”مافیا“ کہہ کر یاد کرتے ہیں اور ان کے خلاف عوامی غیظ و غصب کو ابھارتے ہیں، پاکستان کی صنعتی ترقی قابل ِ رشک نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زمانے سے سرمایہ کاروں کو تختہئ مشق بنانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ آج بھی جاری ہے۔صنعتوں کو  سرکاری قبضے (نام نہاد نیشنلائزیشن) میں لینے کی جو وبا بھٹو دور میں شروع ہوئی تھی،اس کورونا وائرس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ صنعت کاروں اور تاجروں کی توہین و تذلیل کا عمل آج بھی جاری ہے۔ پاکستان کی برآمدات اس کی درآمدات کے مقابلے میں کم ہیں۔اس کے محصولات چار  ہزار ارب کے گرد گھوم رہے ہیں۔اس کے ذہین افراد بیرون مُلک جاتے چلے جا رہے ہیں، 22کروڑ افراد کا ملک صنعتی میدان میں کسمپرسی کا شکار ہے۔ اپنے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی نہیں کر پا رہا۔ان کے لیے بزنس کرنا آسان نہیں کر پا رہا۔ہر سرکاری محکمہ ان کی راہ میں روڑے اٹکاتا اور قبل از وقت ہی اپنی جیبیں بھرنا چاہتا ہے۔کاروباری اداروں کے معاملات کبھی نیب کے سپرد کیے جاتے ہیں، کبھی ایف آئی اے کے۔ اور تو اور شوگر انڈسٹری کی مشکیں کسنے کے لیے ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جن کی بدولت مل مالکان کو  جیلوں میں ڈالا جا سکے گا یا بھاری جرمانے عائد کئے جا سکیں گے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر جگہ سب اچھا ہے یقینا بہت کچھ اصلاح طلب ہے۔بہت کچھ غلط ہو رہا ہے،لیکن اسے درست کرنے کے لیے وہی اقدامات کرنا ہوں گے، جن کے ذریعے ترقی یافتہ قومیں آگے بڑھی ہیں۔دور نہ جایے، بھارت (بلکہ بنگلہ دیش) ہی کی مثال لے لیجیے،انہوں نے کس طرح سرمایہ کاروں کے سر پر ہاتھ رکھا ہے۔  یہ مان لینا چاہیے کہ صنعت کاروں اور کاروباریوں کی مشاورت کے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں ہو گی۔ صنعتی شعبے کی نگرانی اور احتساب کے لئے قائم اداروں (ایف بی آر، اسٹیٹ بنک،ایس ای سی پی، مسابقی کمیشن) کو موثر اور مضبوط بنا کر ان پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ عدلیہ سمیت تمام اداروں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ صنعتی شعبے کی حوصلہ افزائی اور  مشکلات میں کمی کے لئے ہر ممکن اقدام کو اولین ترجیح دی جائے گی۔سرکاری اور غیر سرکاری شعبے میں جو تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں، بڑے بڑے منصب داروں کو جو سہولتیں اور آسائشیں فراہم ہو رہی ہیں، یہ سب صنعتی گاڑی چلنے ہی کا نتیجہ ہے، یہ گاڑی تیز تر نہ چلی (بلکہ رُک گئی) تو سب بیٹھے کے بیٹھے رہ جائیں گے۔ حرکت قلب بند ہو جائے تو ہاتھ اور پاؤں، آنکھیں اور کان اپنی اپنی جگہ پڑے رہ جاتے ہیں۔ان کی چلنے پھرنے، دیکھنے اور سننے کی صلاحیتیں خودبخود سلب ہو جاتی ہیں۔کوئی ملک اگر اپنے اخراجات اپنی آمدنی سے پورے نہیں کر سکتا اور کشکول اٹھا کر اس کے سربراہان در بدر پھرتے ہیں،تو پھر اس کے مستقبل کے بارے میں کسی نجومی یا جوتشی سے زائچہ بنوانے کی ضرورت نہیں۔ غیر ملکی  سرمایہ کاروں کو طرح طرح کی مراعات  پیش کرنا، اور اپنے باوسیلہ افراد کو مرغا بنائے رکھنا،  ترقی کی علامت ہے نہ ضمانت۔جان اور مال کے ساتھ ساتھ عزت کی حفاظت بھی لازم ہے۔ اہل ِ سیاست ہوں، اہل ِ صحافت ہوں یا اہل ِ معیشت،انہیں ایک دوسرے یا تیسرے کے ہاتھوں نازل ہونے والی الزام و دشنام کی بارش سے بچانا لازم ہے۔ اس کے لیے ہتک عزت کے قوانین کو موثر بنانا ہو گا۔ جہاں معمولی سیاسی ہنگامہ آرائی پر تو انسداد دہشت گردی ایکٹ کا اطلاق کرکے اپنے مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کو قومی فریضہ سمجھا جائے، وہاں عام شہریوں،بلکہ کماؤ پوتوں کی عزت سے کھیلنے کی عام اجازت ہو تو وہاں کون انویسٹ کرے گا، اور کون اپنا آپ داؤ  پر لگائے گا۔ ہر بازارپر ”اُس بازار“ کا  لیبل لگانے سے ہر بازار کا  کاروبار ٹھپ ہو جائے گا؎
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں 
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور  روزنامہ ”دُنیا“  میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

مزید :

رائے -کالم -